منصور حلاج

Muhammad Qader Ali

محفلین
الحمد للہ
حلاج کا نام حسین بن منصور الحلاج اور کنیت ابومغیث ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کی کنیت ابوعبداللہ تھی ۔
اس نے واسط شہر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ تستر شہر میں پرورش پائ اورصوفیوں کی ایک جماعت کے ساتھ میل جول رکھا جن میں سھل تستری اور جنید اورابوالحسن نوری وغیرہ شامل ہيں ۔
اس نے بہت سے ممالک کے سفر کیے جن میں مکہ ، خراسان شامل ہیں ، اورھندوستان سےجادو کا علم حاصل کیا اوربالآخر بغداد میں رہائش اختیار کی اور وہیں پرقتل ہوا ۔
انڈیا میں جادو سیکھا اوریہ بہت ہی حیلے اوردھوکہ باز تھا ، لوگو ں کو ان کی جہالت کی بنا پربہت سے لوگوں کودھوکہ دیا اورانہیں اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگيا حتی کہ لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا کہ یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا ولی ہے ۔
عام مستشرقین ( وہ کافر جومسلمانوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں ) کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اسے مظلوم سمجھتے ہيں کہ اسے قتل کردیاگیا ، اور اس کا سبب اس کا وہ عیسا‏ئ کلام اورتقریبا انہی کا عقیدہ ہے جس کا اعتقاد رکھتا تھا ، اس کے عقیدہ کا بیان آگے چل کر ذکر کیا جائے گا ۔
بغداد میں اسے زندیق اور کافر ہونے کی بنا پرجس کا اس نے خود بھی اقرار کیا تھا 309 ھ میں قتل کردیا گیا ۔
اوراس وقت کے علماء کرام نے اس کے قتل پراجماع کرلیا تھا کہ اس کے کفافراورزندیق ہونے کی بنا پریہ واجب القتل ہے ۔
اب آپ کے سامنے اس کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھرا :
1 - نبوت کا دعوی :
اس نے نبوت کا دعوی کیا حتی کہ وہ اس سے بھی اوپر چلا گیا اور پھر وہ یہ دعوی کرنے لگا یہ وہ ہی اللہ ہے ، ( نعوذباللہ ) تووہ یہ کہا کرتا کہ میں اللہ ہوں ، اوراس نے اپنی بہو کوحکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کرے تواس نے جواب دیا کہ کیا غیراللہ کوبھی سجدہ کیا جاتا ہے ؟
توحلاج کہنے لگا ایک الہ آسمان میں ہے اورایک الہ زمین میں ۔
2 - حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا یعنی اللہ تعالی اس میں حلول کرگيا ہے تووہ اوراللہ تعالی ایک ہی چیز بن گئے ہیں ، اللہ تعالی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔
اوریہی وہ عقیدہ اوربات ہے جس نے حلاج کومستشرقین نصاری کے ہاں مقبولیت سے نوازا اس لیے کہ اس نے ان کے اس عقیدہ حلول میں ان کی موافقت کی ، وہ بھی تویہی بات کہتےہیں کہ اللہ تعالی عیسی علیہ السلام میں حلول کرگيا ہے ۔
اورحلاج نے بھی اسی لیے لاھوت اورناسوت والی بات کہی ہے جس طرح کہ عیسا‏ئ کہتے ہيں حلاج اپنے اشعار میں کہتا ہے :
پاک ہے وہ جس نے اپنے ناسوت کوروشن لاھوت کے رازسے ظاہرکیا پھر اپنی مخلوق میں کھانے اورپینے والا بن کر ظاہرہوا ۔
جب ابن خفیف رحمہ اللہ تعالی نے یہ اشعاد سنے توکہنے لگے ان اشعار کے قائل پر اللہ تعالی کی لعنت برسے ، توان سے کہا گيا کہ یہ اشعار تو حلاج کے ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر اس کا یہ عقیدہ تھا تووہ کافر ہے ۔ اھ۔
3 - قرآن جیسی کلام بنانے کا دعوی :
حلاج نے ایک قاری کوقرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا توکہنے لگا اس طرح کی کلام تومیں بھی بنا سکتا ہوں ۔
4 - کفریہ اشعار :
اس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے :
اللہ تعالی کے متعلق لوگوں کے بہت سارے عقیدے ہیں ، میں بھی وہ سب عقیدے رکھتا ہوں جو پوری دنیا میں لوگوں نے اپنا رکھے ہیں ۔
یہ اس کی ایک ایسی کلام ہے جس میں اس نے دنیامیں پائے جانے والےگمراہ فرقوں میں پائے جانے والے ہرقسم کے کفر کا اقرار اوراعتراف کیا ہے کہ اس کا بھی وہی کفریہ عقیدہ ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ ایک کلام ہے جس میں تناقض پایا جاتا ہے جسے صریحا عقل بھی تسلیم نہیں کرتی ، تویہ کیس ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں توحید اور شرک کا عقید رکھا جائے یعنی وہ موحد بھی ہواور مشرک بھی ؟
5 - ارکان اورمبادیات اسلام کے مخالف کلام :
حلاج نے ایسی کلام کی جو کہ ارکان اورمبادیات اسلام کوباطل کرکے رکھ دیتی ہے یعنی نماز ، روزہ اورحج اورزکاۃ کوختم کرکے رکھ دے ۔
6 - مرنے کے بعد انبیاء کی روحوں کا مسئلہ :
اس کا کہنا تھا کہ انبیاء کے مرنے کے بعد ان کی روحيں ان کے صحابہ اورشاگردوں کے اجسام میں لوٹادی جاتی ہیں ، وہ کسی کو کہتا کہ تم نوح علیہ السلام اور دوسر ے کو موسی علیہ السلام قرار دیتا اور کسی اور شخص کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
7 - جب اسے قتل کے لیے لیجایا رہا تھا تووہ اپنے دوست واحباب کو کہنے لگا تم اس سے خوف محسوس نہ کرو ، بلاشبہ میں تیس روز بعد تمہارے پاس واپس آجاؤں گا ، اسے قتل کردیا گیا تووہ کبھی بھی واپس نہ آسکا ۔
توان اوراس جیسے دوسرے اقوال کی بنا پراس وقت کےعلماء نےاجماعا اس کے کفراور زندیق ہونے کا فتوی صادر کیا ، اوراسی فتوی کی وجہ سے اسے 309 ھ۔ میں بغداد کے اند قتل کردیا گيا ، اوراس طرح اکثر صوفی بھی اس کی مذمت کرتے اوریہ کہتے ہیں کہ وہ صوفیوں میں سے نہیں ، مذمت کرنے والوں میں جنید ، اور ابوالقاسم شامل ہیں اورابوالقاسم نے انہیں اس رسالۃ جس میں صوفیاء کے اکثر مشائخ کا تذکرہ کیا ہے حلاج کوذکر نہیں کیا ۔
اسے قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں قاضی ابوعمر محمد بن یوسف مالکی رحمہ اللہ تعالی شامل ہیں انہیں کی کوششوں سے مجلس طلب کی گئ اور اس میں اسے قتل کا مستحق قرار دیا گیا ۔
ابن کثير رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھایۃ میں ابوعمرمالکی رحمہ اللہ تعالی کی مدح سرائ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے فیصلے بہت ہی زیادہ درست ہوتے اور انہوں نے ہی حسین بن منصورالحلاج کوقتل کیا ۔ ا ھ۔ دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 11 / 172 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
جس نے بھی حلاج کے ان مقالات جیسا عقیدہ رکھا جن پروہ قتل ہوا تووہ شخص بالاتفاق کافراور مرتد ہے اس لیے کہ حلاج کومسلمانوں نےحلول اوراتحاد وغیرہ کا عقیدہ رکھنے کی بنا پرقتل کیا تھا ۔
جس طرح کہ زندیق اوراتحادی لوگ یہ کہتے ہیں مثلا حلا ج یہ کہتا تھا کہ :: میں اللہ ہوں ، اور اس کا یہ بھی قول ہے : ایک الہ آسمان میں ایک زمین میں ہے ۔
اورحلاج کچھ خارق عادت چیزوں اور جادو کی کئ ایک اقسام کا مالک تھا اوراس کی طرف منسوب کئ ایک جادو کی کتب بھی پائ جاتی ہیں ، تواجمالی طورتوامت مسلمہ میں اس کے اندر کوئ اختلاف نہيں کہ جس نے بھی یہ کہا کہ اللہ تعالی بشرمیں حلول کرجاتا اور اس میں متحد ہوجاتا ہے اوریا یہ کہ انسان الہ ہوسکتا ہے اوریہ معبودوں میں سے ہے تووہ کافر ہے اوراس کا قتل کرنا مباح ہے اوراسی بات پرحلاج کوبھی قتل کیاگیا تھا ۔ اھ۔ دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 2 / 480 ) ۔
اورایک جگہ پرشیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نے یہ کہا ہے کہ :
ہم مسلمان علماء میں سے کسی ایک عالم اورنہ ہی مشائخ میں سے کسی ایک شیخ کوبھی نہیں جانتے جس نے حلاج کا ذکر خیر کیا ہو ، لیکن بعض لوگ اس کے متعلق خاموشی اختیارکرتے ہيں اس لیے کہ انہیں حلاج کے معاملے کا علم ہی نہیں ۔ اھ۔ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 2 / 483 )۔
معلومات میں مزید استفادہ کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کریں :
خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کی : تاریخ بغداد ( 8 / 112- 141 )
ابن جوزي رحمہ اللہ تعالی کی المنتظم ( 13/ 201 -206 ) ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کی سیر اعلام النبلاء ( 14 / 313- 354 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کی البدایۃ والنھايۃ ( 11 / 132- 144 ) ۔
اللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 

نایاب

لائبریرین
مجھے منصور حلاج کے بارے میں معلومات چاہیں۔
کیا اس کا "نعرہِ انا الحق" درست تھا؟
اس کے نعرے اور فلسفے کے بارے میں معلومات چاہیں۔
نایاب صاحب
یوسف ثانی صاحب
مہ جبین آنی

محترم بھائی یہ اک " متنازغہ " شخصیت ہے ۔ منبر و مسجد و علماء ان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جبکہ صوفیاء ان کی موافقت کرتے ہیں ۔
اور ہر دو حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کو اپنی حق گوئی کی مثال ٹھہراتے ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ اک " ملامتی " شخصیت ہیں ۔
جہاں تک اس نعرہ منصور " انا الحق " کی بات ہے ۔ تو اس نعرے کی ہزار تاولات کی جا سکتی ہیں ۔ " انا الحق " ( میں ہی سچ ہوں )
وحدت الوجود و الشہود کے فلسفے کی بنیاد اسی کلمے پر استوار ہوئی ۔ ہو الظاہر ہو الباطن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ نورالسموات والارض کی آیات اس فلسفے کو تقویت دیتی ہیں ۔
علامہ اقبال نے ان کی کتاب " طاسین " کو جاوید نامہ میں استعاراتی طور پر ذکر کیا ہے ۔
حلاج نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس نے خالق و مخلوق کے باہمی "حلول کی بات کبھی نہیں کی۔ نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہو جانے کا اعلان کیا۔ حلاج عبد ہی رہا اور معبود، معبود۔ یہ بات اقبال سمجھ گئے تھے اور "جاوید نامہ" میں سمجھا بھی گئے ہیں۔
حلاج پر جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا اس کے پردے میں الجھی ہوئی سیاسی سازشیں کارفرما تھیں۔ 916 عیسوی میں اپنا تیسرا اور آخری حج کرنے کے بعد جب حلاج بغداد واپس آیا تو ایک طرف عباسی دربار میں خلفشار کی کیفیت تھی اور دوسری طرف اس کے منہہ سے دیوانگی عشق میں عجیب دعائیں نکلتی تھیں، "اپنی امت کے لئے خدا میری موت کو مطعون کر۔" "اے خدا میرے خون کو دین والوں پر حلال کر دے۔"
916 میں اک مخصوص مکتبہ فکر کے بعض راہنماؤں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اب جو عتاب نازل ہوا، اس کی لپیٹ میں حلاج بھی آگیا۔ اس لئے کہ اس کوشش میں اس کے بہت سے مرید بھی شامل تھے۔ حلاج کو گرفتار کر کے بغدادد لایا گیا۔ اس فاقہ زدہ صوفی کو، جس کی پسلیوں پر بس ایک جھلی سی رہ گئی تھی۔ ایک شکنجے میں جکڑ دیا گیا اور یہ شکنجہ بازار کے عین بیچ میں رکھا گیا۔۔۔۔۔۔گلے میں ایک تختی اور اس تختی پر "قرمطی ایجنٹ" لکھا ہوا تھا۔ یہاں نہ تو کوئی تذکرہ انا الحق کا تھا اور نہ حلول و الوہیت کی بات تھی، نہ لاہوت و ناسوت کا حوالہ تھا۔ الزام کی نوعیت سراسر سیاسی تھی۔ مقدمے کی کاروائی کے دوران اس کے صوفیانہ اقوال کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ ۔ اسی طرح حلاج کا سفرِ ہند بھی الزام کا بہانہ بنا۔ ابتدائی کاروائی کے بعد حلاج کو نظر بند کر دیا گیا اور آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک محل کی جیل میں قید رہا۔ اس کے بعد مقدمے کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی، دربار کے تنخواہ دار علماء اور سرکاری قاضی سے فتوٰی لے لیا گیا اور حلاج نے لکڑی کے ٹکڑے کو اپنے لہو سے واقعی سرخ کر دیا۔
تاریخ میں منصور حلاج کے قتل کے فتوٰی پر دستخط کرنے والوں میں جنید بغدادیؒ کا ذکر بھی آتا ہے لیکن ایک محقق یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جنید بغدادیؒ کی وفات بھی اس واقعہ سے 10 سال قبل ہو چکی تھی۔
روایت ہے کہ جب آپ کو دارکے نزدیک لے گئے تو اول آپ نے دار کو بوسہ دیا۔ پھر سیڑھی پر قدم رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ اس کے بعد قبلہ کی طرف منہ کر کے کچھ کہا۔ اس کے بعد مریدوں نے کہا کہ ہمارے متعلق کیا حکم ہے اور منکروں کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ منکروں کو دو ثواب ہوں گے اور تم کو ایک کیونکہ تم لوگ میرے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہو اور منکر لوگ توحید اور شریعت کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہیں اور شرع میں توحید اصل اور حسنِ ظن فرع ہے۔ اس کے بعد ہر شخص نے آپ کو پتھر مارنے شروع کر دیے۔ شبلیؒ نے بھی آپ کو ایک پھول مارا جس پر آپ نے آہ کی۔ لوگوں نے پوچھا کی یہ کیوں۔ آپ نے کہا کہ وہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ معذور ہیں مگر شبلیؒ جانتے ہیں اس لئے ان کا پھول مجھ پر گراں گزرا۔
اس کے بعد آپ کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گیے اور آنکھیں نکال دی گئیں۔ اس کے بعد آپ کی زبان کو کاٹنا چاہا مگر آپ نے فرمایا ذرا صبر کرو پھر یہ کہا کہ الہٰی یہ محض تیرے لئے مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ تو آپ فضل و کرم سے ان کو محروم نہ رکھ۔ کیونکہ انہوں نے شریعت کی خاطر مجھے تکلیف دی ہے۔
جب آپ کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں لوگوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا اور اس میں سے بھی "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر آپ کی راکھ کو دجلہ میں ڈال دیا گیا اور راکھ کے ڈالتے ہی دجلہ کے پانی میں سے بھی "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں اور دریا جوش مارنے لگا۔
آپ نے پہلے ہی اپنے خادم کو نصیحت کر دی تھی کہ جب یہ حالت ہو تو میرا خرقہ دریا کی طرف کر دینا۔ چنانچہ خادم نے آپ کا خرقہ دریا کی جانب کر دیا اور جس کو دیکھتے ہی دریا کا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور پانی اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔
اس سب کے باوجود ایک غیر جانبدار محقق کے لئے منصور حلاج کے متعلق کسی حتمی رائے پر پہنچنا امرِ محال ہے۔ کیونکہ تاریخ میں منصور حلاج کی شخصیت ایک افسانوی روپ اختیار کر چکی ہے اور مخالفین اور حمایت کرنے والوں نے آپ کی شخصیت کو عجیب شاعرانہ استعراتی و تمثیلی لباس سے مزین کر دیا ہے جس کی وجہ سے حقیقی تاریخی واقعات تک پہنچنا امرِ محال ہو چکا ہے۔
"اگر منصور حلاج اہلِ حق میں سے ہیں تو ہمارے مردود کہنے سے اللہ کے ہاں وہ مردود نہ ہو جائیں گے اور اگر وہ اللہ کے ہاں اہلِ باطل میں سے ہیں تو ہمارے اہلِ حق کہنے سے اللہ کے ہاں اہلِ حق نہ ہو جائیں گے۔"
صحیح راہ یہی ہے کہ منصور حلاج کے بارے میں توقف سے کام لیا جائے۔
اور بے شک اللہ ہی سچا سمیع العلیم ہے ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
علامہ اقبال نے ان کی کتاب " طاسین " کو جاوید نامہ میں استعاراتی طور پر ذکر کیا ہے ۔
حلاج نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس نے خالق و مخلوق کے باہمی "حلول کی بات کبھی نہیں کی۔ نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہو جانے کا اعلان کیا۔ حلاج عبد ہی رہا اور معبود، معبود۔ یہ بات اقبال سمجھ گئے تھے اور "جاوید نامہ" میں سمجھا بھی گئے ہیں۔

مختصرن یہ کہ کیا علامہ اقبال منصور حلاج کو درست سمجھتے تھے؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
عقیدۂ حلول

عقیدۂ حلول ۔۔۔ وہ باطل نظریہ ہے جس کے مطابق :
انسان اپنے آئینۂ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔

خدا کا کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاریٰ میں بھی پایا جاتا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ
اردو ترجمہ : طاہر القادری
اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں
( سورة التوبة : 9 ، آیت : 31 )

ایک دوسرے مقام پر قرآن ، اس عقیدہ کی مزید وضاحت یوں کرتا ہے:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ
اردو ترجمہ : طاہر القادری
درحقیقت ایسے لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ ہی مسیح ابنِ مریم (علیہما السلام) ہے
( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 72 )

اسلام میں "عقیدۂ حلول" کی داغ بیل عبداللہ بن سبا یہودی نے ڈالی تھی۔ قرون اولیٰ میں یہودیوں کو جو ذلت نصیب ہوئی اس کا انتقام لینے کے لیے عبداللہ بن سبا منافقانہ طور پر مسلمان ہوا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی سکت اب یہودیوں میں باقی نہیں رہ گئی ہے ، لہذا مسلمانوں کے عقائد میں تفرقہ کے بیج بو کر اس نے تشتت و انتشار پیدا کر دیا۔

عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ حلول ، اس کے پیروکاروں نصیریہ ، کیسانیہ ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیا کے اندر داخل ہو گیا !

حسین بن منصور حلاج

حسین بن منصور حلاج (م:309ھ) اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ہر چند کہ ان سے پہلے بھی ایسے صوفیاء گزرے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے تھے مگر اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے۔
اس عقیدہ کو شہرتِ دوام حلاج سے ہی ہوئی۔
منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے !!

منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
جبکہ اسے یہ بھی خوب معلوم تھا کہ اس کا یہ عقیدہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ کے سراسر خلاف ہے۔ اس سلسلے میں اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :

عَقَدَ الخلائقُ في الإلهِ عقائدا
وانا اعتقدت جميع ما اعتقدوة
الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔

كفرت بدين الله والكفر واجب
لديّ وعند المسلمين قبيح
میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔
ديوان الحلاج:ص(34)

حسین بن منصور نے اپنے متعلق دین سے ارتداد اور کفر کا فتویٰ تو خود ہی لگا دیا۔ سمجھانے کے باوجود بھی جب وہ اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کر دیا۔ اور اس "خدا" کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔

حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :
مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟
حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔
یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔

اتنے شدید جرم کے باوجود صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کے حق پر ہونے اور حلاج کو سزا دینے والوں کے باطل پر ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ذیل میں ان صوفیاء کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔

حلاج کے کفر کی نفی

حضرت علی ہجویری
انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔
بحوالہ:
کشف المحجوب ، ص:300

مولانا روم
گفت فرعونے اناالحق گشت پست
گفت منصورے اناالحق گشت مست
لعنة اللہ ایں انارا درقفا
رحمة اللہ ایں انارا درقفا
اردو ترجمہ : عبدالرحمٰن کیلانی
فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔
بحوالہ :
مثنوی روم

خواجہ نظام الدین اولیاء ، دہلی
خواجہ نظام الدین اولیاء (م:725ھ) حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا :
ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
بحوالہ :
فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471

احمد رضا خان فاضل بریلوی
فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :
حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب :
" ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ' انی انا اللہ' میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"
بحوالہ :
احکام شریعت ، ص:93

حلاج کے کفر کا اثبات

حلاج کے متعلق اب دوسرا رُخ ملاحظہ فرمائیں جس سے حلاج کے کفر کی وضاحت ہوتی ہے۔
امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہم اللہ دونوں نے صاف لکھا ہے کہ :
وہ کافر تھا اور اس کے متعلق علماء کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔

امام ابن تیمیہ
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حلاج فنا میں ڈوب گیا اور باطنی حقیقت سے معذور تھا، مگر ظاہری طور پر اس کا قتل واجب تھا اور کچھ دوسرے اسے شہید ، فنا فی اللہ ، موحد اور محقق کہتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔
آگے چل کر امام ابن تیمیہ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں:
حلاج اپنے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا ، وہ قرآن کا معارضہ کرتا تھا ، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کسی کا حج فوت ہو جائے تو اپنے ہاں کعبہ بنا کر اس کا طواف کر سکتا ہے اور حج کے سوا تمام رسوم ادا کر سکتا ہے اور حج پر جتنی رقم خرچ ہو سکتی ہو اس کو صدقہ دے سکتا ہے۔
امام محترم مزید لکھتے ہیں :
جنید (بغدادی) ، عمرو بن عثمان مکی اور ابو یعقوب (رحمہم اللہ) جیسے جلیل القدر مشائخ نے حلاج کی مذمت کی ہے۔ اگر کوئی شخص حلاج کے متعلق حسنِ ظن رکھتا ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اصل حالات سے آگاہ نہیں ہے۔
بحوالہ :
مجموعہ الرسائل الکبریٰ ، ج:2 ، ص:97 تا 99
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت حلاج کے کفر کا اثبات
سید سلیمان ندوی
اقتباسات از مضمون: حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت
حسین بن منصور حلاج ایران میں پیدا ہوئے۔ ان کا دادا پارسی تھا۔ باپ مسلمان ہوا۔ آبائی وطن شہر بیضا ہے۔ حسین نے بصرہ اور کوفہ کے درمیان واقع علاقہ "واسط" میں نشو و نما پائی۔ اس کی آمد و رفت بغداد میں بھی ثابت ہے۔ سن ولادت معلوم نہیں۔ 310ھ میں بغداد میں قتل ہوا۔

تاریخ کی کتب اس امر پر متفق ہیں کہ حلاج ، نیرنگ ، شعبدہ بازی اور ہاتھوں کے کھیل میں بہت چالاک اور مشاق تھا۔ روپے برسا دیتا تھا ، طرح طرح کے میوے منگواتا ، ہوا میں اڑاتا اور اس کے علاوہ بھی کئی عجائبات دکھلاتا تھا۔
اس کے ایک ہمسفر کا بیان ہے کہ حسین اس کے ساتھ صرف اس غرض سے ہندوستان آیا تھا کہ یہاں کی مشہور شعبدہ بازیوں کی تعلیم حاصل کرے۔ چنانچہ اس نے میرے سامنے ایک عورت سے رسی پر چڑھ کر غائب ہو جانے کا فن سیکھا۔ راہ میں گڑھے کھود کر کہیں پانی ، کہیں میوہ ، کہیں کھانا پہلے سے چھپا دیتا۔ پھر اپنے ہمراہیوں کو لے کر اسی سمت میں سفر کرتا اور بوقتِ ضرورت کرامتوں کے تماشے دکھاتا۔

سید سلیمان ندوی نے ابن سعد قرطبی ، بغداد کے مشہور سیاح ابن موقل ، مورخ ابن ندیم ، ابو علی بن مسکویہ ، مسعودی ، علامہ ابن جوزی ، ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک شعبدہ باز اور گمراہ شخص تھا۔
چنانچہ ابن ندیم کے حوالے سے ، جو صرف ایک واسطہ سے روایت کرتا ہے ، لکھتے ہیں کہ :
(اردو ترجمہ)
حسین بن منصور حلاج ایک حیلہ گر اور شعبدہ باز آدمی تھا۔ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے صوفیوں کے طریقے اختیار کر لیے تھے۔ صوفیوں کی طرح باتیں کرتا اور علم کے جاننے کا دعویدار تھا ، حالانکہ وہ اس سے خالی تھا۔ البتہ علم کیمیا میں اسے کچھ مہارت ضرور تھی۔ جب اپنے مریدوں کے پاس ہوتا ، تو خدائی کا دعویٰ کرتا اور کہتا کہ : خدا مجھ میں حلول کر گیا ہے۔
اور جب سلاطین کے پاس جاتا تو کہتا میں شیعہ مذہب کا آدمی ہوں اور عوام سے کہتا کہ میں ایک صوفی ہوں۔
البتہ یہ بات سب سے کہتا کہ خدا نے مجھ میں حلول کیا ہے اور میں بالکل خدا ہی ہوں۔

پھر سید سلیمان ندوی ابن اثیر کی عبارت درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
(اردو ترجمہ)
حسین بن منصور کے قتل کا سبب یہ ہے کہ :
حلاج جب واپس بغداد آیا ، تو کسی نے وزیر حامد بن عباس کو اطلاع دی کہ حلاج کہتا ہے کہ میں نے بہت سے لوگوں کو زندہ کیا ہے اور میں مُردوں کو زندہ کر سکتا ہوں اور بہت سے جنات میرے تابع ہیں اور میں جو چاہوں میرے پاس لا کر حاضر کر دیتے ہیں۔ نیز یہ کہ بہت سے اہل کار میرے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ نصر حاجب سرکاری دفاتر کا نگران بھی میری طرف مائل ہو گیا ہے اور اس کے علاوہ کئی بڑے بڑے لوگ حلقہ بگوش ہو گئے ہیں۔
یہ سن کر وزیر حامد بن عباس نے خلیفہ سے درخواست کی کہ حلاج کا معاملہ اس کے سپرد کر دیا جائے لیکن نصر حاجب آڑے آیا۔ جب وزیر نے اصرار کیا تو خلیفہ مقتدر باللہ نے منصور اور اس کے چیلوں کا معاملہ حامد بن عباس کے سپرد کر دیا۔

حامد بن عباس نے علماء سے اس کے قتل کا فتویٰ طلب کیا تو علماء اور فقہاء نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ثبوت کافی نہیں۔
پھر حامد نے علماء کے سامنے حلاج کی ایک کتاب پیش کی ، جس میں لکھا تھا کہ :
"اگر کوئی شخص حج نہ کر سکے تو ایک صاف ستھری کوٹھی کو لیپ پوت کر حج کے ارکان اس کے سامنے ادا کرے۔ پھر تین یتیموں کو بلوا کر انہیں عمدہ کھانا کھلائے ، عمدہ کپڑے پہنائے اور سات سات درہم ان کے حوالے کر دے ، تو اس کو حج کا ثواب مل جائے گا۔"
حامد بن عباس نے جب یہ فقرے قاضی القضاة کو سنائے تو اس نے حلاج سے پوچھا کہ : اس کا ماخذ کیا ہے؟
حلاج نے حسن بصری رحمة اللہ علیہ کی کتاب "الاخلاص ، کتاب السنة" کا حوالہ دیا۔
حلاج کی یہ کذب بیانی سن کر قاضی القضاة غضب ناک ہو گیا کیونکہ مذکورہ کتاب وہ پڑھ چکا تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔
بالاخر قاضی القضاة نے لکھ دیا کہ ایسے شخص کا خون حلال ہے۔
اس تحریر پر اور بھی کئی علماء نے دستخط کر دئے۔
چنانچہ حلاج ارتداد اور زندقہ کی سزا میں پہلے قتل کیا گیا ، پھر جلایا گیا اور اس کی راکھ کر دریا بُرد کر دیا گیا۔
اس کے مرنے کے بعد اس کے پیروؤں نے وہی بات مشہور کر دی جو ہر ناکام مدعی کے پیروکار کرتے ہیں ۔۔۔ یعنی : وہ مرا نہیں بلکہ زندہ ہے اور پھر لوٹ کر آئے گا۔
مگر افسوس کہ وہ آج تک واپس نہ آ سکا !!
بحوالہ :
رسالہ "معارف" ، ج:2 ، شمارہ:4 ، مضمون: حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
من تو شدم- تو من شدی
من جان شدم- تو تن شدی
تاکس نہ گوید بعد ازین
من ویگرم تو دیگری

ترجمہ:
میں تو ہوگیا- تو میں ہوگیا
میں جان ہوگیا- تو جسم ہوگیا
تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے
میں کچھ اور ہوں تو کچھ اور ہے
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
بہت زبردست بات چیت چل رہی ہے
ڈاکٹر بلال فلپس نے ھارون یحیی کے عقیدے سے بچنے کے لئے کہا ہے
کافی اچھائی کے بعد آخر میں یہ کہتا ہوا پایا گیا جو اوپر حلاج کہا کرتا تھا
یعنی حلول کا عقیدہ

اکثر مسلمان اور دیگر لوگوں کے دل میں گمان ہوتا ہے
مسلمان کواللہ تعالی کے متعلق کیسا خیال کرنا چاہئے ؟


الحمد للہ
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ اللہ تعالی کی مثل کوئ نہیں اوروہ سننے والا دیکھنے والا ہے } تو اس اللہ تعالی کی نہ تو کوئ مثل ہے اورنہ ہی کوئ شبیہ ہے اورنہ ہی اس کا کوئ ہمسر اورنہ شریک ہے ۔ اور وہ اللہ عزوجل مخلوق کی مماثلت سے منزہ اورپاک ہے ، تو اللہ تعالی کے متعلق ابن آدم کے ذہن میں جو بھی آتا ہے وہ اس سے بھی اعظم اور بڑھ کر ہے ، اورمخلوق کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ جل وعلا کا احاطہ کرسکے اوراس کی صورت کا خیال بھی ذہن میں لا سکے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورمخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہوسکتا }
اورپھراصل میں مسلمان تواس کا مکلف ہی نہیں کہ وہ اللہ تبارک وتعالی کا تخیل لائے اوریا اس کا تصورکرے ، بلکہ اس پر واجب تویہ ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی کی صفات علی اس طرح ہیں جس طرح کہ اس کی عظمت و جلال کےشایان شان اوراس کے لائق ہیں ان صفات میں اس کی کوئ مماثلت نہیں کرسکتا ۔
اور مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی کو نہیں دیکھا جا سکتا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
{ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں } بلکہ اللہ تعالی کومومن لوگ آخرت میں میدان محشرکے اندر اوراسی طرح جنت میں بھی دیکھیں گے ۔
حدیث میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ کیا آپ نے اپنے رب کودیکھا ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے نور دیکھا ، اوردوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نور کوکیسے دیکھ سکتاہوں ۔ صحیح مسلم ۔
اوریہ اللہ تعالی کے اس قول کے موافق ہے جوکہ موسی علیہ السلام کو کہا تھا اور اس کا ذکر سورۃ اعراف میں موجود ہے { لن ترانی } تومجھے نہیں دیکھ سکتا " یعنی دنیا میں نہیں دیکھ سکتا ۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے علاوہ کسی نے بھی اللہ تعالی کواپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ، توجب روزقیامت میدان محشر میں مومن لوگ اللہ تعالی کودیکھیں گے تو اللہ تعالی کی عظمت وجلال کی وجہ سے سجدہ میں گر پڑیں گے ، اور اسی طرح جنت میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت اللہ تعالی کا دیدار ہوگا جو کہ اہل جنت کو مطلقا عطا کی جائے گی ۔
تواس لئے اللہ تعالی کو ان اسماء اور صفات سے پہچانیں جن کی خبر اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ، اوراپنے آپ کو اس چیز کی طرف نہ لے جائيں جس کے آّّپ مکلف ہی نہیں اور جس کی آپ میں طاقت نہیں ، اور وہ کام کریں جن کا اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے ، اور آپ شیطانی وسوسوں کوچھوڑ دیں اللہ تعالی آپ کو وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس میں اس کی رضاہو ۔ آمین

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 

نور وجدان

لائبریرین
جب آپ کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں لوگوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا اور اس میں سے بھی "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر آپ کی راکھ کو دجلہ میں ڈال دیا گیا اور راکھ کے ڈالتے ہی دجلہ کے پانی میں سے بھی "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں اور دریا جوش مارنے لگا۔

ایسا میں نے پڑھا تھا مگر اس کو پڑھ کر عجب سی کیفیت ہوئی ۔۔ کبھی کبھی عشق بھی مغالبہ ہوجاتا کہ عشق ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے جس کو ہوجائے تو وہ مرجائے اور مٹ جائے اور نقش معشوق کی تصویر کر جائے ۔۔۔ کچھ جناب ابوبکر شبلی رح کے بارے میں سنا تھا وہ راتوں کو جاگا کرتے تھے اور جاگنے کے لیے نمک آنکھوں میں ڈالا کرتے تھے ۔۔ اور زندگی میں رات جاگ جاگ کر عبادت میں مشغول رہ کر گزار دی ۔۔۔مذہب تو عشق ہے سچا باقی سب فسانے و فریب ۔۔۔ بابا فرید بھی اسی طرح کی بات کرتے ہیں اپنی شاعری میں کہ مالک جاگ رہا ہے اور تم سو رہے ہو ۔۔یہ کہاں کا رواج ہے ۔۔۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ عشق کی معراج کیا ہوگی ۔۔۔؟ عشق کی ابتدا کہاں سے ہوگی ؟ اقبال نے کہ دیا عشق کی انتہا تو کوئی نہیں ! انتہا نہیں تو ابتدا نہیں یعنی ایک دفعہ دائرہ عشق میں داخل ہوجاؤ تو سمندر ہی سمندر جس کی گہرائی ایک سی ہے ؟؟؟
 
گو کہ میں اسے ایک دیو مالائی قصے سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ لیکن ایک دو نکات ایسے ہیں جنہیں ذکر کرنا چاہیے۔
مجھے سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ جو لوگ یہ بات مان سکتے ہیں کہ خدا درختوں اور پہاڑوں میں سے ہم کلام ہوا یا ہوسکتا ہے انہیں اس بات میں کیوں اعتراض ہے کہ خدا انسان میں سے ہمکلام ہوسکتا ہے؟
کیا یہ بات ناممکنات میں سے ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ منصور حلاج نامی کسی شخصیت کا کوئی وجود بھی تھا یا نہیں، ابھی تو یہی بات کسی مستند شواہد کی بنیاد پر نہیں کہی جاسکتی۔
پھر منصور اور جنید بغدادی سے ملحق جو قصے اور کہانیاں موجود ہیں ان میں بھی زمین و آسمان کے ایسے قلابے ملائے گئے ہیں کہ اگر منصور حلاج اصلی میں بھی کوئی شخص ہوتا تو وہ اس کا وجود جھوٹ ہو جاتا۔
حیرت تو ہمیں ان لوگوں پر ہے جو اس متنازع الوجود شخص کے حق یا باطل ہونے پر لڑتے ہیں۔ :) :) :) :)
 

نایاب

لائبریرین
مذہب تو عشق ہے سچا باقی سب فسانے و فریب
مذاہب تو اولاد آدم کو تہذیب سکھانے کا ذریعہ ہیں ۔
اور یہ تہذیب سکھانے بارے تمام اصول جن منتخب بندوں سے اولاد آدم تک پہنچے ۔
جس باعث وہ محبوب ٹھہرے اور پیغامبر کہلائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان کا عشق تھا " خالق سے نہیں بلکہ مخلوق " کی بھلائی سے
بہت دعائیں
 
Top