منتشر، سستی ہے، روز اک سی ہے اور بےکار ہے

نمرہ

محفلین
منتشر، سستی ہے، روز اک سی ہے اور بےکار ہے
زندگی افسانوی قصہ نہیں،اخبار ہے
چپ رہاجاتا نہیں اور بولنادشوار ہے
کوئی تو ہے جو مری حالت کاذمہ دار ہے
سمت پر کچھ زور ہے نے بس میں کچھ رفتار ہے
کیوں ہمیشہ اور ہاتھوں میں مری پتوارہے
راستہ سچائی کا سنسان اور پرخار ہے
پھر مرے شانوں پہ رکھا مصلحت کا بار ہے
چھپ چھپا کروار کرنے سےسدا سے عار ہے
دوستی یا دشمنی جو ہے، سر بازار ہے
زخم کہنہ دل کے سارے ہو چکے ہیں مندمل
چھوڑ کر جانے کو پھر سے دوست اک درکار ہے
میں بھٹک کر آ گئی ہوں اک للی پٹ میں کہیں
اور تماشا یہ کہ پھر اونچا مرا معیار ہے
یہ انوکھا مسئلہ ہے اس نرالے دور کا
جس کی جیسی زندگی ہے، اس سے وہ بیزار ہے
دور سے دیکھوں تو رستے ہیں ہزاروں منتظر
چل پڑوں جس سمت کو ،آگے وہیں دیوار ہے
گرچہ رہتی ہوں سمندر میں بھنور کی آنکھ میں
وہ کنارا مانگتی ہوں جو افق کے پار ہے
زندگی خوابوں سے ہے مشروط، سانسوں سے نہیں
آرزو جس میں نہ ہو وہ زندگی بے کار ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ ہے اپنے رکھنے کا وجو د
ہاں مجھے اپنے علاوہ سب جہاں سے پیار ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زندگی خوابوں سے ہے مشروط، سانسوں سے نہیں
آرزو جس میں نہ ہو وہ زندگی بے کار ہے
بہت خوب ! کیا بات ہے ۔
میں بھٹک کر آ گئی ہوں اک للی پٹ میں کہیں
اور تماشا یہ کہ پھر اونچا مرا معیار ہے
اچھا ہے !

اچھی کاوش ہے ۔ عروضی لحاظ سے تو کوئی مسئلہ نظر نہیں آرہا ۔ البتہ حشو و زوائد کافی ہیں جو وقت کے ساتھ بہتر ہوتے جائیں گے ۔ ٓخری شعر کے مصرع اول کو ایک نظر پھر دیکھ لیجئے ۔ بہتر ہوسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
کمال ہے بھئی، یعنی کہ خوب، چنانچہ بہت ہی خوب! ایک ایک مصرعے پر داد وصول کرنے کے ارادے سے لکھا ہے کیا نمرہ بٹیا؟ :) :) :)
 
منتشر، سستی ہے، روز اک سی ہے اور بےکار ہے
زندگی افسانوی قصہ نہیں،اخبار ہے
چپ رہاجاتا نہیں اور بولنادشوار ہے
کوئی تو ہے جو مری حالت کاذمہ دار ہے
سمت پر کچھ زور ہے نے بس میں کچھ رفتار ہے
کیوں ہمیشہ اور ہاتھوں میں مری پتوارہے
راستہ سچائی کا سنسان اور پرخار ہے
پھر مرے شانوں پہ رکھا مصلحت کا بار ہے
چھپ چھپا کروار کرنے سےسدا سے عار ہے
دوستی یا دشمنی جو ہے، سر بازار ہے
زخم کہنہ دل کے سارے ہو چکے ہیں مندمل
چھوڑ کر جانے کو پھر سے دوست اک درکار ہے
میں بھٹک کر آ گئی ہوں اک للی پٹ میں کہیں
اور تماشا یہ کہ پھر اونچا مرا معیار ہے
یہ انوکھا مسئلہ ہے اس نرالے دور کا
جس کی جیسی زندگی ہے، اس سے وہ بیزار ہے
دور سے دیکھوں تو رستے ہیں ہزاروں منتظر
چل پڑوں جس سمت کو ،آگے وہیں دیوار ہے
گرچہ رہتی ہوں سمندر میں بھنور کی آنکھ میں
وہ کنارا مانگتی ہوں جو افق کے پار ہے
زندگی خوابوں سے ہے مشروط، سانسوں سے نہیں
آرزو جس میں نہ ہو وہ زندگی بے کار ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ ہے اپنے رکھنے کا وجو د
ہاں مجھے اپنے علاوہ سب جہاں سے پیار ہے
واو!
 

نمرہ

محفلین
اچھی کاوش ہے ۔ عروضی لحاظ سے تو کوئی مسئلہ نظر نہیں آرہا ۔ البتہ حشو و زوائد کافی ہیں جو وقت کے ساتھ بہتر ہوتے جائیں گے ۔ ٓخری شعر کے مصرع اول کو ایک نظر پھر دیکھ لیجئے ۔ بہتر ہوسکتا ہے۔
شکریہ، اور اگرآپ نشاندہی بھی کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ آخری شعر کےپہلےمصرعے کا مجھے بھی اندازہ ہے مگر اس کی مرمت کی کوئی صورت سوجھی نہیں مجھے۔
 
شکریہ، اور اگرآپ نشاندہی بھی کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ آخری شعر کےپہلےمصرعے کا مجھے بھی اندازہ ہے مگر اس کی مرمت کی کوئی صورت سوجھی نہیں مجھے۔
ہاں شکایت ہے مجھے اپنے وجود خام سے
ہاں مرا تھوڑا گلہ خود میرا اپنا ہی وجود
ہاں مجھے تھوڑا گلہ اپنے وجود و جاں سے ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ اپنے وجود زن سے ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ اپنے وجود کن سے ہے

یہ کچھ رد و بدل کر کے لکھنے کی کوشش کی ہے، اصلی شعر سے زیادہ دور جانے کی دانستہ کوشش نہیں کی ہے، گو کہ کئی مقامات پر مفہوم اتنا جامع نہیں رہا جو اصل شعر کا حاصل ہے اور کچھ ایسے ہیں جو ہمیں خود پسند نہیں آئے لیکن لکھ دیا کہ ان کو پڑھ کر یہ سمجھ میں آ جائے کہ اس کو کس کس طرح تبدیل نہیں کرنا چاہیے اور یوں شاید کوئی زیادہ بہتر صورت ذہن میں آ جائے۔ :) :) :)

ویسے نمرہ بٹیا، کئی جگہوں پر املا کی غلطیاں ہیں، مثلاً دو الفاظ ایک ساتھ لکھے ہوئے ہیں تو کہیں ایک ہی لفظ میں غیر ضروری اسپیس شامل کیا گیا ہے۔ :) :) :)
 

نمرہ

محفلین
ہاں شکایت ہے مجھے اپنے وجود خام سے
ہاں مرا تھوڑا گلہ خود میرا اپنا ہی وجود
ہاں مجھے تھوڑا گلہ اپنے وجود و جاں سے ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ اپنے وجود زن سے ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ اپنے وجود کن سے ہے

یہ کچھ رد و بدل کر کے لکھنے کی کوشش کی ہے، اصلی شعر سے زیادہ دور جانے کی دانستہ کوشش نہیں کی ہے، گو کہ کئی مقامات پر مفہوم اتنا جامع نہیں رہا جو اصل شعر کا حاصل ہے اور کچھ ایسے ہیں جو ہمیں خود پسند نہیں آئے لیکن لکھ دیا کہ ان کو پڑھ کر یہ سمجھ میں آ جائے کہ اس کو کس کس طرح تبدیل نہیں کرنا چاہیے اور یوں شاید کوئی زیادہ بہتر صورت ذہن میں آ جائے۔ :) :) :)

ویسے نمرہ بٹیا، کئی جگہوں پر املا کی غلطیاں ہیں، مثلاً دو الفاظ ایک ساتھ لکھے ہوئے ہیں تو کہیں ایک ہی لفظ میں غیر ضروری اسپیس شامل کیا گیا ہے۔ :) :) :)
جی دیکھتی ہوں۔سپیس کامسئلہ اصل میں میرے کی بورڈ کا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یقیناً کچھ مصرعے بہتر کئے جا سکتے ہیں، جن سے روانی اور چستی میں اضافہ ممکن ہے۔ پہلے ہی شعر کے پہلے مصرع میں ہی، ’روز اک سی ہے‘ کچھ عجیب لگتا ہے۔

سمت پر کچھ زور ہے نے بس میں کچھ رفتار ہے
بس سے کوئی میرا جیسا بیوقوف Bus سمجھ لے تو!!
یہ یوں ہو سکتا ہے
سمت پر ہے زور، نے قابو میں کچھ رفتار ہے
البتہ پانچ چھ مطلعوں کی کیا ضرورت ہے۔ ان میں سے بہترین کو ہی رکھو۔

چھپ چھپا کروار کرنے سےسدا سے عار ہے
چھپ کر وار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، چھپا کر کیسے کیا جاتا ہے؟ ’کرنے سے سدا سے‘ صوتہ طور پر ناگوار لگتا ہے۔

زخم کہنہ دل کے سارے ہو چکے ہیں مندمل
ترکیب کے ساتھ تو یہاں ’زخم ہائے کہنہ‘ کا محل ہے۔ اردو میں ہم زخم جمع میں بھی استعمال کر ستے ہیں لیکن فارسی ترکیب میں غلط محسوس ہوتا ہے۔ ’دل کے سارے زخم‘ کہا جا سکتا ہے۔ یا ’سب پرانے زخم دل کے‘
آخری شعر پر تو بہت مشورے سعود میاں نے بھی دے دئے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شکریہ، اور اگرآپ نشاندہی بھی کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ آخری شعر کےپہلےمصرعے کا مجھے بھی اندازہ ہے مگر اس کی مرمت کی کوئی صورت سوجھی نہیں مجھے۔

نمرہ صاحبہ ، چونکہ پہلی دفعہ آپ کے کلام سے فیضیاب ہورہا تھا اس لئے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کس قدر رہنمائی ضروری ہے ۔ چنانچہ صرف اشارہ دیدیا ۔ استادِ محترم االف عین صاحب اور ابن سعید صاحب کئی باتوں کی پہلے ہی نشاندہی کرچکے ہیں ۔
مختصرًا یہ کہ حشو و زائد سے مراد وہ الفاظ جو شعر کے معنی میں کوئی اضافہ نہ کرتے ہوں یا محض وزن پورا کرنے کے لئے استعمال ہوئے ہوں ۔ تھوڑے بہت حشو و زوائد تو عمومًا ہر شاعر کے ہاں ہی ملتے ہیں۔ لیکن ان کی بہتات سے مصرع ذرا ڈھیلا ڈھالا ہوجاتا ہے ۔ ایک آدھ مصرع مثال کے طور پر لکھ دیتا ہوں ۔ اگر چاہیں تو باقی آپ خود دیکھ لیجئے ۔
دور سے دیکھوں تو رستے ہیں ہزاروں منتظر
چل پڑوں جس سمت کو ،آگے وہیں دیوار ہے

دوسرا مصرع چست نہیں ہے ۔ اگر اس کو یوں کیا جائے

دور سے دیکھوں تو رستے ہیں ہزاروں ہر طرف
جس طرف لیکن چلوں میں آگے اک دیوار ہے

میں بھٹک کر آ گئی ہوں اک للی پٹ میں کہیں
اور تماشا یہ کہ پھر اونچا مرا معیار ہے

دوسرے مصرع میں کہ اور پھر اضافی ہیں ۔ فی الوقت مجھے اس مصرع کا کوئی متبادل نہیں سوجھ رہا ۔


گرچہ رہتی ہوں سمندر میں بھنور کی آنکھ میں
وہ کنارا مانگتی ہوں جو افق کے پار ہے

پہلے مصرع میں ’’گرچہ‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں ۔ دوسرے مصرع میں وہ کے بجائے ’’اور‘‘ رکھ کر دیکھئے ۔ کنارہ تو ہوتا ہی افق کے پار ہے اس لئے یہاں ’’وہ ‘‘کی ضرورت نہیں ۔

میں کہ رہتی ہوں سمندر میں بھنور کی آنکھ میں
اور کنارا مانگتی ہوں جو افق کے پار ہے

امید ہے یہ چھوٹے چھوٹے سے نکات کچھ کام آئیں گے۔ ایک دفعہ پھر اس اچھے کلام پر داد ۔ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ ۔
 
Top