گل زیب انجم
محفلین
مماثلت :-
تحریر :- گل زیب انجم.
چھب اور کھب دو ایسے لفظ ہیں جن کو ہم اکثر سنتے آئے ہیں لیکن کبھی ان پر غور نہیں کیا کہ ایک انداز و اسٹائل میں بلائے جانے والے لفظ آپس میں کتنی مماثلت رکھتے ہیں.
چھب سے جب ہم تھوڑے سیانے ہوئے تو کچھ کچھ سے شناسا سے ہو چکے تھےخاص کر ان دونوں میں جب ایک ہی عمر کے لڑکوں کو کہتے سنتے تھے توں میغی بڈا چھبنا ایں. یہ چھبنا ایک دن بانفس نفیس ہمیں بھی اپنے محلے دار(بابو خالد) سے سننا پڑا لیکن یہ چھبنا دوسروں کے چھبنے سے ذرا الگ تھا کیونکہ ہماری تشویش پر انہوں نے بتا دیا تھا کہ یہ چھبنا ایک ہی جگہ بھینسیں لگانے سے ہے. گویا کبھی بھینسیں بھی چھبن کا سبب بن جاتی تھیں.
یہ عمر ہی کچھ ایسی تھی کہ ایک ہی دن میں ہمیں کئی رقیب نظر آتے تھے. رفیق ایک وہی سمجھا جاتا تھا جسے کہنے کے لیے کبھی موقع ہی میسر نہ آتا تھا.یا یوں کہہ لیں کہ یہ رفیق بھی یکطرفہ ہوتا تھا وہ ایسے کہ رفیق اس رفاقت سے قطعی طور پر لاعلم ہوتا تھا کہ وہ کس کا رفیق ہے. الیکشن سے ایک رات پہلے ایک فیس بک فرینڈ نے ملتان سے ہمارے ساتھ رابطہ کیا رات کے دو بج رہے تھے یعنی الیکشن والی صبح ہو چکی تھی پوچھنے لگا ووٹ کس کو دیں گے ہم نے کہا یار ہم دیار غیر میں ہیں آپ بتائیں کس کو دیں گے، کہنے لگا میرا ابھی تک شناختی کارڈ نہیں بنا اس لیے ووٹ نہیں ہے . شناختی کارڈ کا سن کر عمر کا اندازہ ہو گیا کہ موصوف ابھی سولہ سترہ برس کے ہی ہوں گے. عمر کا سوچ کر تجسس سا ہوا کہ اس وقت کیوں جاگ رہا_ آخر پوچھ ہی بیٹھے, تو اس وقت جاگ کیوں رہے ہو؟ کہنے لگا فلم دیکھ رہا ہوں. ہم تو اس خیال میں تھے کہ شاید سٹڈیز وغیرہ کا بتائے گا لیکن اس کا جواب سن کر کہا تم تو روز اس وقت آنلائن ہوتے ہو کیا روز فلم دیکھتے ہو، کہنے لگا.. جی ہاں . بدن میں ایک جھرجھری سی محسوس ہوئی پھر پوچھا کون سی دیکھ رہے ہو. کہنے لگا میں لو اسٹوریز والی دیکھتا ہوں اور اب "نصیب" دیکھ رہا ہوں. میرے یہ پوچھنے پر کہ آخر تمہیں کیا مجبوری ہے اس وقت فلم دیکھ رہے ہو. کہنے لگا میرے ساتھ پیار میں دھوکہ ہوا ہے اس لیے ایسی فلمیں دیکھتا ہوں. پیار کا نام سن کر حیرانگی کے ساتھ میرا سوال تھا کہ کب سے پیار ہوا ہے(سوال کرتے ہوئے اپنا اندازہ یہی تھا کہ چھ ماہ نہیں تو سال کا بتائے گا) کہنے لگا سات سال ہو گے ہیں. اس کا یہ کہنا تھا کہ میں نے چاٹینگ روک کر اس کے ماہ و سال کا جائزہ لیا تو تقریباً دس گیارہ سال کی عمر کے لگ بھگ ہوا ہو گا جب وہ پیار سے آشنا ہو چکا تھا . سوچیں بہت دور نکل گئیں ہمیں اپنا دور یاد آ گیا کہ پندرہ سولہ سال تک تو ہمیں اس قسم کی سوچ تک بھی نہیں تھی. یقین جانیے گیارہ بارہ سال کے بچے کی قمیض ماں پیچھے سے پکڑ کر اس لیے گرہ لگا دیتی تھی کہ گندی نہ کر دے. بات دور چلی جاتی ہے البتہ مختصر اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ہم نے اپنے دشمن گھر میں پال رکھے ہیں، انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہم نے گھروں میں کیا کچھ نہیں لے رکھا. ہمارے دور میں تو عشاء کی نماز کے بعد فوراً نہ سونے پر بھی سرزنش ہوتی تھی. اب سرزنش کرنے والے بھی اتنے مصروف ہو گے ہیں کہ اپنی ہی چار دیواری کے اندرونی معاملات کی خبر گیری بھی انہیں گراں لگنے لگی. جب مالی ہی کیاریوں کی دیکھ بھال چھوڑ دے تو وہاں خود رو جھاڑیوں کا اگنا کچھ معیوب نہیں لگتا .
پوچھا خدا کے بندے اس عمر میں تجھے کیسے پتہ چلا کہ پیار بھی کیا جاتا ہے کہنے لگا بس جی پہلی واری تکن نال ہی دل اچ "کھب" گئی سی. لاحول ولا قوۃ الا باللہ اس عمر میں بھی کوئی کھبتا ہے. بولا شناء تیں کنیاں وریاں دا ہوویں غا؟ ( دوست تم کتنے سال کے ہوں گے) کہا یار میں بھی گیارہ بارہ سال کا ہوں. کہنے لگا جب ہماری اسٹیج پر آئے تو خود پتہ چل جائے گا کہ کوئی کیسے کھبتا ہے. اس نے کھب کیا لکھا تھا کہ ہمیں اپنے دور کا چھب بھی یاد آ گیا. یہ اس نے سچ کہا تھا کہ پہلی واری ہی تکن نال بندا کھب جاتا ہے. ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی کچھ ہوا تھا جب ہم نے پہلی واری کسی کو دیکھا تو پھر تاکتے ہی رہ گے.
گھر سے ہمیں روز بلکہ ایک ہی دن میں کئی بار یہ سننے کو مل رہا تھا کہ اب گھر جو آئے ہو تو بجائے کھاٹ توڑنے کے بچوں کے (ب) فارم ہی بنوا کر دے جاو. جب روز اسی ایک ہی ساز سے کان پکنے لگے تو سوچا ایسے تو گزارا نہیں کیوں نہ یہ کام سرانجام دے کر کہنے والوں کے سامنے سرخرو ہو جائیں . اسی سوچ میں نیک بخت سے کہا ہمیں بچوں کی ترتیب وار عمر ایک کاغذ پر لکھ دو. ہماری اس بات سے بجائے خوش ہونے کے موصوفہ نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا یہ بھی مجھے لکھنی پڑیں گی؟ خیر اس آتش فشاں سے نظریں چراتے ہوئے ایسے ہی ہوں ہوں کر ہی رہے تھے کہ اسی اثنا میں بچوں کی عمریں ہم کو کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی مل گئی تو نور چشم سے موٹر سائیکل کی چابی مانگی، چابی کا سن کر نورچشم سے پہلے اس کی ماں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا جس کا مطلب تھا کہ کہاں جانا ہے. نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیسانے ہوتے ہوئے کہا نادرا آفس جانا ہے. کہنے لگی پہلے کسی سے ان کے متعلق معلومات لے لیں ایسے سیدھے ہی ( یہاں جملہ مونہہ اٹھائے کا آتا تھا جس کو از راہ لحاظ ادا نہ کیا) نادرا نہ چلے جانا. پردیسی جہاں ہزاروں معلومات رکھے ہوتے ہیں وہی اپنے علاقے کے دفاتر اور ان کی پیچیدگیوں سے انجان ہوتے ہیں. ہم اس مسئلے میں بالکل ہی کورے تھے سوچ رہے تھے ہم سے بہتر تو ہمارا کلاس فیلو شبیر ملک رہا جو کلاس دہم سے اسکول چھوڑ گیا تھا لیکن سرکاری و غیر سرکاری دفاتر کی نہ صرف بلاکی معلومات رکھتا ہے بلکہ بہت سے کام بھی کر لیتا ہے کہیں بار تو فارن ایمبیسی کے فارم بھرتے دیکھا لیکن ہم رہے نکھٹو کے نکھٹو. خیر بچوں کے اسکول سے تصدیقی فارم لینے کی پہلی معلومات گھر سے ملی تو راہیں ہموار ہوتی دہکنے لگی اسکول سے فارم لینے کے بعد ٹیچر سے اگلی کارروائی کا پوچھا تو اس نے کہا اب آپ یونین کونسل کے سیکرٹری کے پاس جائیں گے جس کا آفس کھوئی رٹہ تحصیل میں ہے پوچھا کوئی فیس وغیرہ بھی ہو گی کہنے لگا ہاں سو ڈیڑھ سو روپیہ لغی جاسی. گھر سے کھوئی رٹہ ہم فاروق قمر صاحب کی رفاقت میں پہنچے انہی سے پتہ چلا کہ یونین کونسل کا دفتر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ بوائز سیکنڈری اسکول کے سامنے والی گلی میں ہے. وہاں پہنچے تو پہلی نظر جس شخص پر پڑی وہ واقعی اک واری تکنے نال ای دل اچ کھب گیا. وہی شخص یونین کونسل کا سیکرٹری تھا. کیا ہی گڈ لک پرسنیلٹی تھی گوری رنگت پر کالی سیاہ بھاری سی لیکن خوب سلیقے سے تراشی ہوئی مونچھیں بہترین آفس کٹ کیے ہوئے بال سکائی بلیو شلوار قمیض میں ملبوس درمیانی جسامت کا جازب نظر. جامنی مائل ہونٹ کثرت سگریٹ نوشی کی غمازی کر رہے تھے. اگر وہی ہم سے وجہ آمد نہ پوچھتے تو شاید ہم متاثر کن شخصیت کے سحر میں رہتے گویا انہوں نے ہی پوچھ کر کے طلسم توڑا. اب بھی ہماری جگہ قمر صاحب نے ہی آنے کی وجہ بتائی تو انہوں نے ہمارے ہاتھ میں پکڑے اسکول رجسٹریشن فارم لیے اور اپنی کارروائی میں لگ گے تقریباً بیس پچیس منٹ بعد ہمیں اپنے دستخط شدہ فارم دیے اور کوٹلی نادرا کا کہا کہ وہاں جمع کرا کر کمپیوٹر رائیز ب فارم لے لو. اس دوران انہوں نے پاو دودھ پتی بھی منگوائی جو تین پیالی میں ڈال کر ٹیبل پر رکھی. انہی بیس پچیس منٹ میں ہمارے اس سوال کا جواب بھی انہوں نے دیا کہ کھوئی رٹہ کو کھوئی رٹہ کیوں کہا جاتا ہے. چائے کے بعد ہم کاغذ ہاتھ میں لیے کھڑے ہوئے اور السلام علیکم کہتے ہوئے افس سے باہر نکل آئے. کوٹلی تک ہم سوچتے ہی رہے کہ کیسا خوش اخلاق اور خوش گفتار شخص تھا. پھر چائے کی پیالی بھی ذہن میں آئی پہلی مرتبہ کسی نے آفس میں ہمیں چائے کا پوچھا تھا جبکہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ دفتری لوگوں کو چائے پلائی جاتی ہے یا دوسری صورت میں چائے پانی کے نام پر کچھ دیا جاتا تھا.
ہم اس دن کے بعد پھر کبھی ان کے آفس میں نہیں گے لیکن وہ اور ان کا آفس ہمیں یاد رہے. چھٹی چھٹی ہی ہوتی ہے چاہے سال کی ہو مگر نام کی طرح بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے. ہم بھی گنے چنے دن گزار کر پردیس لوٹ آئے جہاں گھنٹے بھی دنوں جیسی ہی طوالت رکھتے ہیں. کام میں لگ گئے کبھی کبھار نیند جو دیر سے آتی تو غنیمت جانتے اور خیالی طور پر ہم اپنے ملک کی سیر کو نکل پڑتے. سب گھوم پھر کر جب بچوں کے فارم یاد آتے تو ساتھ ہی ہمیں یونین کونسل کا سیکرٹری بھی اپنی تمام تر اخلاقی خوبیوں کے یاد آ جاتا.
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ ہماری دو سال بعد ملنے والی چھٹی پھر سے مل گئی اور ہم پھر سے سیری شہر پہنچ گے.
ایک دن ہم ہارونیہ شوز ہاوس کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ آگے سے آنے والی ایک مہران نے چونکا دیا کیونکہ اسے جو ڈرائیو کر رہا تھا وہ وہی آدمی تھا جو مسلسل اپنے اخلاق کی وجہ سے دل میں بسا ہوا تھا. سفید شلوار قمیص کے اوپر کالی واسکٹ پہنے ہوئے اور سن گلاسز کا مذید اضافہ کیے وہ اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے کچھ کہہ رہا تھا. آنکھوں نے جانا پہچانا چہرہ پایا تو ذہن نے فوراً تسلیم کرتے ہوئے دو َسَال پرانی ملاقات ازسر نو تازہ کرا دی. سوچا کہ زیب میاں یہ تو تمہاری بات ہے اب اس کو کیسے یاد کرایا جائے. وہ تو اس کے اخلاق تھے جو تجھے یاد رہ گے تم میں تو وہ بھی نہیں ہیں جن کی بدولت کوئی تمہیں یاد رکھتا. پھر وہ کوئی ایسی بھی ملاقات نہیں تھی جس کو یاد رکھا جائے اس کے پاس دن میں ہزاروں لوگ آتے اور جاتے ہیں. یہ کیسے ممکن کے وہ تمہیں پہچان لے. پھر بڑی بات کہ تم کیا کہہ کر یاد کراو گے کہ ہم کون ہوں...... ہم یہی کچھ سوچ رہے تھے مہران ہمارے سامنے آ کر رکی ہینڈ بریک کھینچتے ہوئے اس نے ساتھ بیٹھے آدمی سے کہا، او جی انہاں پہائی ہوراں کی ملی کیناں، سائیڈ گلاس چونکہ کھلے تھے اس لیے ہم نے یہ الفاظ بہت واضح سن لیے تھے، دروازہ کھول کر مسکراتا ہوا باہر آیا اور السلام علیکم کے ساتھ ہی ظہور، (یعنی اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے) کہتے ہوئے گلے بلکہ سینے سے لگا لیا. بات کچھ کچھ راز کی ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا آفیسر ہو یا کسی بھی عہدے کا بندہ ہو ہم سے ہمیشہ جھک کر ہی ملا ہے، بہت کم ہی لوگ ہوں گے جو سکھڑ قد سے ہمیں ملے ہوں اس کی وجہ ہماری کوئی خاص شہرت نہیں بلکہ ہمارا پستہ قد ملنے والوں کو جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے. ہم نے کہیں بار ہاتھ کے اشارے سے بھی سیدھے رہنے کو کہا لیکن جتنا کوئی لمبا ہوا اتنا ہی ہمیں ملنے کو جھکا. یہ صاحب درمیانے سے قد کے تھے اس لیے ہم ان کے سینے کے ساتھ لگ گئے یا انہوں نے لگا لیا. بس یہ بھی ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جو ہمیں ملنے کے لیے جھکے نہیں.
گلے ملنے کے بعد مصافحہ کیا تبسم بھرے ہونٹوں سے خیریت پوچھی اور ساتھ ہی کہا کہ ہمیں ایک جنازہ میں شرکت کرنی ہے اس لیے اجازت چاہیں گے. ہم ابھی تک حصار انبساط ہی تھے کہ وہ سٹیرنگ سنبھال چکے تھے اور پھر دلآویز تبسم سے ہاتھ ہلاتے ہوئے موڑ سے مڑ گئے.
"باپ وہ واحد ہستی ہوتی ہے جو نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے ہو بلکہ اس کے مستقبل کی خاطر وہ زندگی کی دوڑ میں تھکتا نہیں ہے" . زمانے بھر کے دھکے کھا کر جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو بجائے اپنی تھکن ظاہر کرنے کے چہرے پر جبرا" مسکراہٹ سجا کر کے اپنے سکھی ہونے کی اداکاری کرتا ہے. بوٹ سے وہ اضافی ٹاکیاں جو پاوں کو متوازن رکھنے کے لیے رکھی ہوئی تھی نکال کر پاوں کی انگلیاں سلاتے ہوئے یوں چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے جیسے وہ خیالوں میں بیٹے کو کسی آفس کی ریوالنگ چیئر پر بیٹھے دیکھ رہا ہوتا ہے. باپ سبھی ایسے ہی سوچتے ہیں لیکن وہ سوچوں سے نوشتہ تقدیر نہیں بدل سکتے.
گرداور ضمیر بھی ایسے ہی ایک باپ تھے جنھوں نے اپنے چھ بیٹوں کو اچھی تعلیم و تربیت دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی. یہی وجہ ہے کہ آج سب بیٹے ہی گورنمنٹ اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. گرداور صاحب دور رس انسان تھے فہم و فراست میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے. گویا بیٹوں کے لیے جیسی سوچ رکھی ویسے ہی اپنے اپنے اداروں میں ایڈجسٹ ہو گئے. بیٹوں نے بھی باپ کا مان رکھا اور تربیت کا اچھا صلہ دیا. سرکاری عہدے. مرتبے تو الگ رہے اخلاقیات کا وہ میعار پایا کہ جو ایک بار ملا پھر وہ بھول نہ سکا. اولاد والدین کے لیے وہی اہمیت رکھتی ہے جو "صدقہ جاریہ" رکھتا ہے، اچھی کا اچھااور بری کا برا کریڈٹ والدین کو ملتا رہتا ہے. یہ الگ بات کہ کبھی اس پر غور کرنے کی ہمیں فرصت نہیں ملی. البتہ سکریٹری ظہور سے مل کر یہ الفاظ غیر ارادی طور پر زبان پر آ جاتے ہیں کہ اے مالک الملک اس کے والدین کے دونوں جہان سنوار دے کہ وہ اسی خراج تحسین کے مستحق ہیں.
وہ(ملتانی دوست) کمسن ہی تھا اس کی عمر پیار کی تھی یا نہیں لیکن نفرتوں کی بالکل نہیں تھی، اسے کیسے دھوکہ ملا ہم یہ تو نہ جان سکے اور نہ ہی کرید کر اس کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی کوشش کی، البتہ اس کا ایک ہی لفظ " کھب" ہماری یادوں کو دو ڈھائی سال پیچھے دھکیل کر یونین کونسل کے اس دفتر میں لیا گیا تھا جہاں سیکرٹری ظہور ہمارے دل یا نظروں میں پہلی واری ہی تکن نال بجائے چبھنے کے "کھب" گیا تھا.
>>>*<<<
تحریر :- گل زیب انجم.
چھب اور کھب دو ایسے لفظ ہیں جن کو ہم اکثر سنتے آئے ہیں لیکن کبھی ان پر غور نہیں کیا کہ ایک انداز و اسٹائل میں بلائے جانے والے لفظ آپس میں کتنی مماثلت رکھتے ہیں.
چھب سے جب ہم تھوڑے سیانے ہوئے تو کچھ کچھ سے شناسا سے ہو چکے تھےخاص کر ان دونوں میں جب ایک ہی عمر کے لڑکوں کو کہتے سنتے تھے توں میغی بڈا چھبنا ایں. یہ چھبنا ایک دن بانفس نفیس ہمیں بھی اپنے محلے دار(بابو خالد) سے سننا پڑا لیکن یہ چھبنا دوسروں کے چھبنے سے ذرا الگ تھا کیونکہ ہماری تشویش پر انہوں نے بتا دیا تھا کہ یہ چھبنا ایک ہی جگہ بھینسیں لگانے سے ہے. گویا کبھی بھینسیں بھی چھبن کا سبب بن جاتی تھیں.
یہ عمر ہی کچھ ایسی تھی کہ ایک ہی دن میں ہمیں کئی رقیب نظر آتے تھے. رفیق ایک وہی سمجھا جاتا تھا جسے کہنے کے لیے کبھی موقع ہی میسر نہ آتا تھا.یا یوں کہہ لیں کہ یہ رفیق بھی یکطرفہ ہوتا تھا وہ ایسے کہ رفیق اس رفاقت سے قطعی طور پر لاعلم ہوتا تھا کہ وہ کس کا رفیق ہے. الیکشن سے ایک رات پہلے ایک فیس بک فرینڈ نے ملتان سے ہمارے ساتھ رابطہ کیا رات کے دو بج رہے تھے یعنی الیکشن والی صبح ہو چکی تھی پوچھنے لگا ووٹ کس کو دیں گے ہم نے کہا یار ہم دیار غیر میں ہیں آپ بتائیں کس کو دیں گے، کہنے لگا میرا ابھی تک شناختی کارڈ نہیں بنا اس لیے ووٹ نہیں ہے . شناختی کارڈ کا سن کر عمر کا اندازہ ہو گیا کہ موصوف ابھی سولہ سترہ برس کے ہی ہوں گے. عمر کا سوچ کر تجسس سا ہوا کہ اس وقت کیوں جاگ رہا_ آخر پوچھ ہی بیٹھے, تو اس وقت جاگ کیوں رہے ہو؟ کہنے لگا فلم دیکھ رہا ہوں. ہم تو اس خیال میں تھے کہ شاید سٹڈیز وغیرہ کا بتائے گا لیکن اس کا جواب سن کر کہا تم تو روز اس وقت آنلائن ہوتے ہو کیا روز فلم دیکھتے ہو، کہنے لگا.. جی ہاں . بدن میں ایک جھرجھری سی محسوس ہوئی پھر پوچھا کون سی دیکھ رہے ہو. کہنے لگا میں لو اسٹوریز والی دیکھتا ہوں اور اب "نصیب" دیکھ رہا ہوں. میرے یہ پوچھنے پر کہ آخر تمہیں کیا مجبوری ہے اس وقت فلم دیکھ رہے ہو. کہنے لگا میرے ساتھ پیار میں دھوکہ ہوا ہے اس لیے ایسی فلمیں دیکھتا ہوں. پیار کا نام سن کر حیرانگی کے ساتھ میرا سوال تھا کہ کب سے پیار ہوا ہے(سوال کرتے ہوئے اپنا اندازہ یہی تھا کہ چھ ماہ نہیں تو سال کا بتائے گا) کہنے لگا سات سال ہو گے ہیں. اس کا یہ کہنا تھا کہ میں نے چاٹینگ روک کر اس کے ماہ و سال کا جائزہ لیا تو تقریباً دس گیارہ سال کی عمر کے لگ بھگ ہوا ہو گا جب وہ پیار سے آشنا ہو چکا تھا . سوچیں بہت دور نکل گئیں ہمیں اپنا دور یاد آ گیا کہ پندرہ سولہ سال تک تو ہمیں اس قسم کی سوچ تک بھی نہیں تھی. یقین جانیے گیارہ بارہ سال کے بچے کی قمیض ماں پیچھے سے پکڑ کر اس لیے گرہ لگا دیتی تھی کہ گندی نہ کر دے. بات دور چلی جاتی ہے البتہ مختصر اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ہم نے اپنے دشمن گھر میں پال رکھے ہیں، انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہم نے گھروں میں کیا کچھ نہیں لے رکھا. ہمارے دور میں تو عشاء کی نماز کے بعد فوراً نہ سونے پر بھی سرزنش ہوتی تھی. اب سرزنش کرنے والے بھی اتنے مصروف ہو گے ہیں کہ اپنی ہی چار دیواری کے اندرونی معاملات کی خبر گیری بھی انہیں گراں لگنے لگی. جب مالی ہی کیاریوں کی دیکھ بھال چھوڑ دے تو وہاں خود رو جھاڑیوں کا اگنا کچھ معیوب نہیں لگتا .
پوچھا خدا کے بندے اس عمر میں تجھے کیسے پتہ چلا کہ پیار بھی کیا جاتا ہے کہنے لگا بس جی پہلی واری تکن نال ہی دل اچ "کھب" گئی سی. لاحول ولا قوۃ الا باللہ اس عمر میں بھی کوئی کھبتا ہے. بولا شناء تیں کنیاں وریاں دا ہوویں غا؟ ( دوست تم کتنے سال کے ہوں گے) کہا یار میں بھی گیارہ بارہ سال کا ہوں. کہنے لگا جب ہماری اسٹیج پر آئے تو خود پتہ چل جائے گا کہ کوئی کیسے کھبتا ہے. اس نے کھب کیا لکھا تھا کہ ہمیں اپنے دور کا چھب بھی یاد آ گیا. یہ اس نے سچ کہا تھا کہ پہلی واری ہی تکن نال بندا کھب جاتا ہے. ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی کچھ ہوا تھا جب ہم نے پہلی واری کسی کو دیکھا تو پھر تاکتے ہی رہ گے.
گھر سے ہمیں روز بلکہ ایک ہی دن میں کئی بار یہ سننے کو مل رہا تھا کہ اب گھر جو آئے ہو تو بجائے کھاٹ توڑنے کے بچوں کے (ب) فارم ہی بنوا کر دے جاو. جب روز اسی ایک ہی ساز سے کان پکنے لگے تو سوچا ایسے تو گزارا نہیں کیوں نہ یہ کام سرانجام دے کر کہنے والوں کے سامنے سرخرو ہو جائیں . اسی سوچ میں نیک بخت سے کہا ہمیں بچوں کی ترتیب وار عمر ایک کاغذ پر لکھ دو. ہماری اس بات سے بجائے خوش ہونے کے موصوفہ نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا یہ بھی مجھے لکھنی پڑیں گی؟ خیر اس آتش فشاں سے نظریں چراتے ہوئے ایسے ہی ہوں ہوں کر ہی رہے تھے کہ اسی اثنا میں بچوں کی عمریں ہم کو کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی مل گئی تو نور چشم سے موٹر سائیکل کی چابی مانگی، چابی کا سن کر نورچشم سے پہلے اس کی ماں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا جس کا مطلب تھا کہ کہاں جانا ہے. نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے کیسانے ہوتے ہوئے کہا نادرا آفس جانا ہے. کہنے لگی پہلے کسی سے ان کے متعلق معلومات لے لیں ایسے سیدھے ہی ( یہاں جملہ مونہہ اٹھائے کا آتا تھا جس کو از راہ لحاظ ادا نہ کیا) نادرا نہ چلے جانا. پردیسی جہاں ہزاروں معلومات رکھے ہوتے ہیں وہی اپنے علاقے کے دفاتر اور ان کی پیچیدگیوں سے انجان ہوتے ہیں. ہم اس مسئلے میں بالکل ہی کورے تھے سوچ رہے تھے ہم سے بہتر تو ہمارا کلاس فیلو شبیر ملک رہا جو کلاس دہم سے اسکول چھوڑ گیا تھا لیکن سرکاری و غیر سرکاری دفاتر کی نہ صرف بلاکی معلومات رکھتا ہے بلکہ بہت سے کام بھی کر لیتا ہے کہیں بار تو فارن ایمبیسی کے فارم بھرتے دیکھا لیکن ہم رہے نکھٹو کے نکھٹو. خیر بچوں کے اسکول سے تصدیقی فارم لینے کی پہلی معلومات گھر سے ملی تو راہیں ہموار ہوتی دہکنے لگی اسکول سے فارم لینے کے بعد ٹیچر سے اگلی کارروائی کا پوچھا تو اس نے کہا اب آپ یونین کونسل کے سیکرٹری کے پاس جائیں گے جس کا آفس کھوئی رٹہ تحصیل میں ہے پوچھا کوئی فیس وغیرہ بھی ہو گی کہنے لگا ہاں سو ڈیڑھ سو روپیہ لغی جاسی. گھر سے کھوئی رٹہ ہم فاروق قمر صاحب کی رفاقت میں پہنچے انہی سے پتہ چلا کہ یونین کونسل کا دفتر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ بوائز سیکنڈری اسکول کے سامنے والی گلی میں ہے. وہاں پہنچے تو پہلی نظر جس شخص پر پڑی وہ واقعی اک واری تکنے نال ای دل اچ کھب گیا. وہی شخص یونین کونسل کا سیکرٹری تھا. کیا ہی گڈ لک پرسنیلٹی تھی گوری رنگت پر کالی سیاہ بھاری سی لیکن خوب سلیقے سے تراشی ہوئی مونچھیں بہترین آفس کٹ کیے ہوئے بال سکائی بلیو شلوار قمیض میں ملبوس درمیانی جسامت کا جازب نظر. جامنی مائل ہونٹ کثرت سگریٹ نوشی کی غمازی کر رہے تھے. اگر وہی ہم سے وجہ آمد نہ پوچھتے تو شاید ہم متاثر کن شخصیت کے سحر میں رہتے گویا انہوں نے ہی پوچھ کر کے طلسم توڑا. اب بھی ہماری جگہ قمر صاحب نے ہی آنے کی وجہ بتائی تو انہوں نے ہمارے ہاتھ میں پکڑے اسکول رجسٹریشن فارم لیے اور اپنی کارروائی میں لگ گے تقریباً بیس پچیس منٹ بعد ہمیں اپنے دستخط شدہ فارم دیے اور کوٹلی نادرا کا کہا کہ وہاں جمع کرا کر کمپیوٹر رائیز ب فارم لے لو. اس دوران انہوں نے پاو دودھ پتی بھی منگوائی جو تین پیالی میں ڈال کر ٹیبل پر رکھی. انہی بیس پچیس منٹ میں ہمارے اس سوال کا جواب بھی انہوں نے دیا کہ کھوئی رٹہ کو کھوئی رٹہ کیوں کہا جاتا ہے. چائے کے بعد ہم کاغذ ہاتھ میں لیے کھڑے ہوئے اور السلام علیکم کہتے ہوئے افس سے باہر نکل آئے. کوٹلی تک ہم سوچتے ہی رہے کہ کیسا خوش اخلاق اور خوش گفتار شخص تھا. پھر چائے کی پیالی بھی ذہن میں آئی پہلی مرتبہ کسی نے آفس میں ہمیں چائے کا پوچھا تھا جبکہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ دفتری لوگوں کو چائے پلائی جاتی ہے یا دوسری صورت میں چائے پانی کے نام پر کچھ دیا جاتا تھا.
ہم اس دن کے بعد پھر کبھی ان کے آفس میں نہیں گے لیکن وہ اور ان کا آفس ہمیں یاد رہے. چھٹی چھٹی ہی ہوتی ہے چاہے سال کی ہو مگر نام کی طرح بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے. ہم بھی گنے چنے دن گزار کر پردیس لوٹ آئے جہاں گھنٹے بھی دنوں جیسی ہی طوالت رکھتے ہیں. کام میں لگ گئے کبھی کبھار نیند جو دیر سے آتی تو غنیمت جانتے اور خیالی طور پر ہم اپنے ملک کی سیر کو نکل پڑتے. سب گھوم پھر کر جب بچوں کے فارم یاد آتے تو ساتھ ہی ہمیں یونین کونسل کا سیکرٹری بھی اپنی تمام تر اخلاقی خوبیوں کے یاد آ جاتا.
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ ہماری دو سال بعد ملنے والی چھٹی پھر سے مل گئی اور ہم پھر سے سیری شہر پہنچ گے.
ایک دن ہم ہارونیہ شوز ہاوس کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ آگے سے آنے والی ایک مہران نے چونکا دیا کیونکہ اسے جو ڈرائیو کر رہا تھا وہ وہی آدمی تھا جو مسلسل اپنے اخلاق کی وجہ سے دل میں بسا ہوا تھا. سفید شلوار قمیص کے اوپر کالی واسکٹ پہنے ہوئے اور سن گلاسز کا مذید اضافہ کیے وہ اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے کچھ کہہ رہا تھا. آنکھوں نے جانا پہچانا چہرہ پایا تو ذہن نے فوراً تسلیم کرتے ہوئے دو َسَال پرانی ملاقات ازسر نو تازہ کرا دی. سوچا کہ زیب میاں یہ تو تمہاری بات ہے اب اس کو کیسے یاد کرایا جائے. وہ تو اس کے اخلاق تھے جو تجھے یاد رہ گے تم میں تو وہ بھی نہیں ہیں جن کی بدولت کوئی تمہیں یاد رکھتا. پھر وہ کوئی ایسی بھی ملاقات نہیں تھی جس کو یاد رکھا جائے اس کے پاس دن میں ہزاروں لوگ آتے اور جاتے ہیں. یہ کیسے ممکن کے وہ تمہیں پہچان لے. پھر بڑی بات کہ تم کیا کہہ کر یاد کراو گے کہ ہم کون ہوں...... ہم یہی کچھ سوچ رہے تھے مہران ہمارے سامنے آ کر رکی ہینڈ بریک کھینچتے ہوئے اس نے ساتھ بیٹھے آدمی سے کہا، او جی انہاں پہائی ہوراں کی ملی کیناں، سائیڈ گلاس چونکہ کھلے تھے اس لیے ہم نے یہ الفاظ بہت واضح سن لیے تھے، دروازہ کھول کر مسکراتا ہوا باہر آیا اور السلام علیکم کے ساتھ ہی ظہور، (یعنی اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے) کہتے ہوئے گلے بلکہ سینے سے لگا لیا. بات کچھ کچھ راز کی ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا آفیسر ہو یا کسی بھی عہدے کا بندہ ہو ہم سے ہمیشہ جھک کر ہی ملا ہے، بہت کم ہی لوگ ہوں گے جو سکھڑ قد سے ہمیں ملے ہوں اس کی وجہ ہماری کوئی خاص شہرت نہیں بلکہ ہمارا پستہ قد ملنے والوں کو جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے. ہم نے کہیں بار ہاتھ کے اشارے سے بھی سیدھے رہنے کو کہا لیکن جتنا کوئی لمبا ہوا اتنا ہی ہمیں ملنے کو جھکا. یہ صاحب درمیانے سے قد کے تھے اس لیے ہم ان کے سینے کے ساتھ لگ گئے یا انہوں نے لگا لیا. بس یہ بھی ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جو ہمیں ملنے کے لیے جھکے نہیں.
گلے ملنے کے بعد مصافحہ کیا تبسم بھرے ہونٹوں سے خیریت پوچھی اور ساتھ ہی کہا کہ ہمیں ایک جنازہ میں شرکت کرنی ہے اس لیے اجازت چاہیں گے. ہم ابھی تک حصار انبساط ہی تھے کہ وہ سٹیرنگ سنبھال چکے تھے اور پھر دلآویز تبسم سے ہاتھ ہلاتے ہوئے موڑ سے مڑ گئے.
"باپ وہ واحد ہستی ہوتی ہے جو نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے ہو بلکہ اس کے مستقبل کی خاطر وہ زندگی کی دوڑ میں تھکتا نہیں ہے" . زمانے بھر کے دھکے کھا کر جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو بجائے اپنی تھکن ظاہر کرنے کے چہرے پر جبرا" مسکراہٹ سجا کر کے اپنے سکھی ہونے کی اداکاری کرتا ہے. بوٹ سے وہ اضافی ٹاکیاں جو پاوں کو متوازن رکھنے کے لیے رکھی ہوئی تھی نکال کر پاوں کی انگلیاں سلاتے ہوئے یوں چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے جیسے وہ خیالوں میں بیٹے کو کسی آفس کی ریوالنگ چیئر پر بیٹھے دیکھ رہا ہوتا ہے. باپ سبھی ایسے ہی سوچتے ہیں لیکن وہ سوچوں سے نوشتہ تقدیر نہیں بدل سکتے.
گرداور ضمیر بھی ایسے ہی ایک باپ تھے جنھوں نے اپنے چھ بیٹوں کو اچھی تعلیم و تربیت دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی. یہی وجہ ہے کہ آج سب بیٹے ہی گورنمنٹ اداروں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. گرداور صاحب دور رس انسان تھے فہم و فراست میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے. گویا بیٹوں کے لیے جیسی سوچ رکھی ویسے ہی اپنے اپنے اداروں میں ایڈجسٹ ہو گئے. بیٹوں نے بھی باپ کا مان رکھا اور تربیت کا اچھا صلہ دیا. سرکاری عہدے. مرتبے تو الگ رہے اخلاقیات کا وہ میعار پایا کہ جو ایک بار ملا پھر وہ بھول نہ سکا. اولاد والدین کے لیے وہی اہمیت رکھتی ہے جو "صدقہ جاریہ" رکھتا ہے، اچھی کا اچھااور بری کا برا کریڈٹ والدین کو ملتا رہتا ہے. یہ الگ بات کہ کبھی اس پر غور کرنے کی ہمیں فرصت نہیں ملی. البتہ سکریٹری ظہور سے مل کر یہ الفاظ غیر ارادی طور پر زبان پر آ جاتے ہیں کہ اے مالک الملک اس کے والدین کے دونوں جہان سنوار دے کہ وہ اسی خراج تحسین کے مستحق ہیں.
وہ(ملتانی دوست) کمسن ہی تھا اس کی عمر پیار کی تھی یا نہیں لیکن نفرتوں کی بالکل نہیں تھی، اسے کیسے دھوکہ ملا ہم یہ تو نہ جان سکے اور نہ ہی کرید کر اس کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی کوشش کی، البتہ اس کا ایک ہی لفظ " کھب" ہماری یادوں کو دو ڈھائی سال پیچھے دھکیل کر یونین کونسل کے اس دفتر میں لیا گیا تھا جہاں سیکرٹری ظہور ہمارے دل یا نظروں میں پہلی واری ہی تکن نال بجائے چبھنے کے "کھب" گیا تھا.
>>>*<<<