منشی عبدالکریم

نبیل

تکنیکی معاون
20050513022825munshi_title203x300.jpg


گزشتہ سال مجھے رضا علی عابدی کی کتاب منشی عبدالکریم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کتاب مجھے کافی دلچسپ لگی۔ میں نے کسی زمانے میں پڑھا تھا کہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اردو بھی جانتی تھی۔ اس کی تفصیل بھی اسی کتاب سے معلوم ہوئی۔ اس کتاب کے اقتباسات بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر بھی شائع ہوئے تھے جنہیں میں یہاں قارئین کی سہولت کے لیے پیش کر رہا ہوں۔

بنجارے کی پیشین گوئی

منشی عبدالکریم ایک ہندوستانی تھے جو 1887 میں برطانیہ کے شاہی دربار میں بطور ملازم وارد ہوئے اور ملکہ وکٹوریا کی موت تک تقریباً چودہ سال ان کی خدمت میں رہے اور ملکہ کے اتالیق کہلائے۔ ملکہ کو اردو سکھانے کا سہرا انہیں کے سر ہے۔ ملکہ وکٹوریا کا ِعہد اٹھارہ جون 1837 کو شروع ہوا اور بائیس جنوری 1901 کو ملکہ کی موت پر ختم ہوا۔

بی بی سی اردو کے سینیئر براڈکاسٹر رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ میں اسی ہندوستانی نوجوان کی برطانیہ کے شاہی دربار میں آمد اور ملکہ سے ان کی قربت کا احوال بیان کیا ہے۔

یہ کتاب سال دو ہزار چار میں سنگ میل پبلیکیشنز نے لاہور سے شائع کی۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے اسی کتاب سے منتخب اقتباسات شائع کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے۔

’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ سے اقتباس

بنجارے کی پیشین گوئی

’ہوا یہ کہ شاہ جارج سوئم تو دیوانے ہوگئے۔

ان کی جگہ ان کے بیٹے جارج چہارم کو تخت پر بٹھایا گیا۔ انہیں بیماریوں اور موٹاپے نے آن دبوچا۔ ان کے موٹاپے کا یہ عالم تھا کہ ان کو کپڑے پہنانا دوبھر تھا۔ ان کا لباس ان کے تن پر رکھ کر سیا جاتا تھا۔ یہ کام بھی بیچارے درزیوں کے گھنٹوں کھا جاتا تھا۔

خود ان کو یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ کہیں وہ بھی پاگل نہ ہوجائیں۔ ان کے مرتے ہی ان کے تخت اور دولت پر ان کے لالچی، خود غرض اور نالائق بھائی قبضہ کر لیں گے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ ان کی اپنی بیٹی مر چکی تھی اور ان کے بھائیوں کی اولادیں بھی یا تو کمسنی ہی میں مر گئی تھیں یا سب کی سب ناجائز تھیں۔

اب لے دے کر ان کی ایک کم عمر اور یتیم بھتیجی الیکزانڈرینا وکٹوریا بچی تھی۔

یہ ان کے بھائی ایڈورڈ کی بیٹی تھی۔ ایڈورڈ سپاہی رہ چکے تھے اور بری طرح مقروض تھے۔ اپنی غریبی اور انگلستان کی مہنگائی سے تنگ آکر وہ اپنی جرمن بیوی سمیت یورپ چلے گئے۔ وہیں کہیں مارے مارے پھر رہے تھے کہ مالٹا میں ان کی ملاقات خانہ بدوشوں سے ہوئی۔ جنوبی یورپ میں آباد یہ وہی بنجارے تھے جن کے دادا پردادا کبھی سندھ اور راجستھان سے چل کر عراق کے راستے یورپ پہنچے تھے۔ وہیں ایک خانہ بدوش نے ایڈورڈ کو بتایا کہ تمھارے گھر ملکہ پیدا ہونے والی ہے۔

یہ سوچ کر کہ انگلستان کی ملکہ انگلستان ہی میں پیدا ہونی چاہئے، انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی گھوڑا گاڑی نکالی اور چونکہ کوچوان کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تھے، خود ہی گاڑی ہانک کر انگلستان پہنچے جہاں وکٹوریہ پیدا ہوئی۔ اس روز مئی کی 24 تاریخ تھی۔ یہ سنہ 1819 کی بات ہے۔

آٹھ ماہ بعد ایڈورڈ نمونیا سے چل بسے البتہ برطانیہ کے تخت کو اس کا وارث دے گئے۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
عہدِ وکٹوریا شروع ہوتا ہے

20050513022943queen_victoria203.jpg


یہ اقتباس بی بی سی اردو کے سینئر براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب ’ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم‘ سے لیا گیا ہے۔ منشی عبدالکریم ایک ہندوستانی تھے جو انیسویں صدی کے اواخر میں چودہ سال تک ملکہ برطانیہ کے بہت قریب رہے۔

عہدِ وکٹوریا شروع ہوتا ہے

’اس دوران شاہ جارج مرے۔ ان کے بعد ان کے بھائی ولیم چہارم تخت پر بیٹھے لیکن ان کی زندگانی کا چراغ جلد ہی ٹمٹمانے لگا۔ انہوں نے اپنی بھتیجی کی اٹھارہویں سالگرہ تو دیکھ لی، اب انہیں معرکہ واٹرلو کی سالگرہ دیکھنے کا ارمان تھا۔ 18 جون کو یہ مرحلہ طے ہوتے ہی انہوں نے آنکھیں موند لیں۔ یہ بات سنہ 1837 کی ہے۔

بادشاہ کے مرتے ہی آرچ بشپ، لارڈ چمبرلین اور بادشاہ کے معالج اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے وکٹوریا کی قیام گاہ کی طرف لپکے جہاں انہوں نے دیکھا کہ گیٹ بند ہے اور دربان خراٹے لے رہا ہے۔ بہت گھنٹیاں بجائی گئیں، بڑی مشکل سے دروازہ کھلا لیکن اندر سے جواب آیا کہ شہزادی سو رہی ہے۔ مگر جب نوواردوں نے کہا کہ وہ شہزادی سے نہیں، ملکہ سے ملنے آئے ہیں تو ماں نے جا کر اور منہ چوم کر ٹھایا۔

وکٹوریہ اپنے شب خوابی کے لباس کے اوپر ڈریسنگ گاؤن اور سلیپریں پہن کر ملاقاتیوں کے پاس آئیں۔ انہیں دیکھتے ہی ملاقاتیوں نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب لارڈ چمبرلین نے سارا احوال کہنا شروع کیا اور جوں ہی لفظ ’ملکہ‘ پر پہنچے، ملکہ نے اپنا ایک ہاتھ بوسے کے لئے ان کی طرف بڑھا دیا اور اتنے اشتیاق سے بڑھایا کہ اگر شاہی آداب اجازت دیتے تو وہ دونوں ہاتھ بڑھاتیں۔

یہیں سے عہدِ وکٹوریا شروع ہوتا ہے۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
وکٹوریا کا پیارا عبدل

20050513022343munshi_painting203.jpg


’اس روز لندن میں بڑا جشن تھا۔ پورے برطانیہ سے پانچ لاکھ آدمی ملکہ کی گولڈن جوبلی کا جشن دیکھنے آئے تھے۔ زیادہ تر نے اس سے پہلے کوئی برطانوی بادشاہ دیکھا ہی نہ تھا۔ وکٹوریا کی حکمرانی کو پچاس سال پورے ہو رہے تھے اور اس خوشی میں پورا شہر دلہن بنا ہوا تھا۔۔۔۔

یہ جشن ہفتوں چلا۔ دعوتیں اور ضیافتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ہندوستان سے تمام بڑے راجا، مہاراجا اور ان کی رانیاں بھی انگلستان آگئیں۔ ملکہ نے بھی ان کے اعزاز میں ہندوستان جیسے تکلفات کا اہتمام کیا۔ بس انہیں ایک بات کی کوفت کھائے جا رہی تھی۔ ہندوستانی رانیوں اور شہزادیوں کی زبان اردو تھی اور ملکہ کو اردو نہیں آتی تھی۔ وہ مہمانوں سے گفتگو نہیں کر پا رہی تھیں۔ اس بات پر وہ بار بار جھلائیں۔

وکٹوریا کا سن ستّر کے قریب پہنچا تو یوں لگا جیسے ان کا لڑکپن لوٹ آیا ہو۔ وہ کھلکھلاتیں، ان کے رخسار شرم سے سرخ ہوجاتے، کبھی وہ حیا سے اپنا چہرہ چھپا لیتیں۔ اپنی سہلیوں میں بیٹھتیں تو لطیفے کہتیں اور نہ صرف اپنے بڑھاپے کا مذاق اڑاتیں بلکہ یہ بھی کہتیں کہ وہ خود کو جوان محسوس کرنے لگیں ہیں۔

عین ان ہی دنوں آگرے کا ایک چوبیس سالہ، خوب رو اور ذہین جوان ان کی زندگی میں داخل ہوا۔ محمد عبدالکریم۔

وکٹوریا کا پیارا عبدل۔

اور درباریوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکنے والا منشی عبدالکریم۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
منشی کریم کی دربار میں آمد

20050513021338mohammed_bukhsh203.jpg


’21 جون 1887 کی صبح بوڑھی ملکہ قصر وِنڈسر میں اپنے ناشتے کی میز پر بیٹھی تھیں۔ میز پر رکھی ہر چیز ٹھوس سونے کی تھی۔ سونے کی پلیٹیں، سونے کے چھری کانٹے، جھلملاتی چائے دانی، یہاں تک کہ انڈے کی وہ پیالی بھی سونے کی تھی جس میں شاہی انڈا دھرا تھا۔

ملکہ کے دائیں بائیں اجلی اچکن اور تنگ پاجامے پہنے، سر پر سنہری دھاریوں والے صافے باندھے، کمر پر پٹکا کسے، ہاتھ باندھے، نگاہیں جھکائے ان کے دو خدمت گار شیخ غلام مصطفی اور شیخ چِڈّا کھڑے تھے۔ یہ دونوں جوبلی کے برس میں ہندوستان سے آئے تھے۔ جان براؤن کو مرے چار سال ہو چکے تھے اور شاید کسی کا خیال تھا کہ وکٹوریا کو ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں سے جو دلچسپی ہے، کیا عجب کہ ان کے آس پاس سانولی رنگت اور ترشی ہوئی ڈاڑھیوں والے جوان موجود رہیں تو ان کا دل بھی بہلا رہے۔

صاف ظاہر ہے کہ ملکہ نے اپنی خوشنودی کا ایسا والہانہ اظہار کیا کہ کارپردازانِ ہند نے اور دو خادم اس شان سے بھیجے کہ جس وقت لندن میں جوبلی کا جشن جاری تھا، ان دونوں کو تربیت دی جا رہی تھی کہ ملکہ کے حضور کیسے دست بستہ حاضر ہو کر شرفِ باریابی حاصل کریں۔

سامنے کا دروازہ کھولا گیا۔ دو نوجوان فرشی سلام کرتے ہوئے داخل ہوئے، قریب آئے اور ملکہ کی قدم بوسی کی، اور پھر پیچھے ہٹ کر، ہاتھ باندھ کر، نگاہیں جھکا کر کھڑے ہوگئے۔ ان میں ایک محمد بحش تھا، گہری سانولی رنگت، چہرے پر ایک مسلسل مسکراہٹ اور بدن پر ایک تہہ فربہی کی۔

دوسرا عبدالکریم تھا، چوبیس سال کا جوان، چھریرا بدن، دراز قد، چہرے پر متانت اور آنکھوں میں بلا کی ذہانت۔ ملکہ نے اس پر ایک نگاہ کی تو صاف لگا کہ اس کے اوصاف سب سے جدا، سب سے الگ ہوں گے۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
’اس کے والد آگرہ میں دیسی ڈاکٹر ہیں‘

20050513022516munshi_queen203.jpg


’ان خدمت گاروں کو ہند میں صوبہ جات شمال غربی کے گورنر سر جان ٹائلر نے خود چن کر، دیکھ بھال کر، ٹھوک بجا کر بھیجا تھا۔ محمد بخش انگلستان آنے سے پہلے راجپوتانہ کے پولیٹیکل ایجنٹ جنرل ڈینہی کے ملازم اور دھولپور کے راجا کے خادم تھے۔ انہیں حاکم کو اٹھانے، بٹھانے اور کھلانے پلانے کا سلیقہ آتا تھا۔

عبدالکریم نے اردو اور انگریزی کی تعلیم پائی تھی۔ وہ آگرے میں دس روپے ماہانہ کے محرّر تھے۔ وہی آگرہ جہاں میڈیکل اسکول کھل چکا تھا جہاں کروڑوں کی آبادی کو علاج معالجہ فراہم کرنے کے لئے ہندوستانیوں کو ضرورت بھر تربیت دے کر اور ہاتھ میں سند تھما کر چہار جانب بھیج دیا جاتا تھا۔

عبدالکریم کے والد حاجی محمد وزیرالدین بھی انگریزی خواں اور اسی میڈیکل اسکول کے سندیافتہ تھے، برصغیر میں یہ لوگ ڈاکٹر ہی کہلاتے تھے۔ وزیرالدین آگرہ جیل میں معالج تھے۔ و اس زمانے میں ساٹھ روپے تنخواہ پاتے تھے جو اس وقت کی بہت معقول آمدنی تھی اور کسی معمولی دواساز یا کمپاؤنڈر کو اتنی اجرت نہیں مل سکتی تھی۔

جس روز عبدالکریم نے ملکہ کی قدم بوسی کی، ملکہ نے اسی دن اپنے روزنامچے میں لکھا کہ اس کے والد آگرہ میں دیسی ڈاکٹر ہیں۔ لیکن بعد کے مورخ آج تک اصرار کرتے ہیں کہ عبدالکریم نے انہیں گمراہ کیا اور یہ بتایا کہ وہ آگرہ میں سرجن جنرل ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ عبدالکریم انگلستان آئے تو پہلے انہیں ویٹر کے فرائض سونپے گئے حالانکہ ہندوستان میں انہیں اس کام کا ذرا سا تجربہ نہ تھا۔ خود عبدالکریم لکھتے ہیں کہ انہیں ابتدا میں ملکہ معظمہ کا منشی اور انڈین کلرک مقرر کیا گیا۔ یہ ان کی مبالغہ آرائی تھی۔ کم سے کم ایک تصویر ایسی موجود ہے جس میں وہ شاہی خاندان کو کھانا کھلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ہاں، ہوسکتا ہے کہ یہ صورت حال جلد ہی بدل گئی ہو کیونکہ کہ ملکہ سے بات منوانے کا مرحلہ زیادہ دور نہیں تھا۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
’جب ہم ناشتہ کریں۔۔۔۔۔منشی حاضر ہوں‘

20050513021805munshi_breakfast203.jpg


’عبدالکریم نے 23 جون کو محل میں قدم رکھا، پورے چالیس دن بعد ملکہ نے اپنے روزنامچے میں لکھا: ’’میں کچھ ہندوستانی لفظ سیکھ رہی ہوں تاکہ اپنے ملازموں سے بات کر سکوں۔ اس زبان اور اس کے بولنے والوں سے میرا حقیقی ربط وضبط کب ہوا تھا مگر ان دونوں سے مجھے بہت ہی رغبت ہے۔‘‘

یہ بولی قیصر ہند کی رگ و پے میں سما گئی۔ ایک چھوٹا سا کتابچہ ترتیب دیا گیا جس میں تمام ضروری ہندوستانی فقرے اور لفظ درج کرکے اسے نہ صرف شہزادیوں، شہزادوں بلکہ محل کے تمام عملے میں تقسیم کیا گیا تاکہ وہ سب اہل ہند سے ان ہی کی زبان میں گفتگو کر سکیں۔۔۔

اسی طرح عبدالکریم اور دوسرے خدمت گزاروں کے لیے انگریزی اتالیق مقرر کیا گیا۔ ۔۔۔ ملکہ کو یہ فکر ستائے جاتی تھی کہ خالی وقت میں یہ بے چارے کیا کریں گے، ان کا دل کیسے بہلے گا۔ اجنبی ماحول میں یہ کہیں اکتا نہ جائیں۔ چنانچہ آگے چل کر ہندوستان سے ان کی بیویوں کو بلالیا گیا۔

۔۔۔ ملکہ نے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر ریڈ کو خدمت گاروں کا معالج ہی نہیں بلکہ افسر فلاح و بہبود بھی مقرر کر دیا۔

ملکہ کے اسکاٹ لینڈ جانے کے دن قریب آ رہے تھے۔ ان ہندوستانیوں کو بھی ان کے ساتھ جانا تھا اور بہت سے نئے نئے فرائض سنبھالنے تھے۔

ملکہ نے ڈاکٹر ریڈ کو ایک تحریری یادداشت بھیجی جس میں لکھا تھا:

’جب ہم باغ میں ناشتہ کریں اور محمد بخش اور عبدالکریم حاضر ہوں تو وہ اپنا نیا گہرا نیلا لباس پہنیں۔ دوپہر کے کھانے پر انہیں چاہئے کہ اپنی کوئی سی پگڑی اور اپنی پسند کی پیٹی باندھیں البتہ سنہری پگڑی نہ باندھیں۔ البتہ رات کے کھانے پر وہ دونوں اپنا لال لباس پہنیں، سفید اور سنہری پگڑی باندھیں اور پیٹی باندھیں۔ اگر بارش یا سردی ہو اور ہم ناشتہ اندر کریں تو وہ ہمیشہ حاضر رہیں۔ جب ہم اوپر ہوں تو وہ کمرے کے باہر ہماری گھنٹی کی آواز پر حاضر ہوں۔ آئندہ ہمارے سرکاری کاغذات کے صندوق اور خطوط لڑکیوں کے بجائے یہی لایا لے جایا کریں۔ اسی طرح سہہ پہر کی چائے پر لڑکیوں کے بجائے یہی حاضر رہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں چونکہ موٹا اونی لباس درکار ہوتا ہے، ان لوگوں کے لئے موٹے اونی کپڑے کا لباس فراہم کیا جائے جسے یہ اپنے فرصت کے اوقات میں پہن سکیں لیکن ضروری ہے کہ یہ لباس ہندوستانی وضع کا ہو اور ساتھ پگڑی بھی ہو۔ اس کے علاوہ انہیں اونی موزے اور دستانے اور پیدل چلنے کے لیے موزوں جوتے بھی فراہم کیے جائیں۔ اور جب دن چھوٹے ہوجائیں اور سردی بڑھ جائے تو چائے ہمیشہ اندر ہی پلائی جائے۔ سات آٹھ ہفتوں میں دن چھوٹے ہوجائیں گے تو ان لوگوں کو چاہئے کہ چائے کے بعد ہی ہماری گھنٹی پر آجایا کریں کیونکہ دوپہر کے کھانے کے بعد اس کا وقت نہیں رہتا۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
یک نہ شد دو شد: منشی کے بعد حافظ بھی

20050513022905munshi_urdu_sign203.jpg


’وکٹوریا اپنے پیارے عبدل سے بے حد خوش تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ریڈ کو لکھا کہ عبدل کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ وہ اب بہت بدل گیا ہے۔ اگرچہ اس کے طور طریقے میں سنجیدگی اور متانت ہے، میری ملازماؤں کے ساتھ اس کا رویہ بہت دوستانہ ہے، اب تو وہ ہنستا ہے بلکہ مذاق بھی کرتا ہے اور انہیں دعوت دیتا ہے کہ آکر اس کی خوش نما چیزیں دیکھیں۔ وہ انہیں کھانے کے لیے کیک پیش کرتا ہے۔ وہ بہت کام کا آدمی ہے، ذہین ہے اور صاحبِ سلوک ہے۔ اپنی زبان کا جو اسے بڑا علم ہے اور اس باعث وہ بہت کارآمد ہے، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اب میرے لیے بہت سہل ہو گیا ہے۔

ملکہ 14 نے اپریل 1889 کو اپنے ذاتی سکریٹری سر ہنری کو لکھا:
’عبدالکریم کی میں جتنی بھی تعریف کروں کم ہے۔ اس میں بلا کی سرگرمی ہے، بات دھیان سے سنتا ہے، خاموش طبیعت ہے اور اس میں نفاست ہے، ذہین ہے اور خوش ذوق ہے اور (تمام ہندوستانیوں کی طرح) نہایت فرض شناس ہے اور میرے ذرا سے اشارے پر حکم بجالانے کے لیے ہمیشہ مستعد رہتا ہے۔ وہ جلد ہی میرے لیے عبارتوں کی نقل کرنے لگے گا۔ نہ صرف انگریزی میں بلکہ فرانسیسی میں بھی۔ حساب کتاب رکھنا بھی اسے خوب آتا ہے۔ اپنے احساسات اور طرزعمل کے معاملے میں وہ نہایت شریف النفس ہے۔‘

۔۔۔ اسی دوران محل میں وہ نجی تقریب ہوئی ہوگی جس میں ملکہ کو بتایا گیا ہوگا کہ منشی نے قران حفظ کر لیا ہے لہذا وہ اب حافظ کہلائے جائیں گے۔ 13 مئی 1889 کے ایک خط میں جب ملکہ نے ان کا نام ’منشی حافظ عبدالکریم‘ لکھا تو شور اٹھا کہ ایک نہ شُد دو شُد۔ ابھی تو وہ صرف منشی تھے، اب عزت بڑھانے کے لیے انہیں حافظ کا لقب بھی دے دیا گیا۔۔۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
منشی کو خارش لگ گئی

20050513021424munshi_acting203.jpg


’1890 شروع ہوا تو عبدالکریم کو بیماریوں نے آن دبوچا۔ پہلے انہیں خارش ہوئی، اس سے سنبھلے تو گردن پر پھوڑا نکل آیا۔ ملکہ نے گھبرا کر ریڈ کو لکھا اور شاہی لب ولہجے میں لکھا:

’ملکہ اپنے نہایت نفیس عبدل کی طرف سے سخت فکر مند ہیں جو ان کے لیے نہایت گراں قدر ہے اور جو اب تک تن درست اور توانا تھا۔ وہ ہمیشہ اتنا صحت مند اور تنومند رہا ہے کہ اس کی تکلیف دیکھ کر ملکہ پریشان ہیں۔ انہیں اس سب کی طرف سے فکر رہتی ہے کہ کہیں یوں نہ ہو کہ یہ آب و ہوا انہیں راس نہ آئے۔ یہ سب میرے لیے بڑے کام کے لوگ ہیں اور میں اب تک یہ سوچ کر خوش تھی کہ یہ سب اچھے ہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہیں۔ عبدل نہایت عمدہ انسان ہے، وہ دنیا میں ہر لحاظ سے اتنا اعلی ہے کہ اسے کچھ ہوجائے تو ملکہ خصوصیت کے ساتھ تشویش میں مبتلا ہوتی ہیں۔‘

ایک منشی ہی نہیں، ان کا کوئی بھی ملازم بیمار ہوا تو ملکہ ہمیشہ فکرمند ہوئیں لیکن پہلے جان براؤن اور اب عبدالکریم کی علالت پر ان کا حال زیادہ ہی برا ہو رہا تھا۔۔۔۔منشی عبدالکریم اب وکٹوریا کے لخت جگر بن گئے تھے۔ بوڑھی ملکہ کے نزدیک اب ان سے بڑھ کر کوئی نہیں تھا۔

۔۔۔کہتے ہیں کہ ایک بار منشی حافظ عبدالکریم نے ملکہ سے یہ فرمائش بھی کی کہ انہیں ’نواب کا خطاب دیا جائے۔ منشی کی یہ غالباً واحد فرمائش تھی جسے ملکہ عالیہ ٹال گئیں۔

حافظ صاحب دیکھ رہے تھے کہ بڑھاپا ملکہ کو کسی بھی لمحے دبوچ لے گا۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہوگا کہ ادھر ملکہ کی آنکھ بند ہوئی ادھر ان کا ناطقہ بند ہونا گویا طے ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی روزی روٹی کا بندوبست شروع کیا۔ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ یہ ملکہ کے ذہن کی اختراع تھی یا یہ خیال منشی نے سجھایا کہ انہیں آگرے کے قریب کوئی دولت اگلنے والی زمین دلوادی جائے۔‘
 
بہت ہی اچھے انداز میں لکھی گئی کتاب ہے۔ کیا یہ مکمل ہے یا محض اقتباس ہے؟ اگر اقتباس ہے تو کسی صورت مکمل ہوجائے تو بہت خوب ہوگا۔ جزاک اللہ
 
Top