ساغر صدیقی منزل کامگار تھا گجرات

سید زبیر

محفلین
نوٹ :پنجاب کی لوک داستاں 'سوہنی مہینوال' کو بھی ساغر صدیقیؔ اردو میں ترجمہ کرنے کے آرزو مند تھےلیکن زندگی نے اتنی مہلت نہ دی صرف اس قصے کے چند بند ترجمہ ہو سکے ۔جو پیشِ محفل ہیں

اے فضل شاہ تیرے دوہوں میں

داستان حیات ملتی ہے

جس کی دل گداز بانہوں میں

عشق کی کائنات ملتی ہے

شہر گجرات بر کنارِ چناب

مغلیہ دور کی نشانی ہے

اسی وادی کے دم سے وابستہ

حسن اور عشق کی کہانی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بکھرے بکھرے سے گیسوووں والے

ہر مسافر کو ٹوک دیتے تھے

نوجوں حادثات دوراں کو

زور بازو سے روک دیتے تھے

--------------

ماہ پارے قیام کرتے تھے

منزل کامگار تھا گجرات

مغلیہ دور کے گلستاں کی

جگمگاتی بہار تھا گجرات

---------------

شہر گجرات کے حسین برتن

چین و ایران بھیجے جاتے تھے

دور و نزدیک کے دیاروں میں


گِل کے سامان بھیجے جاتے تھے

---------------------

شہر گجرات کی حسین گلیاں

جن میں رقصِ بہار دیکھا ہے

سادہ مٹی کے برتنوں میں یہاں

چاندی کا نکھار دیکھا ہے


لوگ اس وادی محبت کے

علم و عرفان کا تاج رکھتے تھے

حسن پرور سلوک تھے اُن کے

عاشقانہ مزاج رکھتے تھے

----------------------------

زندگی سے رچے گلی کوچے

جن میں شرفائے وقت رہتے تھے

کشتیوں کے جلو میں تنکے بھی

موج ہستی کے ساتھ بہتے تھے

--------------------------

مسجدوں کے بلند مینارے

آسمانوں کی بات کرتے تھے

اہل دانش یہاں اشاروں میں

دو جہانوں کی بات کرتے تھے

-----------------

شہر گجرات کی حسین گلیاں

جن میں رقصِ بہار دیکھا ہے

سادہ مٹی کے برتنوں میں یہاں

ذوقِ پروردگار دیکھا ہے

-----------------------

ہلکے ہلکے صراحیوں کے بدن

جیسے پریاں ارم سے آئی ہوں

یا کوئی آیتیں تقدس کی

اذن لے کر حرم سے آئی ہوں

سا غر صدیقی ؔ
 
ہلکے ہلکے صراحیوں کے بدن
جیسے پریاں ارم سے آئی ہوں
یا کوئی آیتیں تقدس کی
اذن لے کر حرم سے آئی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ ۔۔۔ ساغر صدیقی نے کمال لکھا۔ اس سے اچھی تشبیہات شاید ممکن ہی نہیں۔
بات سے بات۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ زندگی میں اپنی محنت کی کمائی سے جو پہلی شاعری کی کتاب خریدی تھی وہ 'کلیات ساغر' تھی۔
بہت عمدہ شراکت۔ خوش رہیے شاہ صاحب
 
Top