ظہور احمد سولنگی
محفلین
لاہور میں انسانی حقوق اور دانشور طبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا کہنا ہے کہ مناواں سانحے کے بعد میاں شہباز شریف کی بحالی پر جس طرح ان کے کارکنان نے خوشیاں منائیں، ہوائی فائرنگ کی اور بھنگڑے ڈالے وہ اس سوگوار ماحول میں انتہائی غیر مہذبانہ رویہ تھا۔
انسانی حقوق کے سرگرم رہنما آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ جس طرح نواز لیگ والوں نے خوشی منائی یہ مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی خوشی اور کامیابی اپنی جگہ لیکن اس کا اظہار سنجیدہ اور سوبر طریقے سے بھی تو کیا جا سکتا تھا۔
آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ جب حکمران عوام کے احساسات کا خیال نہیں کرتے تو ان حکمرانوں سے عوام کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے اور انہیں ووٹ دے کر کامیاب بنانے والی عوام بعد میں سینہ پیٹتی ہے جبکہ ادھر حکمران بھی جانتے ہیں کہ عوام بے وقوف ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا ہے۔
آئی اے رحمان کے مطابق ابھی مناواں میں ہونے والے سانحے کو گزرے ایک دن بھی نہیں ہوا جس میں نوجوان بچے ہلاک ہوئے اور ان کے جنازے کے دن اس طرح مٹھائیاں تقسیم کرنے اور ہوائی فائرنگ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں میں احساس ہی موجود نہیں رہا اور انہیں کسی کی تکلیف کی پرواہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اکثر یہ دیکھا کہ غیر ملکی کھلاڑی اپنے کسی سینیئر کی وفات پر میچ میں کالے رنگ کی پٹیاں باندھ کر آتے ہیں اور اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ اور ہمارے یہاں جن گھرانوں میں روایات موجود ہیں وہاں کسی کی شادی سے پہلے اگر کوئی خاندان کاشخص وفات پا جائے تو شادی میں شادیانے نہیں بجائے جاتے اور سادگی سے شادی کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں ہمارے یہاں جمہوریت کی جڑیں اتنی مضبوط نہیں اور یہی غیر جمہوریت ہمارے رویوں میں بھی جھلکتی ہے۔
آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ ہاں یہ اچھی بات ہوئی ہے لیکن ہم اس سانحے کے سبب اس کی خوشی نہیں منائیں گے۔ ’لیکن چونکہ یہ جو طاقت کا کھیل ہے اور اس میں اتنا پیسہ ہے کہ ان کے ذاتی مفاد انہیں کسی کی تکلیف کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتے۔‘
آئی اے رحمان نے کہا کہ جس طرح ٹی وی پر ایک جانب نوجوانوں کے جنازے دکھائے جاتے رہے اور دوسری جانب ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے نواز لیگ کے کارکنان تو اس سے دل کو اذیت ہوئی۔
انسانی حقوق کی علمبردار ایڈووکیٹ حنا جیلانی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کے لیے بہت اچھا تھا اور سب نے ہی اطمینان محسوس کیا اور اس کی یقیناً خوشی بھی تھی لیکن یہ تو دیکھتے کہ کیا اس موقعے پر یوں خوشی منانی چاہیے۔
حنا جیلانی نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتیں کہ نواز لیگ کی قیادت کو مناواں سانحے کا دکھ نہیں ہوا ہوگا لیکن انہیں اس دکھ کا نہ صرف اظہار کرنا چاہیے بلکہ ان کے غم میں شامل ہونا چاہیے۔ ’لیکن اگر آپ خوشیاں منا رہے ہیں تو آپ ان کے دکھ میں تو شریک نہ ہوئے۔ اور خوشی منانے کے اور بھی طریقے ہیں جو کہ زیادہ مہذبانہ ہیں۔‘
حنا جیلانی نے کہا کہ شہباز شریف اس صوبے کے وزیر اعلٰی ہیں اور وہ نوجوان ان کے اپنے ادارے کے تھے۔ ’ہم سب نے دیکھا کہ ان کے حامی ہوائی فائرنگ کر رہے تھے اور کلاشنکوفیں ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس موقع پر ان کے رہنماؤں کا فرض تھا کہ انہیں روکتے کہ اس طریقے سے اظہار اس ماحول میں مناسب نہیں۔‘
انگریزی روزنامے کی مدیر اور انسانی حقوق کی سر گرم رکن جگنو محسن نے کہا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہوائی فائرنگ جرم ہے اور ہوائی فائرنگ سے پہلے بھی کئی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے حامیوں نے ہوائی فائرنگ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس طرح کا ماحول پیدا کیا جس میں طاقت ہی سب کچھ دکھائی دے اور اس سے ویسے بھی شدت پسندی کی عکاسی ہوتی ہے اور ہم اس طرح کی شدت پسندی ہی کے خلاف تو کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے سنجیدہ حلقوں کے لیے ایک لمحہء فکریہ ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
جگنو محسن نے کہا کہ دو ہزار سات مئی میں جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کراچی جانے پر وہاں شر پسند عناصر نے کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا اس دن سابق صدر پرویز مشرف اسلام آباد میں جلسے میں مکے لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کر رہے تھے۔ جگنو محسن نے کہا کہ آج اس واقعے کی یاد تازہ ہو گئی لیکن وہ تو ایک آمر تھا جسے ملک کی عوام کے دکھ کا احساس نہیں تھا لیکن جمہوری حکمرانوں سے ایسے رویوں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
[بشکریہ بی بی سی اردو
انسانی حقوق کے سرگرم رہنما آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ جس طرح نواز لیگ والوں نے خوشی منائی یہ مہذب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی خوشی اور کامیابی اپنی جگہ لیکن اس کا اظہار سنجیدہ اور سوبر طریقے سے بھی تو کیا جا سکتا تھا۔
آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ جب حکمران عوام کے احساسات کا خیال نہیں کرتے تو ان حکمرانوں سے عوام کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے اور انہیں ووٹ دے کر کامیاب بنانے والی عوام بعد میں سینہ پیٹتی ہے جبکہ ادھر حکمران بھی جانتے ہیں کہ عوام بے وقوف ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا ہے۔
آئی اے رحمان کے مطابق ابھی مناواں میں ہونے والے سانحے کو گزرے ایک دن بھی نہیں ہوا جس میں نوجوان بچے ہلاک ہوئے اور ان کے جنازے کے دن اس طرح مٹھائیاں تقسیم کرنے اور ہوائی فائرنگ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں میں احساس ہی موجود نہیں رہا اور انہیں کسی کی تکلیف کی پرواہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اکثر یہ دیکھا کہ غیر ملکی کھلاڑی اپنے کسی سینیئر کی وفات پر میچ میں کالے رنگ کی پٹیاں باندھ کر آتے ہیں اور اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ اور ہمارے یہاں جن گھرانوں میں روایات موجود ہیں وہاں کسی کی شادی سے پہلے اگر کوئی خاندان کاشخص وفات پا جائے تو شادی میں شادیانے نہیں بجائے جاتے اور سادگی سے شادی کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں ہمارے یہاں جمہوریت کی جڑیں اتنی مضبوط نہیں اور یہی غیر جمہوریت ہمارے رویوں میں بھی جھلکتی ہے۔
آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ ہاں یہ اچھی بات ہوئی ہے لیکن ہم اس سانحے کے سبب اس کی خوشی نہیں منائیں گے۔ ’لیکن چونکہ یہ جو طاقت کا کھیل ہے اور اس میں اتنا پیسہ ہے کہ ان کے ذاتی مفاد انہیں کسی کی تکلیف کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتے۔‘
آئی اے رحمان نے کہا کہ جس طرح ٹی وی پر ایک جانب نوجوانوں کے جنازے دکھائے جاتے رہے اور دوسری جانب ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے نواز لیگ کے کارکنان تو اس سے دل کو اذیت ہوئی۔
انسانی حقوق کی علمبردار ایڈووکیٹ حنا جیلانی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کے لیے بہت اچھا تھا اور سب نے ہی اطمینان محسوس کیا اور اس کی یقیناً خوشی بھی تھی لیکن یہ تو دیکھتے کہ کیا اس موقعے پر یوں خوشی منانی چاہیے۔
حنا جیلانی نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتیں کہ نواز لیگ کی قیادت کو مناواں سانحے کا دکھ نہیں ہوا ہوگا لیکن انہیں اس دکھ کا نہ صرف اظہار کرنا چاہیے بلکہ ان کے غم میں شامل ہونا چاہیے۔ ’لیکن اگر آپ خوشیاں منا رہے ہیں تو آپ ان کے دکھ میں تو شریک نہ ہوئے۔ اور خوشی منانے کے اور بھی طریقے ہیں جو کہ زیادہ مہذبانہ ہیں۔‘
حنا جیلانی نے کہا کہ شہباز شریف اس صوبے کے وزیر اعلٰی ہیں اور وہ نوجوان ان کے اپنے ادارے کے تھے۔ ’ہم سب نے دیکھا کہ ان کے حامی ہوائی فائرنگ کر رہے تھے اور کلاشنکوفیں ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس موقع پر ان کے رہنماؤں کا فرض تھا کہ انہیں روکتے کہ اس طریقے سے اظہار اس ماحول میں مناسب نہیں۔‘
انگریزی روزنامے کی مدیر اور انسانی حقوق کی سر گرم رکن جگنو محسن نے کہا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہوائی فائرنگ جرم ہے اور ہوائی فائرنگ سے پہلے بھی کئی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے حامیوں نے ہوائی فائرنگ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس طرح کا ماحول پیدا کیا جس میں طاقت ہی سب کچھ دکھائی دے اور اس سے ویسے بھی شدت پسندی کی عکاسی ہوتی ہے اور ہم اس طرح کی شدت پسندی ہی کے خلاف تو کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے سنجیدہ حلقوں کے لیے ایک لمحہء فکریہ ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
جگنو محسن نے کہا کہ دو ہزار سات مئی میں جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کے کراچی جانے پر وہاں شر پسند عناصر نے کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا اس دن سابق صدر پرویز مشرف اسلام آباد میں جلسے میں مکے لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کر رہے تھے۔ جگنو محسن نے کہا کہ آج اس واقعے کی یاد تازہ ہو گئی لیکن وہ تو ایک آمر تھا جسے ملک کی عوام کے دکھ کا احساس نہیں تھا لیکن جمہوری حکمرانوں سے ایسے رویوں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
[بشکریہ بی بی سی اردو