سارہ بشارت گیلانی
محفلین
ملی اک اجنبی سے میں
انوکها سا تها وہ لڑکا
بہت اپنایت سی تهی
چمکتی شوخ آنکھوں میں
گلابی نرم ہونٹوں میں
بڑا ٹھہرا ہوا مدهم سا کچھ انداز تها اس کا
اسی انداز نے اک آگ کو مجھ میں ہوا دی تهی
کہی کچھ بات پهر میں نے
کہے کچھ لفظ پهر اس نے
کچھ ہی لمحوں میں میرے دل میں اس نے یوں جگہ کر لی
ملاقاتیں مگر انجام کو تو آ ہی جاتی ہیں
تو پهر جتنی بهی ہوں پیاری بہت رنگیں بہت میٹهی
وہ باتیں بهی مگر انجام کو تو آ ہی جاتی ہیں
تو یوں وہ سلسلہ ٹوٹا
وہ اپنی راہ، میں اپنی ڈگر پہ پهر رواں ہوں پر
وہ اک خاموش سا لڑکا
جو کل تک اجنبی سا تها
ہمیشہ کے لئے دل کے کسی کونے میں آ بیٹھا
انوکها سا تها وہ لڑکا
بہت اپنایت سی تهی
چمکتی شوخ آنکھوں میں
گلابی نرم ہونٹوں میں
بڑا ٹھہرا ہوا مدهم سا کچھ انداز تها اس کا
اسی انداز نے اک آگ کو مجھ میں ہوا دی تهی
کہی کچھ بات پهر میں نے
کہے کچھ لفظ پهر اس نے
کچھ ہی لمحوں میں میرے دل میں اس نے یوں جگہ کر لی
ملاقاتیں مگر انجام کو تو آ ہی جاتی ہیں
تو پهر جتنی بهی ہوں پیاری بہت رنگیں بہت میٹهی
وہ باتیں بهی مگر انجام کو تو آ ہی جاتی ہیں
تو یوں وہ سلسلہ ٹوٹا
وہ اپنی راہ، میں اپنی ڈگر پہ پهر رواں ہوں پر
وہ اک خاموش سا لڑکا
جو کل تک اجنبی سا تها
ہمیشہ کے لئے دل کے کسی کونے میں آ بیٹھا