مکتوب منزل کہاں ہے؟

عطیہ عادل

محفلین
منزل کہاں ہے ؟
جون کا مہینہ تھا اور لگتا تھا کہ جیسے دوزخ منہ کھول کر سانس لے رہی ہو۔ صیدیقی صاحب اللہ اماں پڑھتے ہوئے دفتر کے دروازے سے نکل کر جلدی سے یخ بستہ گاڑی میں بیٹھ گئے-انہیں گرمیوں کا موسم سخت نا پسند تھا- ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ سال بھر کے بکھیڑے جون میں آکر جمع ہو جا تے تھے-کاروباری مصروفیات ، گھریلو ذمہ داریاں مل کر ایک گورکھ دھندہ بن جایا کرتے- بڑی بیٹی کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں اور گھر پہنچتے ہی بیگم کی طرف سے فرمائشوں کا بیان شروع ہو جاتا- آس کے علاوہ بھی بڑے خرچے ان کے سر پر تھے- منجھلے بیٹے نے پچھلے دنوں اپنی گاڑی کہیں جا کر ما ر دی-کار کی مرمت کے علاوہ گھر کی اوپر کے منزل پر لگا گیزر کو بھی صحیح کروانا تھا- - ذہنی تناؤسے تھک کر انہوں نے گاڑی کی پشت پر سرٹکایا ہی تھا کہ ایک دم کسی خیال کی کوند سے سیدھے ہوکر بیٹھ گئے-
"وہ صاحب جی ! ابا جی کے کمرے کا اے سی نہیں چلتا ان کا کمرہ بھی اوپرہے – سخت گرمی وہ نڈھال سے پڑے رہتے ہیں اور کچھ کھاتے پیتے بھی نہیں-آپ نے ان کو ڈاکٹر کو بھی دکھانا تھا-"
کئی دنوں سے ان کا ملا زم بشیر دین مسلسل کان کھا رھا تھا- صیدیقی صاحب نے دل میں پکّا ارادہ با ندھا کہ گھر پہنچ کر ابا جی کو نچلی منزل کے کسی بیڈ روم میں منتقل کریںگے اور پھر ان کے کمرے کا اے سی بھی جلد ہی ٹھیک کروا دیں گے-
گھر کے اندر داخل ہو کر وہ جیسے ہی لاؤنج میں آئے تو انہیں حیرت کا ایک جھٹکا لگا –بشیر کچھ اور مالازموں کے سا تھ مل کر ابا جی کو پہلے ہی نیچلی منزل لے آیا تھا- بس اب انہیں زیرِزمیں ہی پہنچانا تھا-​
 
Top