مجھے منصور حلاج کے بارے میں معلومات چاہیں۔
کیا اس کا "نعرہِ انا الحق" درست تھا؟
اس کے نعرے اور فلسفے کے بارے میں معلومات چاہیں۔
نایاب صاحب
یوسف ثانی صاحب
مہ جبین آنی
محترم بھائی یہ اک " متنازغہ " شخصیت ہے ۔ منبر و مسجد و علماء ان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جبکہ صوفیاء ان کی موافقت کرتے ہیں ۔
اور ہر دو حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کو اپنی حق گوئی کی مثال ٹھہراتے ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ اک " ملامتی " شخصیت ہیں ۔
جہاں تک اس نعرہ منصور " انا الحق " کی بات ہے ۔ تو اس نعرے کی ہزار تاولات کی جا سکتی ہیں ۔ " انا الحق " ( میں ہی سچ ہوں )
وحدت الوجود و الشہود کے فلسفے کی بنیاد اسی کلمے پر استوار ہوئی ۔ ہو الظاہر ہو الباطن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ نورالسموات والارض کی آیات اس فلسفے کو تقویت دیتی ہیں ۔
علامہ اقبال نے ان کی کتاب " طاسین " کو جاوید نامہ میں استعاراتی طور پر ذکر کیا ہے ۔
حلاج نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس نے خالق و مخلوق کے باہمی "حلول کی بات کبھی نہیں کی۔ نہ اپنی ذات کے خدا میں گم ہو جانے کا اعلان کیا۔ حلاج عبد ہی رہا اور معبود، معبود۔ یہ بات اقبال سمجھ گئے تھے اور "جاوید نامہ" میں سمجھا بھی گئے ہیں۔
حلاج پر جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا اس کے پردے میں الجھی ہوئی سیاسی سازشیں کارفرما تھیں۔ 916 عیسوی میں اپنا تیسرا اور آخری حج کرنے کے بعد جب حلاج بغداد واپس آیا تو ایک طرف عباسی دربار میں خلفشار کی کیفیت تھی اور دوسری طرف اس کے منہہ سے دیوانگی عشق میں عجیب دعائیں نکلتی تھیں، "اپنی امت کے لئے خدا میری موت کو مطعون کر۔" "اے خدا میرے خون کو دین والوں پر حلال کر دے۔"
916 میں اک مخصوص مکتبہ فکر کے بعض راہنماؤں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اب جو عتاب نازل ہوا، اس کی لپیٹ میں حلاج بھی آگیا۔ اس لئے کہ اس کوشش میں اس کے بہت سے مرید بھی شامل تھے۔ حلاج کو گرفتار کر کے بغدادد لایا گیا۔ اس فاقہ زدہ صوفی کو، جس کی پسلیوں پر بس ایک جھلی سی رہ گئی تھی۔ ایک شکنجے میں جکڑ دیا گیا اور یہ شکنجہ بازار کے عین بیچ میں رکھا گیا۔۔۔۔۔۔گلے میں ایک تختی اور اس تختی پر "قرمطی ایجنٹ" لکھا ہوا تھا۔ یہاں نہ تو کوئی تذکرہ انا الحق کا تھا اور نہ حلول و الوہیت کی بات تھی، نہ لاہوت و ناسوت کا حوالہ تھا۔ الزام کی نوعیت سراسر سیاسی تھی۔ مقدمے کی کاروائی کے دوران اس کے صوفیانہ اقوال کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ ۔ اسی طرح حلاج کا سفرِ ہند بھی الزام کا بہانہ بنا۔ ابتدائی کاروائی کے بعد حلاج کو نظر بند کر دیا گیا اور آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک محل کی جیل میں قید رہا۔ اس کے بعد مقدمے کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی، دربار کے تنخواہ دار علماء اور سرکاری قاضی سے فتوٰی لے لیا گیا اور حلاج نے لکڑی کے ٹکڑے کو اپنے لہو سے واقعی سرخ کر دیا۔
تاریخ میں منصور حلاج کے قتل کے فتوٰی پر دستخط کرنے والوں میں جنید بغدادیؒ کا ذکر بھی آتا ہے لیکن ایک محقق یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جنید بغدادیؒ کی وفات بھی اس واقعہ سے 10 سال قبل ہو چکی تھی۔
روایت ہے کہ جب آپ کو دارکے نزدیک لے گئے تو اول آپ نے دار کو بوسہ دیا۔ پھر سیڑھی پر قدم رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ اس کے بعد قبلہ کی طرف منہ کر کے کچھ کہا۔ اس کے بعد مریدوں نے کہا کہ ہمارے متعلق کیا حکم ہے اور منکروں کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ منکروں کو دو ثواب ہوں گے اور تم کو ایک کیونکہ تم لوگ میرے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہو اور منکر لوگ توحید اور شریعت کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہیں اور شرع میں توحید اصل اور حسنِ ظن فرع ہے۔ اس کے بعد ہر شخص نے آپ کو پتھر مارنے شروع کر دیے۔ شبلیؒ نے بھی آپ کو ایک پھول مارا جس پر آپ نے آہ کی۔ لوگوں نے پوچھا کی یہ کیوں۔ آپ نے کہا کہ وہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ معذور ہیں مگر شبلیؒ جانتے ہیں اس لئے ان کا پھول مجھ پر گراں گزرا۔
اس کے بعد آپ کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گیے اور آنکھیں نکال دی گئیں۔ اس کے بعد آپ کی زبان کو کاٹنا چاہا مگر آپ نے فرمایا ذرا صبر کرو پھر یہ کہا کہ الہٰی یہ محض تیرے لئے مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ تو آپ فضل و کرم سے ان کو محروم نہ رکھ۔ کیونکہ انہوں نے شریعت کی خاطر مجھے تکلیف دی ہے۔
جب آپ کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں لوگوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا اور اس میں سے بھی "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں۔ آخر آپ کی راکھ کو دجلہ میں ڈال دیا گیا اور راکھ کے ڈالتے ہی دجلہ کے پانی میں سے بھی "انا الحق" کی آوازیں آنے لگیں اور دریا جوش مارنے لگا۔
آپ نے پہلے ہی اپنے خادم کو نصیحت کر دی تھی کہ جب یہ حالت ہو تو میرا خرقہ دریا کی طرف کر دینا۔ چنانچہ خادم نے آپ کا خرقہ دریا کی جانب کر دیا اور جس کو دیکھتے ہی دریا کا جوش ٹھنڈا ہو گیا اور پانی اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔
اس سب کے باوجود ایک غیر جانبدار محقق کے لئے منصور حلاج کے متعلق کسی حتمی رائے پر پہنچنا امرِ محال ہے۔ کیونکہ تاریخ میں منصور حلاج کی شخصیت ایک افسانوی روپ اختیار کر چکی ہے اور مخالفین اور حمایت کرنے والوں نے آپ کی شخصیت کو عجیب شاعرانہ استعراتی و تمثیلی لباس سے مزین کر دیا ہے جس کی وجہ سے حقیقی تاریخی واقعات تک پہنچنا امرِ محال ہو چکا ہے۔
"اگر منصور حلاج اہلِ حق میں سے ہیں تو ہمارے مردود کہنے سے اللہ کے ہاں وہ مردود نہ ہو جائیں گے اور اگر وہ اللہ کے ہاں اہلِ باطل میں سے ہیں تو ہمارے اہلِ حق کہنے سے اللہ کے ہاں اہلِ حق نہ ہو جائیں گے۔"
صحیح راہ یہی ہے کہ منصور حلاج کے بارے میں توقف سے کام لیا جائے۔
اور بے شک اللہ ہی سچا سمیع العلیم ہے ۔