جاں نثار اختر منتخب رباعیات - جاں نثار اختر

رباعی
یہ چرخ ، یہ خورشید ، یہ انجُم یہ قمر
یہ قوس قزح ، یہ دشت ، یہ سبزہُ تر
یہ سرو ، یہ ساحل ، یہ شگوفے ، یہ شفق
تُم ہوتے تو کاہے کو بھٹکتی یہ نظر
 
رباعی
ہر رات جگا دیتی ہے جادو اب تک
کُھل جاتے ہیں مہکے ہوئے گیسو اب تک
کس ناز سے شانے پہ مرے سر رکھ کر
سوتی ہے تری زلف کی خوشبو اب تک
 
رباعی
یہ نشہ دماغ و دل پہ کیسا چھایا
یہ روح میں اک گیت سا کیا لہرایا
رگ رگ میں شرارے سے یہ کیوں دوڑ گئے
سینے پہ مرے پڑا یہ کس کا سایا
 
رباعی
تخیل میں جگمگا رہی ہو کب سے
چھپ چھپ کے لویں جلا رہی ہو کب سے
آؤ آؤ مرے مقابل آؤ !
پیچھے کھڑی مسکرا رہی ہو کب سے
 
رباعی
شرمندہ ذرا چمن کو کر لو آؤ!
گُلشن سے بھی کچھ بڑھ کے سنور لوں آؤ!
یہ پُھول سا شاداب مہکتا ہوا جسم
اک بار تو گود تُم سے بھر لوں آؤ
 
رباعی
بانہوں کا سُبک ہار لیے آئی ہو
آغوش کا گلزار لیے آئی ہو
ہنستی ہوئی ان کیف بھری آنکھوں میں
اک نشہِ بیدار لیے آئی ہو
 
رباعی
زربفت ، نہ دیبا ، نہ حریر و محمل
گردن میں کوئی ہار ، نہ کوئی ہیکل
لپٹی ہوئی جسم پہ سادہ ساری
لپٹا ہوا ساری کا گلے میں آنچل
 
آخری تدوین:
رباعی
یہ پھول سا لہجہ ، یہ رسیلی آواز
یہ تیرے تکلم کا دل آویز انداز
یہ لوچ یہ نرمی یہ گُھلاوٹ یہ کشش
صدقے ترے اک لفظ پہ سو راز و نیاز
 
رباعی
بکھرے جو حسیں زلف بکھر جانے دے
اس وقت کو کچھ اور سنور جانے دے
باقی نہ رہے صبح کا دھڑکا کوئی
اک رات تو ایسی بھی گزر جانے دے
 
رباعی
شبنم سے ابھی رات کو دُھلنے دے ذرا
آنکھوں میں خمارِ شب تو گُھلنے دے ذرا
جائے گی کہاں رات بچا کر دامن
ساقی کی ابھی زلف تو کُھلنے دے ذرا
 
رباعی
چھیڑے ہیں ہوا نے نرم کرنوں کے ستار
سورج ہے لیے جامِ صُبوحی تیار
پھولوں کی مہک چوم رہی ہے آنکھیں
بیدار ہو اے نیند کے ماتے بیدار
 
رباعی
ہر لمحہِء حاضر ہے طرب کا ضامن
کھلتی ہوئی راتیں ہیں ہنستے ہوئے دن
ہر عشرتِ ممکن ہے لُبھائے ہوئے دل
ماضی سے محبت نہیں جاتی لیکن
 
آخری تدوین:
رباعی
رہ رہ کے ہوا دل کی بدل جاتی ہے
صحبت کبھی پھولوں کی بھی کھل جاتی ہے
لیکن کبھی اک سانس جو لیتی ہے کلی
سینے کی ہر اک پھانس نکل جاتی ہے
 
Top