نور وجدان
لائبریرین
مایوسی ایسا دلدل ہے جس میں آپ نے خود گرنا ہوتا ہے۔اس کے آس پاس لہراتے بازو آپ کو کھینچنے کو کوشش میں رہتے ہیں ۔ جب آپ توازن کھو دیتے ہیں تو دو انتہائیں رہ جاتی ہیں ۔ایک انتہا آپ کو مسٹسزم کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری ڈینائیل کی طرف، جب آپ مرتد ہو جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے دو انتہاؤں کے درمیان رہنے والے کیا منافقت کا لبادہ اوڑھے ہیں جسے عام زبان میں انسانیت کہا جاتا ہے ۔
جب میں چھوٹی بچی تھی تب میں ان انتہاؤں میں نہ ان کے مابین تھی ۔ میں معصوم تھی ۔ اس کی دلیل بھی معصومانہ سی ہے ۔ پانچ سال کی عمر میں یہ خیال کرتی تھی میں نے گناہ دو کیے ہیں یا ابھی ایک کیا ہے جب تک تین گناہ نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ معاف کرتے رہیں گے یا نماز چھوٹ جایا کرتی تھی تو سوچا کرتی سات سال کی عمر میں فرض ہے اگر چھوٹ بھی گئی تو کیا ہے ۔ بڑے ہو کر یہی معصومیت منافقت میں بدل گئی ۔ کیا ہوا میں نماز نہیں پڑھتی میں کلمہ گو ہوں ۔ کوئی مدد کو آئے تو گمان ہو کہ ان کو عادت ہے مانگنے کی سو مانگتے ہیں
اور جب میں میٹرک میں تھی تو مجھے نعتیں ، قرانِ پاک تفاسیر سے بہت لگاؤ تھا سچ بتاؤں تو مزہ بھی بہت آتا تھا÷ پانچ وقت کی نماز پڑھ کر خود کو جنتی سمجھا کرتی تھی ۔ قیامت کا سوچ کر مجھے شاہکارِ کائنات نورِ مجسم ، امامِ انبیاء ، بانی حوضِ کوثر کا خیال آجایا کرتا ۔ اور میں حضرت امام حسین پر اتنی فدا تھی اکثر ان کی بات کرتی رہتی تھی ۔ یہ خیال کیا کرتی میں لباس پیوند زدہ پہن کر سنت پوری کر رہی ہوں ۔ اللہ سے سوال تب بھی کرتی تھی ۔ اللہ مجھے اپنی محبت عطا کر مجھے جنت و دوذخ کے انعام و سزا میں نہ ڈال ۔ یہ بات کہنے کی حد تک تو آسان مگر کرنے کو مشکل تھی ۔
میری عادت ایک تو بڑی گندی ہے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتی ہوں ۔ شکوے کرکے ان کے جواب لکھ دیتی ہوں گویا کہ میں اقبال ہوں ۔شکوے کا طرز تو اقبال سے ہی سیکھا تھا ورنہ جواب شکوہ بھی نہ لکھا کرتی ۔آپ لوگ پریشان ہوں گے جوابِ شکوہ کہاں ہے ۔ اسی محفل کی کسی لڑی میں پڑا ہے مگر خدا گواہ ہے جب لکھا تب خود کو معلوم نہ تھا میں کیا لکھ رہی ۔بس اتنا میں لکھ رہی ہوں جس طرح اب لکھ رہی ہوں۔ لکھنے کے لیے غم کی مے دستیاب ہوتی ہے وہ نہ ملے تو بازار کا سٹاک بھرا ہوا ہے ۔ اکثر شعراء کو میں نے دونوں طرز کے مشروبات نوش کرتے پایا ہے (سنا) بے خودی کے عالم میں انسان شاہکار تخلیق کرتا ہے ۔ اب پتا نہیں اس بات میں کتنی صداقت ہے
جب میں چھوٹی بچی تھی تب میں ان انتہاؤں میں نہ ان کے مابین تھی ۔ میں معصوم تھی ۔ اس کی دلیل بھی معصومانہ سی ہے ۔ پانچ سال کی عمر میں یہ خیال کرتی تھی میں نے گناہ دو کیے ہیں یا ابھی ایک کیا ہے جب تک تین گناہ نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ معاف کرتے رہیں گے یا نماز چھوٹ جایا کرتی تھی تو سوچا کرتی سات سال کی عمر میں فرض ہے اگر چھوٹ بھی گئی تو کیا ہے ۔ بڑے ہو کر یہی معصومیت منافقت میں بدل گئی ۔ کیا ہوا میں نماز نہیں پڑھتی میں کلمہ گو ہوں ۔ کوئی مدد کو آئے تو گمان ہو کہ ان کو عادت ہے مانگنے کی سو مانگتے ہیں
اور جب میں میٹرک میں تھی تو مجھے نعتیں ، قرانِ پاک تفاسیر سے بہت لگاؤ تھا سچ بتاؤں تو مزہ بھی بہت آتا تھا÷ پانچ وقت کی نماز پڑھ کر خود کو جنتی سمجھا کرتی تھی ۔ قیامت کا سوچ کر مجھے شاہکارِ کائنات نورِ مجسم ، امامِ انبیاء ، بانی حوضِ کوثر کا خیال آجایا کرتا ۔ اور میں حضرت امام حسین پر اتنی فدا تھی اکثر ان کی بات کرتی رہتی تھی ۔ یہ خیال کیا کرتی میں لباس پیوند زدہ پہن کر سنت پوری کر رہی ہوں ۔ اللہ سے سوال تب بھی کرتی تھی ۔ اللہ مجھے اپنی محبت عطا کر مجھے جنت و دوذخ کے انعام و سزا میں نہ ڈال ۔ یہ بات کہنے کی حد تک تو آسان مگر کرنے کو مشکل تھی ۔
میری عادت ایک تو بڑی گندی ہے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتی ہوں ۔ شکوے کرکے ان کے جواب لکھ دیتی ہوں گویا کہ میں اقبال ہوں ۔شکوے کا طرز تو اقبال سے ہی سیکھا تھا ورنہ جواب شکوہ بھی نہ لکھا کرتی ۔آپ لوگ پریشان ہوں گے جوابِ شکوہ کہاں ہے ۔ اسی محفل کی کسی لڑی میں پڑا ہے مگر خدا گواہ ہے جب لکھا تب خود کو معلوم نہ تھا میں کیا لکھ رہی ۔بس اتنا میں لکھ رہی ہوں جس طرح اب لکھ رہی ہوں۔ لکھنے کے لیے غم کی مے دستیاب ہوتی ہے وہ نہ ملے تو بازار کا سٹاک بھرا ہوا ہے ۔ اکثر شعراء کو میں نے دونوں طرز کے مشروبات نوش کرتے پایا ہے (سنا) بے خودی کے عالم میں انسان شاہکار تخلیق کرتا ہے ۔ اب پتا نہیں اس بات میں کتنی صداقت ہے