نمرہ
محفلین
منتشر، سستی ہے، روز اک سی ہے اور بےکار ہے
زندگی افسانوی قصہ نہیں،اخبار ہے
چپ رہاجاتا نہیں اور بولنادشوار ہے
کوئی تو ہے جو مری حالت کاذمہ دار ہے
سمت پر کچھ زور ہے نے بس میں کچھ رفتار ہے
کیوں ہمیشہ اور ہاتھوں میں مری پتوارہے
راستہ سچائی کا سنسان اور پرخار ہے
پھر مرے شانوں پہ رکھا مصلحت کا بار ہے
چھپ چھپا کروار کرنے سےسدا سے عار ہے
دوستی یا دشمنی جو ہے، سر بازار ہے
زخم کہنہ دل کے سارے ہو چکے ہیں مندمل
چھوڑ کر جانے کو پھر سے دوست اک درکار ہے
میں بھٹک کر آ گئی ہوں اک للی پٹ میں کہیں
اور تماشا یہ کہ پھر اونچا مرا معیار ہے
یہ انوکھا مسئلہ ہے اس نرالے دور کا
جس کی جیسی زندگی ہے، اس سے وہ بیزار ہے
دور سے دیکھوں تو رستے ہیں ہزاروں منتظر
چل پڑوں جس سمت کو ،آگے وہیں دیوار ہے
گرچہ رہتی ہوں سمندر میں بھنور کی آنکھ میں
وہ کنارا مانگتی ہوں جو افق کے پار ہے
زندگی خوابوں سے ہے مشروط، سانسوں سے نہیں
آرزو جس میں نہ ہو وہ زندگی بے کار ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ ہے اپنے رکھنے کا وجو د
ہاں مجھے اپنے علاوہ سب جہاں سے پیار ہے
زندگی افسانوی قصہ نہیں،اخبار ہے
چپ رہاجاتا نہیں اور بولنادشوار ہے
کوئی تو ہے جو مری حالت کاذمہ دار ہے
سمت پر کچھ زور ہے نے بس میں کچھ رفتار ہے
کیوں ہمیشہ اور ہاتھوں میں مری پتوارہے
راستہ سچائی کا سنسان اور پرخار ہے
پھر مرے شانوں پہ رکھا مصلحت کا بار ہے
چھپ چھپا کروار کرنے سےسدا سے عار ہے
دوستی یا دشمنی جو ہے، سر بازار ہے
زخم کہنہ دل کے سارے ہو چکے ہیں مندمل
چھوڑ کر جانے کو پھر سے دوست اک درکار ہے
میں بھٹک کر آ گئی ہوں اک للی پٹ میں کہیں
اور تماشا یہ کہ پھر اونچا مرا معیار ہے
یہ انوکھا مسئلہ ہے اس نرالے دور کا
جس کی جیسی زندگی ہے، اس سے وہ بیزار ہے
دور سے دیکھوں تو رستے ہیں ہزاروں منتظر
چل پڑوں جس سمت کو ،آگے وہیں دیوار ہے
گرچہ رہتی ہوں سمندر میں بھنور کی آنکھ میں
وہ کنارا مانگتی ہوں جو افق کے پار ہے
زندگی خوابوں سے ہے مشروط، سانسوں سے نہیں
آرزو جس میں نہ ہو وہ زندگی بے کار ہے
ہاں مجھے تھوڑا گلہ ہے اپنے رکھنے کا وجو د
ہاں مجھے اپنے علاوہ سب جہاں سے پیار ہے