منصور آفاق
محفلین
امید ِ وصل ہے جس سے وہ یار کیسا ہے
وہ دیکھنا ہے جسے بار بار کیسا ہے
اٹھانیں کیسی ہیں اسکی ، خطوط کیسے ہیں
بدن کا قریہ ء نقش و نگار کیسا ہے
ادائیں کیسی ہیں کھانے کی میز پر اس کی
لباس کیسا ہے اُس کا، سنگھار کیسا ہے
وہ کیسے بال جھٹکتی ہے اپنے چہرے سے
لبوں سے پھوٹتے دن کا نکھار کیسا ہے
وہ شاخیں کیسی ہے دامن کے پھول کیسے ہیں
مقام ِوصل کا قرب و جوار کیسا ہے
وہ پاؤں گھومتے کیسے ہیں اپنی گلیوں میں
طلسمِ شوق کا پھیلا دیار کیسا ہے
سیاہی گرتی ہے دنیا پہ یا سنہرا پن
وہ زلفیں کیسی ہیں وہ آبشار کیسا ہے
طواف کرتا ہے جس کا یہ کعبہ ِاعظم
وہ پاک باز ، تہجد گزار کیسا ہے
یہ کس خیال کی مستی ہے میری آنکھوں میں
شراب پی ہی نہیں ہے ۔۔۔خمار کیسا ہے
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر یہ مجھے انتظار کیسا ہے
یہ اجنبی سی محبت کہاں سے آئی ہے
یونہی جو روح سے نکلا ہے ، پیار کیسا ہے
بس ایک سایہ تعاقب میں دیکھتا ہوں میں
کسی کے ہونے کا یہ اعتبار کیسا ہے
وہ پھول جس کی مہک سے مہک رہا ہوں میں
کھلا ہوا کہیں ، دریا کے پار ،کیسا ہے
وہ جس کی نرم تپش سے دھک رہا ہے دل
وہ آسمان کے پیچھے شرار کیسا ہے
یہ آپ دھول اڑاتی ہے کس لئے منزل
یہ راستے پہ مسلسل غبار کیسا ہے
نواحِ جاں میں فقط چاند کی کرن منصور
بدن میں آگ ہے کیسی ، بخار کیسا ہے
۔۔
وہ پور پورہے کیسی، علاج کیسا ہے
بخار بستہ بدن کا مساج کیسا ہے
مثالِ دانہ ء گندم غذائیں کیسی ہیں
کسی بہشت کا تازہ اناج کیسا ہے
کیا اب بھی ذہن کشادہ ہے آنکھیں روشن ہیں
گزر ہے کیسی بتا ، کام کاج کیسا ہے
عجب جلوس نکالے ہیں دھڑکنیں مجھ میں
یہ تیز ہوتا ہوا احتجاج کیسا ہے
ہمیشگی کیلئے موت کیوں ضروری ہے
اے آسمان یہ تیرا رواج کیسا ہے
مٹھاس بھی ہے نشہ بھی ہے اس کے پہلو میں
شراب و شہد کا وہ امتزاج کیسا ہے
دھمال ڈالنی ماتم کی تال پر ہے مجھے
یہ رسم کیسی ہے غم کی ، رواج کیسا ہے
گلے میں کھوپڑیوں کی قدیم مالا سی
ہر ایک شخص ہے کاہن ، سماج کیسا ہے
نظر سنا نہیں سکتی لہو کی آوازیں
بدن سے پوچھ بدن کا مزاج کیسا ہے
یہ پوچھتی ہے مسافت بھری ہوئی گاڑی
مرے فلیٹ کا خالی گیراج کیسا ہے
گذشتہ شب کی اداسی نکال دے گھر سے
بس اتنا ذہن میں رکھ تیرا آج کیسا ہے
میں رو پڑا ہوں اسے سوچ کر کہاں منصور
یہ بزم ِغیر میں غم کا خراج کیسا ہے
مدیر کی آخری تدوین: