اک ایک سایہ ء ہجراں کے ساتھ پوری کی
پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی
میں ایک کْن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے
ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی
عجیب عالمِ وحشت ، عجیب دانائی
کبھی بکھیرا ، کبھی اپنی ذات پوری کی
تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل
پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی
پلک پلک پہ ستارے رکھے سہاگ کی رات
نہ پوچھ چاند کی کیسے برات پوری کی
کئی برس سے ادھوری پڑی تھی ، سو میں نے
یہ مانگ تانگ کے سانسیں ، حیات پوری کی
یہ اور بات کہ دل میں اتر گیا پھر بھی
کسی سے ملتے ہوئے احتیاط پوری کی
یہ اور بات کہ آنسو ورق ورق پہ رکھے
کتابِ فلسفہ ء انبساط پوری کی
یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی
اْس اجنبی نے مگر واردات پوری کی
ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور
کہا نہ کچھ بھی مگر اس نے بات پوری کی
آفاق صاحب!
غزل کا مجموعی خیال اور آہنگ بہت اثر پذیر ہے تاہم کہیں کہیں خیال قاری پر
واضح یا صاف نہیں ہو شاید، مطلع میں سایۂ ہجراں کی اصطلاح سمجھ نہیں آئی
پہلے مصرع کے 'اک ایک ' سے ذہن کمپلیشن پر رُجوع کرتا ہے دوسرا مصرع کا 'پھرایک ' بہت سی صُورتیں ذہن میں لاتا ہے
دوبارہ ایک رات، یا سب راتیں مُختلف کرنے کے بعد پھر ایک رات دیانت سے پوری کرنا وغیرہ وغیرہ
اگر آپ اسے ذرا قاری کے
فہم کے لئے واضح یا آساں کردیتے تو قبولیت کا محور وسیع ہی ہوتا ، اگر میں کہتا تو کلاسیکل اردو غزل اور فہمِ قاری
کو مدِ نظررکھتے ہوئے کچھ یُوں یا اِس سے ملتا جلتا کہتا کہ
عجیب درد و کراہت کے ساتھ پوری کی
تمھارے ہجر میں آساں نہ رات پوری کی
"کبھی بکھیرا ، کبھی اپنی ذات پوری کی "
یہ میرے خیال میں ذات کی نسبت کی وجہ سے 'کبھی بکھیری کبھی اپنی ذات پوری کی' ہونا چاہیے
یہ اور بات کہ دل میں اُتر گیا پھر بھی
کسی سے مِلتے ہوئے احتیاط پوری کی
یہ اور بات کہ کام آ گئی کوئی نیکی
اْس اجنبی نے مگر واردات پوری کی
ہزار کہہ کے بھی میں کچھ نہ کہہ سکا منصور
کہا نہ کچھ بھی مگر اُس نے بات پوری کی
بالا اشعار بہت ہی خوب ہیں، بہت سی داد قبول کیجئے صاحب
ویسے ہی اپنا خیال لکھ دیا، اتفاق ضروری نہیں ، بہت خوش رہیں