ملے غم سے اپنے فرصت، تو سنائیں وہ
ملے غم سے اپنے فرصت، تو سنائیں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ زمانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنّا، کبھی کوششِ مداوہ
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ
مرے قہقہوں کی زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی رَو میں کبھی تلخیِ زمانہ
کبھی میں ہوں تجھ سے نالاں، کبھی مجھ سے تو پریشاں
کبھی میں ترا ہدف ہوں، کبھی تو مرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد، جسے چھُو سکا نہ صوفی
وہی تار چھیڑتا ہے مرا سوزِ شاعرانہ
کلامِ معین احسن جذبی
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ زمانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنّا، کبھی کوششِ مداوہ
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ
مرے قہقہوں کی زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی رَو میں کبھی تلخیِ زمانہ
کبھی میں ہوں تجھ سے نالاں، کبھی مجھ سے تو پریشاں
کبھی میں ترا ہدف ہوں، کبھی تو مرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد، جسے چھُو سکا نہ صوفی
وہی تار چھیڑتا ہے مرا سوزِ شاعرانہ
کلامِ معین احسن جذبی