نبیل
تکنیکی معاون
گزشتہ سال مجھے رضا علی عابدی کی کتاب منشی عبدالکریم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کتاب مجھے کافی دلچسپ لگی۔ میں نے کسی زمانے میں پڑھا تھا کہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اردو بھی جانتی تھی۔ اس کی تفصیل بھی اسی کتاب سے معلوم ہوئی۔ اس کتاب کے اقتباسات بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر بھی شائع ہوئے تھے جنہیں میں یہاں قارئین کی سہولت کے لیے پیش کر رہا ہوں۔
بنجارے کی پیشین گوئی
منشی عبدالکریم ایک ہندوستانی تھے جو 1887 میں برطانیہ کے شاہی دربار میں بطور ملازم وارد ہوئے اور ملکہ وکٹوریا کی موت تک تقریباً چودہ سال ان کی خدمت میں رہے اور ملکہ کے اتالیق کہلائے۔ ملکہ کو اردو سکھانے کا سہرا انہیں کے سر ہے۔ ملکہ وکٹوریا کا ِعہد اٹھارہ جون 1837 کو شروع ہوا اور بائیس جنوری 1901 کو ملکہ کی موت پر ختم ہوا۔
بی بی سی اردو کے سینیئر براڈکاسٹر رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ میں اسی ہندوستانی نوجوان کی برطانیہ کے شاہی دربار میں آمد اور ملکہ سے ان کی قربت کا احوال بیان کیا ہے۔
یہ کتاب سال دو ہزار چار میں سنگ میل پبلیکیشنز نے لاہور سے شائع کی۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے اسی کتاب سے منتخب اقتباسات شائع کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے۔
’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ سے اقتباس
بنجارے کی پیشین گوئی
’ہوا یہ کہ شاہ جارج سوئم تو دیوانے ہوگئے۔
ان کی جگہ ان کے بیٹے جارج چہارم کو تخت پر بٹھایا گیا۔ انہیں بیماریوں اور موٹاپے نے آن دبوچا۔ ان کے موٹاپے کا یہ عالم تھا کہ ان کو کپڑے پہنانا دوبھر تھا۔ ان کا لباس ان کے تن پر رکھ کر سیا جاتا تھا۔ یہ کام بھی بیچارے درزیوں کے گھنٹوں کھا جاتا تھا۔
خود ان کو یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ کہیں وہ بھی پاگل نہ ہوجائیں۔ ان کے مرتے ہی ان کے تخت اور دولت پر ان کے لالچی، خود غرض اور نالائق بھائی قبضہ کر لیں گے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ ان کی اپنی بیٹی مر چکی تھی اور ان کے بھائیوں کی اولادیں بھی یا تو کمسنی ہی میں مر گئی تھیں یا سب کی سب ناجائز تھیں۔
اب لے دے کر ان کی ایک کم عمر اور یتیم بھتیجی الیکزانڈرینا وکٹوریا بچی تھی۔
یہ ان کے بھائی ایڈورڈ کی بیٹی تھی۔ ایڈورڈ سپاہی رہ چکے تھے اور بری طرح مقروض تھے۔ اپنی غریبی اور انگلستان کی مہنگائی سے تنگ آکر وہ اپنی جرمن بیوی سمیت یورپ چلے گئے۔ وہیں کہیں مارے مارے پھر رہے تھے کہ مالٹا میں ان کی ملاقات خانہ بدوشوں سے ہوئی۔ جنوبی یورپ میں آباد یہ وہی بنجارے تھے جن کے دادا پردادا کبھی سندھ اور راجستھان سے چل کر عراق کے راستے یورپ پہنچے تھے۔ وہیں ایک خانہ بدوش نے ایڈورڈ کو بتایا کہ تمھارے گھر ملکہ پیدا ہونے والی ہے۔
یہ سوچ کر کہ انگلستان کی ملکہ انگلستان ہی میں پیدا ہونی چاہئے، انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی گھوڑا گاڑی نکالی اور چونکہ کوچوان کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے، خود ہی گاڑی ہانک کر انگلستان پہنچے جہاں وکٹوریہ پیدا ہوئی۔ اس روز مئی کی 24 تاریخ تھی۔ یہ سنہ 1819 کی بات ہے۔
آٹھ ماہ بعد ایڈورڈ نمونیا سے چل بسے البتہ برطانیہ کے تخت کو اس کا وارث دے گئے۔‘