نور وجدان
لائبریرین
یہ نگاہ مست وار کی مست واری ،یہ دو نینوں کی رقص ، یہ حلقہِ فکر میں باریشوں کی محفل ، یہ جذب میں مجذوب کی دھمال ، یہ اللہ ھو اللہ ھو کی صدائیں ، یہ سب اعجازِ نظر ہے ، ایک دفعہ کسی اللہ والے سے مل لو تو اللہ والے ہو جاتے ہو ، اک دفعہ اللہ والے سے مل لو تو اللہ والوں سے مل لیتے ہو ، اک دفعہ مل جائیں اللہ والے تو مست و مہجور و مجذوب ہوجاؤ ، مگر نصیب شعور والوں کا کہاں کہ مجذوب ہو جائیں ۔۔۔ یہ جو رات چھائی ہے جس کے ماتھے پر چودھویں کا چاند چمک رہا ہے یہ اللہ جی کی نشانی ہوتی ہے ، جب بھی کوئی اللہ والا ملتا ہے اندھیرے میں پھیلا نور اشجار کی رگوں سے نکلتا ہے اور پہاڑوں کی سطح پر جم جاتا ہے یہ نور پتوں کو جھکا دیتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کون ہے شہ رگ سے قریب ؟ کہا جاتا ہے اللہ ، اللہ کے دوست جو اللہ کی یاد دلاتے ہیں ،،، پوچھا جاتا ہے کون ہے حبیب ، بتایا جاتا ہے جب محفل سجتئ ہے تو اللہ ھو کا ذکر کرنے والے اس کا ذکر کرتے ہیں ، اک ہاتھ میں اسکی قدرت کا عصا ہوتا ہے جو زمین پر جب مارا جاتا ہے تو نعرہِ حیدری کی بازگشت دالانوں سے ہوتی آسمانوں تک جاتی ہے
یا علی ، یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی
حال والو ،میرا حال تو دیکھو ، کمال والو کچھ اپنی تو سنُاو ا ، طریقہِ وضو کیا ہے ؟ چشمہِ نہاں سے نکلتی نہریں ، پانی جو سیراب کیا جائے تو ذکر جاگ جائے ، جب ذکر جاگ جاتا ہے تب لہو سے صدائیں نکلتی ہیں
یا علی مرتضی ، یا علی مجتبی ، یا علی یا حیدر ۔۔۔
شمس کی جب کھال کھینچی گئی تھی تو کس نے پوچھا تھا حسن کہاں سے آیا ؟ کسی نے کہا تھا حسین کون ؟ کسی نے کہا تھا تو کہا تھا شمس فنا ہوگیا ، شمس کی فنائیت میں مٹی وفا کی تھی ، اسکی مہک دبستانِ اہل وفا کے لیے مثال ہوگئ ، کون ہوتے ہیں جو احساس کرتے ہیں اسکا کہ جب کوئی دوست آئے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ مہمان نواز زیادہ کون ؟ مہمان یا میزبان؟ فرق نہیں رہتا مہمان کا میزبان کا ، اک ہی برتن میں جب تناول ہوتا ہے تو فرق مٹ جاتا ہے ، جب مئے اک ہوجائے تو جواز نہیں رہتا ،تو اور میں کا ۔۔۔۔بس رقص کیا جاتا ہے ، حال والو دیکھو حال ۔۔۔ کمال والو بتاؤ اپنی کچھ ۔۔۔۔
ملتان کا شہر مدینتہ اولیاء ہے ، جواز بنتا ہے نہ کہ یہ تجلیات کی وجہ سے حدت ہوگئ یا کہ شمس شمس کے لیے بیتاب ہوگیا ہوگا ، شمس کو شمس کی تلاش ہوگی ، شمس کی گرمی میں سرمہِ وصال بھی تھا ، ملال ِ ہجر کا زیاں جاتا رہا
دل میں بس جانے کو کیا پتا کہ شمس کی گرمی سے زمانہ مہجور ہوجاتا ہے ، ماننی پڑتی ہے روشنی کی ، روشنی کی مثال کہاں ہوگی َ؟ روشنی تو خود اپنی مثال ہے ، روشنی میں چھپا بذات خود اک کمال ہے ، جب کھال کھینچی گئی تھی تو ملال سے زیادہ وصال کا مزہ تھا ، وصال زیادہ شدت سے محسوس ہوتا دکھا تھا ، زخم جاتا رہا ، حلاوت گھلتی رہی کہتے ہیں نا کہ
عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ، عشق کرواہٹ میں حلاوت ہے
عشق خونزیری کی علامت ہے ، عشق عاشق کی جلالت ہے
ایسی قربانی جو اپنی مثال آپ ہو ، مثال ہوتی ہے خیال میں سماتی ہے اور خیال رقص کرتا رہتا ہے ، خیال محو رقص ہو تو قربانی کا احساس تک نہیں ہوتا ، سب سود کی طرح واپس ہوتا رہتا ہے ،یہ زمانہ ،یہ دولت یہ تاج کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں ، عشق اپنے عصا کیساتھ جب دھمال ڈالتا ہے تو قادرِ قضا کو جلال آجاتا ہے ، جلال ایسا کہ وصل شیریں ہوجاتا ہے ، وصل ایسا کہ وصل کی مثال نہیں ملتی ہے ، طریقہ وضو طریقہ بندگی تک کامل ہوجاتا ہے اور بندہ صاحب حال ولی ہوجاتا ہے ، حال والو ، دیکھو میرا حال ، کمال والو سناؤ اپنے کمالات ۔۔۔
کمال کی بندگی میں سرجھکا رہا ، ذکر یار نے محو اتنا رکھا ، کچھ ہوش نہ رہا سوائے رقص یار میں گردش کرنے کی ، دنیا نے دیکھا کہ مجھے دو حصوں میں بانٹا گیا ہے مگر میرے دو حصے ایک ہوگئے میرا بچھڑا یار مل گیا میری آزمائش میں ، بچھڑا یار تو آزمائش میں ہی ملتا ہے ، ہاں ہاں ، ٹھیک کہا ، وہ تو آزمائش میں ہی ملتا ہے ۔۔۔ آزمائش کے بعد راہ جو سیدھی ہوجاتی ہے اور کمال نصیب ہوجاتا ہے
یا علی ، یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی
حال والو ،میرا حال تو دیکھو ، کمال والو کچھ اپنی تو سنُاو ا ، طریقہِ وضو کیا ہے ؟ چشمہِ نہاں سے نکلتی نہریں ، پانی جو سیراب کیا جائے تو ذکر جاگ جائے ، جب ذکر جاگ جاتا ہے تب لہو سے صدائیں نکلتی ہیں
یا علی مرتضی ، یا علی مجتبی ، یا علی یا حیدر ۔۔۔
شمس کی جب کھال کھینچی گئی تھی تو کس نے پوچھا تھا حسن کہاں سے آیا ؟ کسی نے کہا تھا حسین کون ؟ کسی نے کہا تھا تو کہا تھا شمس فنا ہوگیا ، شمس کی فنائیت میں مٹی وفا کی تھی ، اسکی مہک دبستانِ اہل وفا کے لیے مثال ہوگئ ، کون ہوتے ہیں جو احساس کرتے ہیں اسکا کہ جب کوئی دوست آئے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ مہمان نواز زیادہ کون ؟ مہمان یا میزبان؟ فرق نہیں رہتا مہمان کا میزبان کا ، اک ہی برتن میں جب تناول ہوتا ہے تو فرق مٹ جاتا ہے ، جب مئے اک ہوجائے تو جواز نہیں رہتا ،تو اور میں کا ۔۔۔۔بس رقص کیا جاتا ہے ، حال والو دیکھو حال ۔۔۔ کمال والو بتاؤ اپنی کچھ ۔۔۔۔
ملتان کا شہر مدینتہ اولیاء ہے ، جواز بنتا ہے نہ کہ یہ تجلیات کی وجہ سے حدت ہوگئ یا کہ شمس شمس کے لیے بیتاب ہوگیا ہوگا ، شمس کو شمس کی تلاش ہوگی ، شمس کی گرمی میں سرمہِ وصال بھی تھا ، ملال ِ ہجر کا زیاں جاتا رہا
دل میں بس جانے کو کیا پتا کہ شمس کی گرمی سے زمانہ مہجور ہوجاتا ہے ، ماننی پڑتی ہے روشنی کی ، روشنی کی مثال کہاں ہوگی َ؟ روشنی تو خود اپنی مثال ہے ، روشنی میں چھپا بذات خود اک کمال ہے ، جب کھال کھینچی گئی تھی تو ملال سے زیادہ وصال کا مزہ تھا ، وصال زیادہ شدت سے محسوس ہوتا دکھا تھا ، زخم جاتا رہا ، حلاوت گھلتی رہی کہتے ہیں نا کہ
عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ، عشق کرواہٹ میں حلاوت ہے
عشق خونزیری کی علامت ہے ، عشق عاشق کی جلالت ہے
ایسی قربانی جو اپنی مثال آپ ہو ، مثال ہوتی ہے خیال میں سماتی ہے اور خیال رقص کرتا رہتا ہے ، خیال محو رقص ہو تو قربانی کا احساس تک نہیں ہوتا ، سب سود کی طرح واپس ہوتا رہتا ہے ،یہ زمانہ ،یہ دولت یہ تاج کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں ، عشق اپنے عصا کیساتھ جب دھمال ڈالتا ہے تو قادرِ قضا کو جلال آجاتا ہے ، جلال ایسا کہ وصل شیریں ہوجاتا ہے ، وصل ایسا کہ وصل کی مثال نہیں ملتی ہے ، طریقہ وضو طریقہ بندگی تک کامل ہوجاتا ہے اور بندہ صاحب حال ولی ہوجاتا ہے ، حال والو ، دیکھو میرا حال ، کمال والو سناؤ اپنے کمالات ۔۔۔
کمال کی بندگی میں سرجھکا رہا ، ذکر یار نے محو اتنا رکھا ، کچھ ہوش نہ رہا سوائے رقص یار میں گردش کرنے کی ، دنیا نے دیکھا کہ مجھے دو حصوں میں بانٹا گیا ہے مگر میرے دو حصے ایک ہوگئے میرا بچھڑا یار مل گیا میری آزمائش میں ، بچھڑا یار تو آزمائش میں ہی ملتا ہے ، ہاں ہاں ، ٹھیک کہا ، وہ تو آزمائش میں ہی ملتا ہے ۔۔۔ آزمائش کے بعد راہ جو سیدھی ہوجاتی ہے اور کمال نصیب ہوجاتا ہے