ممبئی کےشہر کارپوریشن بی ایم سی کی رکن ریتوتاوڑے کی یہ تجویز

ممبئی کے شہر کارپوریشن بی ایم سی کی رکن ریتوتاوڑے کی یہ تجویز قا بل توجہ ہے
ممبئی میونسپل کارپوریشن BMC ان دنوں خواتین کے تحفظ سے متعلق ایک تجویز پاس کرنے کی وجہ سے ایک خاص حلقے کی تنقیدکی زد میں ہے، یہ وہی حلقہ ہے جو ہمہ وقت ملک میں خواتین کے تحفظ کو لے کر بظاہر کافی فکرمند دکھائی دیتا ہے لیکن ایسے کسی مثبت کام کو جو صحیح معنوں میں خواتین کو معاشرے میں تحفظ فراہم کرانے اور انہیں باوقار زندگی گزارنے میں مددگار ثابت ہو آزادی کے نام پر یہ حلقہ اسے قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔​
دارالحکومت دہلی میں 16؍دسمبر 2012 کے دردناک واقعے کے بعد سے ایک خاص تعداد خواتین کے خلاف ہونے والے جنسی تشدد کو روکنے کے لیے سخت ترین قانون بنانے نیز سعودی عرب کی طرز پر سخت ترین سزا دینے کامطالبہ تو کرتاہے لیکن جب جرائم کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانے کی بات کی جاتی ہے تو یہی طبقہ ایک دم برہم ہوجاتاہے اور اس کی طرف سے سخت قوانین متعارف کرانے کی اندھی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔​
ہوا یہ کہ گزشتہ دنوں 26؍اپریل کو ممبئی کے شہر کارپوریشن بی ایم سی کی ایک اہم رکن ریتوتاوڑے نے ممبئی کارپوریشن کے سامنے ایک تجویز پیش کی جسے 16؍مئی کو کارپوریشن کے ارکان نے اکثریت سے پاس کردیا۔ اس تجویزمیں کہاگیاہے کہ شہر میں خواتین کے ساتھ جنسی جرائم کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طورپر کپڑوں کے شوروم میں ڈسپلے کے طورپر لگائے گئے نیم عریاں خواتین کےمجسموں کی نمائش بند کرائی جائے۔ تاوڑے کہتی ہیں کہ اس طرح کےنیم عریاں مجسموں کی نمائش کی وجہ سے مردوں کے ذہن پراگندہ ہوتے ہیں جو خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کا محرک بنتے ہیں۔​
39 سالہ ریتوتاوڑے گھاٹ کوپر حلقے سے میونسپل کارپوریٹر ہیں، انھوں نے فوری طورپر عملی اقدامات کے طورپر اپنے آس پاس کی دوکانوں سے ان مجسموں کو ہٹوانے کا کام شروع بھی کردیا ہے۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کی یہ تجویز شہر کی بعض خواتین تنظیموں کوہی راس نہیں آرہی ہے۔ بلکہ ایسے حلقے مس تاوڑے کا مذاق اڑارہے ہیں۔ شہر کی ایک خاتون جرنسلٹ پرتیش نندی کہتی ہیں کہ مجھے تو اس طرح کے ڈسپلے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، اس طرح کے اقدامات سے خواتین کے خلاف زیادتی کم نہیں ہوگی۔​
لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ اس تجویز کو کارپوریشن کے 257؍ارکان نے پاس کردیا ہے اور ممبئی کے میئر سنیل پربھو بھی بھرپور طریقے سے تاوڑے کے موقف کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں اورانہوں نے اس تجویز کو نافذ کرنے سے متعلق کارپوریشن کے فیصلے سے میونسپل کمشنر سیتارام کنتے کو آگاہ کردیا ہے۔​
خیال رہے کہ بھارت میں خواتین کے وقار کو تحفظ فراہم کرانے کے لیے 1989 میں ایک ایکٹ پاس کیاگیاتھا جس میں اس بات کی صاف طورپر وضاحت کی گئی ہے کہ ایساکوئی بھی عمل جس سے خواتین کو معاشرے میں منفی طورپر پیش کیاجائے اخلاقیات کی تباہی کا سبب بنے، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مس تاوڑے نے اپنی اس تجویز کو قانونی جواز فراہم کرانے کے لیے اسئ ایکٹ کا حوالہ دیا ہے۔
لیکن یہ عجیب المیہ ہے کہ خواتین کے تحفظ کو لے کر معاشرے کا ہر حلقہ بظاہرتو فکرمندد کھائی دیتا ہے لیکن عملی اقدامات اور احتیاطی تدابیر اپنانے کو بالکل تیار نہیں ہے۔​
قابل غور بات یہ ہے کہ متذکرہ بالا تجویز ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون نے پیش کی ہے لیکن ان کی اس تجویز کی مخالفت خواتین گروپوں کے ذریعے ہی کی جارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہر میں سرگرم خواتین تنظیمیں اس تجویزکا خیر مقدم کرتیں اس تجویز کو روبہ عمل لانے کے لیے کارپوریشن کو ہرممکن تعاون دیتیں۔ لیکن اس کے برعکس کارپوریشن کے فیصلے پر چراغ پا ہو گئیں۔​
اب دیکھنا یہ ہے کہ ممبئی کارپوریشن اس کو عملی جامہ پہنانے میں کس حد تک کامیاب ہوتاہے،​
 
اس تجویزمیں کہاگیاہے کہ شہر میں خواتین کے ساتھ جنسی جرائم کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طورپر کپڑوں کے شوروم میں ڈسپلے کے طورپر لگائے گئے نیم عریاں خواتین کےمجسموں کی نمائش بند کرائی جائے۔ تاوڑے کہتی ہیں کہ اس طرح کےنیم عریاں مجسموں کی نمائش کی وجہ سے مردوں کے ذہن پراگندہ ہوتے ہیں جو خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کا محرک بنتے ہیں۔​

اشرف علی بستوی بھائی لیکن وہ جو کچھ بھارتی فلموں میں آئٹم سانگ کے نام پر ہو رہا ہے اور دکھایا جاتا ہے وہ ان شوروم کی گڑیوں سے کہیں زیادہ فتنہ پرور اور اشتہا انگیز ہوتاہے، اُسکے بارے میں کبھی کوئی آواز نہیں اُٹھاتا؟
 
Top