فاخر
محفلین
منصور ہند :صوفی سرمد شہید
منصور ہند :صوفی سرمد شہید (قسط اول)
افتخاررحمانی ، نئی دہلی
سرمدؔ غمِ عشق بولہوس را نہ دہند
سوزِ غمِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند
آج (کل) جامع مسجد دہلی جانا ہوا وہی جامع مسجدجوتاریخ میں مسجد شاہجانی کے نام سے مشہور ہے ؛لیکن اب اس نے جامع مسجد دہلی کا نام اختیار کرلیا ہے۔اتوارکادن تھا اس لیے سوچا اسی بہانے میں دہلی کی سیر سپاٹا کرلیا جائے ۔ دن بھر گوشۂ تنہائی میں پڑے پڑے جی اکتانے سا لگتا ہے۔اسی بہانے گھومتے گھامتے دہلی کی جامع مسجدنکل آیا ۔ پتہ نہیں کیوں یہ میری فطرت ہے یا پھر قدامت پسندی کہ پوری دہلی میں مجھے صرف اور صرف دہلی کی جامع مسجد ہی اچھی لگتی ہے اورسونے پہ سہاگہ اس وقت ہوتا ہے جب عین جامع مسجد کی سیڑھیوںپر کھڑا ہوکر لال قلعہ کا نظارہ کیا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات جامع مسجد کی جلو میں سمٹ آئی ہوئی ہو۔ دیوان حافظ ؔ کے مطالعہ کا بھی اشتیاق تھا،انٹر نیٹ پر پی ڈی ایف فائل مل تو جاتی ہے،لیکن کتاب کتاب ہوتی ہے۔ اس لیے وقت خالی دیکھتے ہی صبح سویرے جامع مسجد نکل پڑا۔میری پہلی پسند دیوان حافظ تھا جو اردو بازار متصل جامع مسجد میں مل سکتی تھی ۔ جب کتب خانہ میں جاکر ’’دیوان حافظ ‘‘کا نام لیا تو ناظم کتب خانہ نے اوپر سے نیچے تک تین مرتبہ مشکوک نظروں سے دیکھ کر بداعتمادی سے پوچھا :’’میاں صاحب زادے آپ کی عمر کیا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’ کہ وہی بیس بائیس سال ‘‘۔ میرے اس جواب سے ناظم کتب خانہ سوچ میں پڑگیا ؛لیکن وہ شخص بھی گھاگ قسم کا بندہ تھا،جھٹ سے سوال پوچھ لیا کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ اس کا سوال تحقیر آمیز تھا۔’’ عشق فرماتا ہوں،اس لیے دیوان حافظ لینے آیا ہوں ‘‘میرا سپاٹ سا جواب تھا ۔ناظم کتب خانہ نے سمجھ لیا کہ یہ مذاق کر رہا ہے تو ازراہ مذاق حافظ ؔ کے کسی شعر سنانے کی فرمائش بھی کرڈالی ۔ میں نے ’ذہن پر تھوڑا زور ڈالتے ہوئے حافظ کی غزل مع مطلع پڑھی ؎
اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
بدہ ساقی می باقی کہ در جنت نخوا ہی یافت
کنار آب رکن آباد و گلگشت مصلا را‘
اتنا پڑھا ہی تھا کہ ناظم کتب خانہ اچھل پڑا ۔ کہنے لگا کہ چہرے مہرے سے لگتے ہو نہیں خیر ! لے جاؤ میرے کتب خانہ میں دستیاب ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کوئی ناظم کتب خانہ یوں ذکی الحس ، ہنس مکھ اور ظریف الطبع نہیں ہوا کرتا ہے ،تاہم بیچارے ناظم کتب خانہ میں ایسی خصلت تھی کہ وہ ہر کس و ناکس کو اپنی باتوں میں الجھا دیتا تھا ، گھنٹوں تفریح کرتا اور علمی مباحثہ میں بھی مشغول رہتا ۔ بعد میں جب میں نے کہا کہ میں دیوبند کا سابق طالب علم ہوں اور ابھی چند سال قبل فراغت ہوئی ہے، تو اس کے چہرے پر سنجیدگی آئی ۔ خیر دیوان حافظ بغل میں دبائے جامع مسجد چلا آیا۔ جامع مسجد کی اپنی ہیئت اور جلال ہے ، گویا نورو جلال کا امتزاجی نزول ہر گھڑی ہوتا رہتا ہے جو کہ دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔
آمدم برسر مطلب ! سناتھا اور پڑھا بھی تھا کہ جامع مسجد سے متصل منصور ہند صوفی سرمد کی قبر ہے جن کاسر حضرت اورنگ زیبؒ نے ’’اناالحق ‘‘ کی صدا کے جرم میں قلم کروایا تھا ۔تاریخی حوالہ جات میں جس طرح ان کا ذکر ملتا ہے وہ حقیقت کم افسانوی صورت کچھ زیادہ ہی اختیار کرگیا ہے اس پر مستزاد یہ کہ واقعہ نگاروں نے اپنی طرف سے اس میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ۔جس کی وجہ سے اصل حقائق گم ہوکر رہ گئے ۔ میں ازراہ محبت عشق کی اس لامثال نشانی کو دور سے ہی دیکھتا رہا ؛کیوں کہ اپنی تعلیم و پرورش کی وجہ سے چاہ کر بھی قریب نہ جاسکا ( ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ ان جیسے صوفیا کہ جن کی قبروں پر نام نہاد مکار مولوی نما لوگوں نے قبضہ جما کر ہندؤں اور مشرکوں کی طرح ، ان کی قبر کو سجدہ گا ہ بنالیا ہے ، ان کی سوانح حیات ، ملفوظات میرے مطالعہ میں رہا کرتے ہیں ۔ میں خود حضرت نظام الدین اولیاء کا دل سے قدرداں اور ان کی عظمت کا قائل ہوں ؛لیکن ان کے مزار ہونے والی خرافات کا سخت مخالف بھی ہوں) یوں بھی سرمدؔ کو سرمدی زندگی ملی تھی ، وہ جو بھی ہوں ؛لیکن اس کے پس پردہ عشق کی شورش اور افتادکی گرانی کار فرما تھی، جس کی وجہ سے وہ مرکے بھی جاوداں ہوگئے اورگیتی ٔ عشق میں ان کی حکمرانی اب بھی قائم ہے ۔ ان کے تذکرے میں عشق مجازی ، ابھے چند (محبوب )کا ذکر ، برہنگی ، صدائے انا الحق وغیرہ ایسے امور ہیں جن سے طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے ، لیکن یہ تکدر وقتی چیز ہے ۔یہ سچ ہے کہ ان کے محبوب کا نام ابھے چند تھا ، وہ ایرانی النسل تھے ،غیر مسلم تھے ، غالباً وہ آرمینائی تھے ،یعنی ایرانی یہودی تھے ،اسلام کی دولت ان کو اس وقت نصیب ہوئی جب ابھے چند کا ہجر نصیب ہو چکا تھا ۔(ابھے چند کا ذکر میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے؛کیوں کہ میرا وہ مقصودبالذکر بھی نہیں ہے )تذکرہ کے مطابق ابھے چند سے نظریں اس وقت چار ہوئی تھیں جب وہ اسلام کی دو لت سے بہر ہ ور نہیں ہوئے تھے ،یعنی وہ غیر مسلم ہی تھے۔الغرض میں سرمدؔ کی قبر تلاش رہا تھا کہ میری نظر سرخ قبر نما مکان پر پڑی جس پر جلی حرفوں میں ’’صوفی سرمد شہید‘‘لکھا ہوا تھا۔ صوفی سرمد شہید کا مزار عین جامع مسجد کے جنوب میں ہے۔مولانا آزاد نے بھی اسی کا ذکرکیا ہے ۔ آج ٹھیک امام الہند مولانا آزادؒ سرمد شہید کی قبر سے پانچ قدم کی دوری پرشمال میں دائیں جانب واقع باغ میں محوخواب ہیں(اللہ تعالیٰ ان کی قبر کروڑوں رحمت نازل فرمائے، آمین ) ۔یہ بھی قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ سرمد ایران سے تجارت کے لیے چلے تھے ،مگر یہاں ابھے چند (برہمن ) کی نگاہ کشتہ نے سرمد کو حیات سرمدی دے دی ۔سرمدؔ تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے تھے ؛لیکن اس کو دل کے سودے کرنے پڑگئے ۔ یہ بھی پتہ نہ تھا کہ وہ کسی مقتل کی طرف بڑھ ر ہے ہیں ۔جہاں پہلے ان کا دل کسی اور کا ہوگا ، پھر وہ خود اس کا ہوکر رہ جائیں گے ۔ا ن کے عشق پر دنیا ہنسے گی ،طعنہ دے گی ، ان پر کوڑے بر سائے جائیں گے ، علمائے ظاہر ؛بلکہ درباری ملا جن میں ملا قوی معروف ہیں ، ان پر فتاویٰ لگائیں گے ، صاحب اقتدار کے سامنے ان کی پرسش ہوگی اور پھر یہ بھی ہوگا کہ انہیں عین دہلی کی جامع مسجد سے متصل تختہ دار پر لٹکادیاجائے گا ۔اگر ان کو یہ علم ہوتاتو شاید کبھی بھی بغرضِ تجارت ہندوستان کا رخت سفر نہ باندھتے ؛لیکن سرمدؔ کی قسمت میں آبلہ پائی ، ریگستاں نوردی، ٹھٹھہ کی ریت میں جلنا بھننا ، گولکنڈہ کی خاک چھاننا اور پھر مقتل(دہلی ) میں قیام پذیر ہوکر دہلی گیٹ کے قریب میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر نیم برہنہ یا برہنگی کے عالم میں جذب و کیف کی مستی کے ساتھ ’اناالحق‘ کی صدائیں لگانا مقدر تھی ؛اس لیے کشاں کشاں ایران سے ٹھٹھہ آئے ،اپنے قبضہ سے دل گیا، ٹھٹھہ میں قیام پذیر ہوئے ، مال و اسباب دوسرے لوگوں نے مالِ غنیمت سمجھ کر کے لوٹ لے گئے ۔ کوئی عجیب نہیں کہ وہ اس صحرا نوردی میں حافظ کی غزل کا یہ مطلع گنگنا رہے ہوں ؎
اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
بنظر انصاف دیکھیں تو حافظؔ سرمدؔ کی ترجمانی کررہے ہیں اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ سرمدؔ ٹھٹھہ کی گرم ریتیلی سرزمین میں ننگے پاؤں معشوق کی یاد اور اس کی جستجو میں وصال کی آرزو پر سمرقند و بخارا نثار کربیٹھتے ،تاہم حافظؔ کے بیان سے بھی سرمد کا یہ جنون اورسرمستی بلند اور برتر تھی کہ سرمدؔ نے اپنا وجود اور اپنا مذہب اس کشتہ ٔ جاں کی نذر کردیا تھا۔حافظؔ کی شاعری محض تعلی ہے ۔ ٹھٹھہ سندھ میں واقع ہے ۔اور سندھ میں ریگستان بھی ہے ! کوئی بعید نہیں کہ ٹھٹھہ سے نکالے جانے کے بعد سرمد ؔ نے تھر میں صحرا نوردی بھی کی ہو ۔مولانا ناآزاد نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ :
’’اس زمانے میں ایرانی سیاح عموما سندھ ہو کر ہندوستان آتے تھے ، سندھ کے شہروں میں ٹھٹھہ ایک مشہور شہر تھا جس کو اب نئے جغرافیہ میں گمنامی کا خانہ نصیب ہوا ہے ۔ یہی ٹھٹھہ وہ سینائے مقدس تھا جو سرمد ؔ کے لیے تجلی گاہ ایمن بنا اور اور لیلائے حسن نے اول ا ول اپنے چہرے سے نقاب الٹی ۔ کہتے ہیں کہ ایک ہندو لڑ کا تھا ۔ جس کی چشم کافر نے یہ افسوں طرازی کی اور ایسا ہونا کچھ مستعبد نہیں ؛کیوں کہ عشق خیزدلوں کو ’’وا نیم ‘‘ کرنے میں بخیہ گر کی سوئی اور جلا د کی تیغ دونوں برابر ہیں ۔ یہاں تجارت میں خریدار عموما بے پرواہ و بے نیاز۔ پھر جو لوگ اپنے دلوں کو ہاتھوں پر بطرز نذر رکھے ہوئے خریدار ڈھونڈتے ہوں انہیں تو حق ہی نہیں کہ خریدار میں خاص اوصاف کے طالب ہوں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادہ لوح ایرانی تاجر بھی متاع دل کی کسمپرسی سے تنگ آگیا تھا اور خود خریدار کو بے تابانہ ڈھونڈ رہا تھا ۔ جب خریدار مل گیا تو نظر اٹھا کے دیکھا تک نہیں کہ کون ہے اور کیا لے کے آیا ہے۔ اسی کو غنیمت سمجھا کہ دل جیسی متاع ارزاں کی ایک چشم سحر کار طالب ہے اور بلا تامل یہ سودامنظور کرلیا ۔ ‘‘
ایک دوسری جگہ مولانا آزادؒ یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
’’سرمدؔ کے لیلیٰ کا زیادہ سے یادہ حال جو معلوم ہوتا ہے یہی کہ ایک ہندو لڑکا تھا اور غور کیجئے تو یہ بھی بہت ہے ؛کیوں گہ بازار عشق میں جب سودا چکایا جاتا ہے تو یہ کب دیکھا جاتا ہے کہ خریدار کون ہے ۔ اور کیا قیمت مل رہی ہے ؎
مرا فروخت محبت ولے نمی دانم
کہ مشتری چہ کس ست و بہائے ما چند ست ‘‘
چند تذکرہ نگاروں نے اس درمیان یہ بھی نقل کیا ہے کہ سرمد ان ہی دنوں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے ، لیکن دل میں عشق کی جو چنگاری ابھے چند برہمن نے لگائی تھی، وہ چنگاری بجھنا تو کجا ، مزید شعلہ نوا ہوچکی ۔کچھ تذکرہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ جو کہ محض مبالغہ آرائی پر ہی محمول ہے ،یہ کہ ابھے چند کو ایک ہی شب میں قرآن کی تعلیم بھی دی ، دوسری شب میں حدیث کی ، تیسری شب میں انجیل کی ، چوتھی شب میں زبور کی ۔خدا بہتر جانے سرمد ؔ نے اپنے معشوق (ابھے چند ) کو کیا کیا تعلیم دی۔البتہ یہ ضرور تھا کہ ٹھٹھہ میں سرمدؔکا وصال ابھے چند سے ہوا تھاخلوت میں بھی اور جلوت میں بھی ،دونوں ساتھ رہتے ۔ ابھے چند نے جب یہ دیکھا کہ سرمد میرے لیے اپنا مذہب ،وطن ، سب کچھ ترک کرچکا ہے تو پھر ابھے چند کا دل بھی پگھل گیا اور وہ بھی سرمدؔ کے رنگ میں رنگ گیا ۔ جس سے اہل محلہ بھی نالاں تھے حتیٰ کہ سرمدؔ کو اس عشق کی وجہ سے شہر بدر بھی کردیا گیا اور ابھے چند جو کہ کسی امیر برہمن گھرانے کا تھا ، اس پر بھی پہرے بٹھا دیئے گئے ۔مولانا آزاد ؒ نے سرمدؔ کی صحرا نوردی کا یوں ذکر کیا ہے :
’’سرمدؔ کوآئندہ جس صحرا میں بادیہ پیمائی کرنی تھی ،یہ اس کی طرف پہلا قدم تھا ۔اور کچھ سرمد ہی کی خصوصیت نہیں ، عشق خواہ کسی(کوئی ) عنوان ہو منزل حقیقت کا ہمیشہ سے پہلا قدم ہے ؛بلکہ یہ کہنا بھی مشکل ہے ۔ منزل حقیقت کا کیا ذکر ، عشق تو وہ دروازہ ہے جس سے گزرے بغیر انسان انسان نہیں ہوسکتا ، جس کے دل و جگر میں ٹیس اور آنکھوں میں تری نہیں، اس کو معنی ٔ انسانیت سے کیا واسطہ؟ تم نے اکثر دیکھا ہوگا کہ زاہد معتکف بھی بایں ہمہ تعبس نہ تقشف ، جب اپنے زاویہ عبادت میں سر بہ زانو ہوتا ہے تو حور و غلماں کی مسکراہٹ سے لطف لیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یعنی جو خشک دماغ مسجد کے گوشوں اور حجروں میں دوست کو ڈھونڈتے ہیں انہیں بھی اس تصور کے بغیر چارہ نہیں ؎
حوروجنت جلوہ بر زاہددہد در راہ دوست
اندک اندک عشق در کار آورد بیگانہ را
یہی وجہ ہے کہ جوسودازدگان حقیقت شاہد ازلی کے جاں دادہ ہیں ، انہیں بھی مجازی کوچوں میں درو دیوار سے سر ٹکراتے دیکھا گیا ہے؛کیوں کہ دل جب تک لذت آشنائے درد نہ ہو برف کا ایک ٹکڑا ہے جس کو پانی بنتے دیکھا ہے ، مگر برف آگ میںجلتے ہوئے کبھی نظر نہ آئی۔ حالانکہ انسانیت کا مفہو م یکسر سوز و گداز ہے ۔ اور عشق کاکلیسا آتش کدہ ہے ، یہاں وہی آتش طلب قدم رکھ سکتے ہیں جو اپنے دلوں کو اس آتش کدہ پر نذر چڑھادیں اور پھر دامن سے ہوا دیتے جائیں کہ کہیں شعلوں کی بھڑک کم نہ ہوجائے ‘‘
سرمد ؔنے راہ عشق کے ان تمام سلوک کو اپنا یا تھا ، اُس ماہ رو کی تلاش میں مجازی کوچوں سے سردیواروں سے ٹکرایا ہی نہیں تھا؛ بلکہ آبلہ پائی بھی کی ؛بلکہ اس آبلہ پائی کو متاع زیست بھی تصور کیا ۔ دل کو عشق کے آتش کدہ میں نذر کرکے دامن سے جلتے ہوئے شعلوں کو ہوا بھی دیا تھا کہ کہیں مبادا اس کی آگ سرد نہ ہوجائے ۔ سرمدؔ نے ان کلیوں کو بحسن خوبی اپنایا ، اسے نبھایا اورپھر محبوب کا وصال نصیب نہ ہوسکا تو خود کو کنج تنہائی میں خود کو ڈال دیا۔ دنیا و مافیہاسے بے خبر ، ہجر و فراق کی اصلی تصویر بنے ، سرپر تھر کی خاک ڈا ل کر خلق سے بیگانے ہوگئے ۔ ان کی ایک ہی دھن تھی اور وہ دھن محبوب کی یاد تھی ،محبوب کے روئے تاباں کا دیدار تھی ۔ ضعیف قول کے مطابق تقریباً آٹھ سے دس سال تک ٹھٹھہ اور لاہور میں گزارد یئے ،اسی عالم ہجر میں سرمد ؔ نے اپنی رباعیات بھی مرتب کی ۔کاتب تقدیر نے نگاہ کشتہ کا شہید ہوکر حقیقی معنوں میں بھی شہید ہونا لکھا تھا اور پھر یہ بھی طے ہے کہ خود سرمدؔ کو بھی اس کا یقین تھا کہ چشم کافر نے جو آگ لگائی ہے اس کا انجام تختہ ٔ دار ہی ہے ۔ (جارى )
نوٹ : سرمدؔ شہید کی کہانی مبا لغہ آرائی کی وجہ سے خلط ملط ہوگئی ہے اور پھر ارباب اقتدار کے خوف سے تذکرہ نویسوں اور مؤرخین نے بھی سرمدؔ کے ذکر سے اپنے قلم کو بچا لیا تھا ؛ اس لیے ان کی کہانی جو درحقیقت فسانہ عشق و سرمستی کی لازوال داستان ہے، حقائق سے پرے ہوکر رہ گئی ؛ لیکن عشق لافانی ہوا کرتا ہے اس کا ذکر خواہ جس شکل میں ہوں لطیف ہی ہوا کرتا ہے ۔ راقم اگلی قسط اس کو مکمل کرنےکی کوشش کرے گا ان شاءاللہ !!
منصور ہند :صوفی سرمد شہید (قسط اول)
افتخاررحمانی ، نئی دہلی
سرمدؔ غمِ عشق بولہوس را نہ دہند
سوزِ غمِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند
آج (کل) جامع مسجد دہلی جانا ہوا وہی جامع مسجدجوتاریخ میں مسجد شاہجانی کے نام سے مشہور ہے ؛لیکن اب اس نے جامع مسجد دہلی کا نام اختیار کرلیا ہے۔اتوارکادن تھا اس لیے سوچا اسی بہانے میں دہلی کی سیر سپاٹا کرلیا جائے ۔ دن بھر گوشۂ تنہائی میں پڑے پڑے جی اکتانے سا لگتا ہے۔اسی بہانے گھومتے گھامتے دہلی کی جامع مسجدنکل آیا ۔ پتہ نہیں کیوں یہ میری فطرت ہے یا پھر قدامت پسندی کہ پوری دہلی میں مجھے صرف اور صرف دہلی کی جامع مسجد ہی اچھی لگتی ہے اورسونے پہ سہاگہ اس وقت ہوتا ہے جب عین جامع مسجد کی سیڑھیوںپر کھڑا ہوکر لال قلعہ کا نظارہ کیا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات جامع مسجد کی جلو میں سمٹ آئی ہوئی ہو۔ دیوان حافظ ؔ کے مطالعہ کا بھی اشتیاق تھا،انٹر نیٹ پر پی ڈی ایف فائل مل تو جاتی ہے،لیکن کتاب کتاب ہوتی ہے۔ اس لیے وقت خالی دیکھتے ہی صبح سویرے جامع مسجد نکل پڑا۔میری پہلی پسند دیوان حافظ تھا جو اردو بازار متصل جامع مسجد میں مل سکتی تھی ۔ جب کتب خانہ میں جاکر ’’دیوان حافظ ‘‘کا نام لیا تو ناظم کتب خانہ نے اوپر سے نیچے تک تین مرتبہ مشکوک نظروں سے دیکھ کر بداعتمادی سے پوچھا :’’میاں صاحب زادے آپ کی عمر کیا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’ کہ وہی بیس بائیس سال ‘‘۔ میرے اس جواب سے ناظم کتب خانہ سوچ میں پڑگیا ؛لیکن وہ شخص بھی گھاگ قسم کا بندہ تھا،جھٹ سے سوال پوچھ لیا کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ اس کا سوال تحقیر آمیز تھا۔’’ عشق فرماتا ہوں،اس لیے دیوان حافظ لینے آیا ہوں ‘‘میرا سپاٹ سا جواب تھا ۔ناظم کتب خانہ نے سمجھ لیا کہ یہ مذاق کر رہا ہے تو ازراہ مذاق حافظ ؔ کے کسی شعر سنانے کی فرمائش بھی کرڈالی ۔ میں نے ’ذہن پر تھوڑا زور ڈالتے ہوئے حافظ کی غزل مع مطلع پڑھی ؎
اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
بدہ ساقی می باقی کہ در جنت نخوا ہی یافت
کنار آب رکن آباد و گلگشت مصلا را‘
اتنا پڑھا ہی تھا کہ ناظم کتب خانہ اچھل پڑا ۔ کہنے لگا کہ چہرے مہرے سے لگتے ہو نہیں خیر ! لے جاؤ میرے کتب خانہ میں دستیاب ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کوئی ناظم کتب خانہ یوں ذکی الحس ، ہنس مکھ اور ظریف الطبع نہیں ہوا کرتا ہے ،تاہم بیچارے ناظم کتب خانہ میں ایسی خصلت تھی کہ وہ ہر کس و ناکس کو اپنی باتوں میں الجھا دیتا تھا ، گھنٹوں تفریح کرتا اور علمی مباحثہ میں بھی مشغول رہتا ۔ بعد میں جب میں نے کہا کہ میں دیوبند کا سابق طالب علم ہوں اور ابھی چند سال قبل فراغت ہوئی ہے، تو اس کے چہرے پر سنجیدگی آئی ۔ خیر دیوان حافظ بغل میں دبائے جامع مسجد چلا آیا۔ جامع مسجد کی اپنی ہیئت اور جلال ہے ، گویا نورو جلال کا امتزاجی نزول ہر گھڑی ہوتا رہتا ہے جو کہ دیکھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔
آمدم برسر مطلب ! سناتھا اور پڑھا بھی تھا کہ جامع مسجد سے متصل منصور ہند صوفی سرمد کی قبر ہے جن کاسر حضرت اورنگ زیبؒ نے ’’اناالحق ‘‘ کی صدا کے جرم میں قلم کروایا تھا ۔تاریخی حوالہ جات میں جس طرح ان کا ذکر ملتا ہے وہ حقیقت کم افسانوی صورت کچھ زیادہ ہی اختیار کرگیا ہے اس پر مستزاد یہ کہ واقعہ نگاروں نے اپنی طرف سے اس میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ۔جس کی وجہ سے اصل حقائق گم ہوکر رہ گئے ۔ میں ازراہ محبت عشق کی اس لامثال نشانی کو دور سے ہی دیکھتا رہا ؛کیوں کہ اپنی تعلیم و پرورش کی وجہ سے چاہ کر بھی قریب نہ جاسکا ( ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ ان جیسے صوفیا کہ جن کی قبروں پر نام نہاد مکار مولوی نما لوگوں نے قبضہ جما کر ہندؤں اور مشرکوں کی طرح ، ان کی قبر کو سجدہ گا ہ بنالیا ہے ، ان کی سوانح حیات ، ملفوظات میرے مطالعہ میں رہا کرتے ہیں ۔ میں خود حضرت نظام الدین اولیاء کا دل سے قدرداں اور ان کی عظمت کا قائل ہوں ؛لیکن ان کے مزار ہونے والی خرافات کا سخت مخالف بھی ہوں) یوں بھی سرمدؔ کو سرمدی زندگی ملی تھی ، وہ جو بھی ہوں ؛لیکن اس کے پس پردہ عشق کی شورش اور افتادکی گرانی کار فرما تھی، جس کی وجہ سے وہ مرکے بھی جاوداں ہوگئے اورگیتی ٔ عشق میں ان کی حکمرانی اب بھی قائم ہے ۔ ان کے تذکرے میں عشق مجازی ، ابھے چند (محبوب )کا ذکر ، برہنگی ، صدائے انا الحق وغیرہ ایسے امور ہیں جن سے طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے ، لیکن یہ تکدر وقتی چیز ہے ۔یہ سچ ہے کہ ان کے محبوب کا نام ابھے چند تھا ، وہ ایرانی النسل تھے ،غیر مسلم تھے ، غالباً وہ آرمینائی تھے ،یعنی ایرانی یہودی تھے ،اسلام کی دولت ان کو اس وقت نصیب ہوئی جب ابھے چند کا ہجر نصیب ہو چکا تھا ۔(ابھے چند کا ذکر میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے؛کیوں کہ میرا وہ مقصودبالذکر بھی نہیں ہے )تذکرہ کے مطابق ابھے چند سے نظریں اس وقت چار ہوئی تھیں جب وہ اسلام کی دو لت سے بہر ہ ور نہیں ہوئے تھے ،یعنی وہ غیر مسلم ہی تھے۔الغرض میں سرمدؔ کی قبر تلاش رہا تھا کہ میری نظر سرخ قبر نما مکان پر پڑی جس پر جلی حرفوں میں ’’صوفی سرمد شہید‘‘لکھا ہوا تھا۔ صوفی سرمد شہید کا مزار عین جامع مسجد کے جنوب میں ہے۔مولانا آزاد نے بھی اسی کا ذکرکیا ہے ۔ آج ٹھیک امام الہند مولانا آزادؒ سرمد شہید کی قبر سے پانچ قدم کی دوری پرشمال میں دائیں جانب واقع باغ میں محوخواب ہیں(اللہ تعالیٰ ان کی قبر کروڑوں رحمت نازل فرمائے، آمین ) ۔یہ بھی قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ سرمد ایران سے تجارت کے لیے چلے تھے ،مگر یہاں ابھے چند (برہمن ) کی نگاہ کشتہ نے سرمد کو حیات سرمدی دے دی ۔سرمدؔ تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے تھے ؛لیکن اس کو دل کے سودے کرنے پڑگئے ۔ یہ بھی پتہ نہ تھا کہ وہ کسی مقتل کی طرف بڑھ ر ہے ہیں ۔جہاں پہلے ان کا دل کسی اور کا ہوگا ، پھر وہ خود اس کا ہوکر رہ جائیں گے ۔ا ن کے عشق پر دنیا ہنسے گی ،طعنہ دے گی ، ان پر کوڑے بر سائے جائیں گے ، علمائے ظاہر ؛بلکہ درباری ملا جن میں ملا قوی معروف ہیں ، ان پر فتاویٰ لگائیں گے ، صاحب اقتدار کے سامنے ان کی پرسش ہوگی اور پھر یہ بھی ہوگا کہ انہیں عین دہلی کی جامع مسجد سے متصل تختہ دار پر لٹکادیاجائے گا ۔اگر ان کو یہ علم ہوتاتو شاید کبھی بھی بغرضِ تجارت ہندوستان کا رخت سفر نہ باندھتے ؛لیکن سرمدؔ کی قسمت میں آبلہ پائی ، ریگستاں نوردی، ٹھٹھہ کی ریت میں جلنا بھننا ، گولکنڈہ کی خاک چھاننا اور پھر مقتل(دہلی ) میں قیام پذیر ہوکر دہلی گیٹ کے قریب میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر نیم برہنہ یا برہنگی کے عالم میں جذب و کیف کی مستی کے ساتھ ’اناالحق‘ کی صدائیں لگانا مقدر تھی ؛اس لیے کشاں کشاں ایران سے ٹھٹھہ آئے ،اپنے قبضہ سے دل گیا، ٹھٹھہ میں قیام پذیر ہوئے ، مال و اسباب دوسرے لوگوں نے مالِ غنیمت سمجھ کر کے لوٹ لے گئے ۔ کوئی عجیب نہیں کہ وہ اس صحرا نوردی میں حافظ کی غزل کا یہ مطلع گنگنا رہے ہوں ؎
اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
بنظر انصاف دیکھیں تو حافظؔ سرمدؔ کی ترجمانی کررہے ہیں اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ سرمدؔ ٹھٹھہ کی گرم ریتیلی سرزمین میں ننگے پاؤں معشوق کی یاد اور اس کی جستجو میں وصال کی آرزو پر سمرقند و بخارا نثار کربیٹھتے ،تاہم حافظؔ کے بیان سے بھی سرمد کا یہ جنون اورسرمستی بلند اور برتر تھی کہ سرمدؔ نے اپنا وجود اور اپنا مذہب اس کشتہ ٔ جاں کی نذر کردیا تھا۔حافظؔ کی شاعری محض تعلی ہے ۔ ٹھٹھہ سندھ میں واقع ہے ۔اور سندھ میں ریگستان بھی ہے ! کوئی بعید نہیں کہ ٹھٹھہ سے نکالے جانے کے بعد سرمد ؔ نے تھر میں صحرا نوردی بھی کی ہو ۔مولانا ناآزاد نے اس تعلق سے لکھا ہے کہ :
’’اس زمانے میں ایرانی سیاح عموما سندھ ہو کر ہندوستان آتے تھے ، سندھ کے شہروں میں ٹھٹھہ ایک مشہور شہر تھا جس کو اب نئے جغرافیہ میں گمنامی کا خانہ نصیب ہوا ہے ۔ یہی ٹھٹھہ وہ سینائے مقدس تھا جو سرمد ؔ کے لیے تجلی گاہ ایمن بنا اور اور لیلائے حسن نے اول ا ول اپنے چہرے سے نقاب الٹی ۔ کہتے ہیں کہ ایک ہندو لڑ کا تھا ۔ جس کی چشم کافر نے یہ افسوں طرازی کی اور ایسا ہونا کچھ مستعبد نہیں ؛کیوں کہ عشق خیزدلوں کو ’’وا نیم ‘‘ کرنے میں بخیہ گر کی سوئی اور جلا د کی تیغ دونوں برابر ہیں ۔ یہاں تجارت میں خریدار عموما بے پرواہ و بے نیاز۔ پھر جو لوگ اپنے دلوں کو ہاتھوں پر بطرز نذر رکھے ہوئے خریدار ڈھونڈتے ہوں انہیں تو حق ہی نہیں کہ خریدار میں خاص اوصاف کے طالب ہوں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادہ لوح ایرانی تاجر بھی متاع دل کی کسمپرسی سے تنگ آگیا تھا اور خود خریدار کو بے تابانہ ڈھونڈ رہا تھا ۔ جب خریدار مل گیا تو نظر اٹھا کے دیکھا تک نہیں کہ کون ہے اور کیا لے کے آیا ہے۔ اسی کو غنیمت سمجھا کہ دل جیسی متاع ارزاں کی ایک چشم سحر کار طالب ہے اور بلا تامل یہ سودامنظور کرلیا ۔ ‘‘
ایک دوسری جگہ مولانا آزادؒ یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
’’سرمدؔ کے لیلیٰ کا زیادہ سے یادہ حال جو معلوم ہوتا ہے یہی کہ ایک ہندو لڑکا تھا اور غور کیجئے تو یہ بھی بہت ہے ؛کیوں گہ بازار عشق میں جب سودا چکایا جاتا ہے تو یہ کب دیکھا جاتا ہے کہ خریدار کون ہے ۔ اور کیا قیمت مل رہی ہے ؎
مرا فروخت محبت ولے نمی دانم
کہ مشتری چہ کس ست و بہائے ما چند ست ‘‘
چند تذکرہ نگاروں نے اس درمیان یہ بھی نقل کیا ہے کہ سرمد ان ہی دنوں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے ، لیکن دل میں عشق کی جو چنگاری ابھے چند برہمن نے لگائی تھی، وہ چنگاری بجھنا تو کجا ، مزید شعلہ نوا ہوچکی ۔کچھ تذکرہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ جو کہ محض مبالغہ آرائی پر ہی محمول ہے ،یہ کہ ابھے چند کو ایک ہی شب میں قرآن کی تعلیم بھی دی ، دوسری شب میں حدیث کی ، تیسری شب میں انجیل کی ، چوتھی شب میں زبور کی ۔خدا بہتر جانے سرمد ؔ نے اپنے معشوق (ابھے چند ) کو کیا کیا تعلیم دی۔البتہ یہ ضرور تھا کہ ٹھٹھہ میں سرمدؔکا وصال ابھے چند سے ہوا تھاخلوت میں بھی اور جلوت میں بھی ،دونوں ساتھ رہتے ۔ ابھے چند نے جب یہ دیکھا کہ سرمد میرے لیے اپنا مذہب ،وطن ، سب کچھ ترک کرچکا ہے تو پھر ابھے چند کا دل بھی پگھل گیا اور وہ بھی سرمدؔ کے رنگ میں رنگ گیا ۔ جس سے اہل محلہ بھی نالاں تھے حتیٰ کہ سرمدؔ کو اس عشق کی وجہ سے شہر بدر بھی کردیا گیا اور ابھے چند جو کہ کسی امیر برہمن گھرانے کا تھا ، اس پر بھی پہرے بٹھا دیئے گئے ۔مولانا آزاد ؒ نے سرمدؔ کی صحرا نوردی کا یوں ذکر کیا ہے :
’’سرمدؔ کوآئندہ جس صحرا میں بادیہ پیمائی کرنی تھی ،یہ اس کی طرف پہلا قدم تھا ۔اور کچھ سرمد ہی کی خصوصیت نہیں ، عشق خواہ کسی(کوئی ) عنوان ہو منزل حقیقت کا ہمیشہ سے پہلا قدم ہے ؛بلکہ یہ کہنا بھی مشکل ہے ۔ منزل حقیقت کا کیا ذکر ، عشق تو وہ دروازہ ہے جس سے گزرے بغیر انسان انسان نہیں ہوسکتا ، جس کے دل و جگر میں ٹیس اور آنکھوں میں تری نہیں، اس کو معنی ٔ انسانیت سے کیا واسطہ؟ تم نے اکثر دیکھا ہوگا کہ زاہد معتکف بھی بایں ہمہ تعبس نہ تقشف ، جب اپنے زاویہ عبادت میں سر بہ زانو ہوتا ہے تو حور و غلماں کی مسکراہٹ سے لطف لیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یعنی جو خشک دماغ مسجد کے گوشوں اور حجروں میں دوست کو ڈھونڈتے ہیں انہیں بھی اس تصور کے بغیر چارہ نہیں ؎
حوروجنت جلوہ بر زاہددہد در راہ دوست
اندک اندک عشق در کار آورد بیگانہ را
یہی وجہ ہے کہ جوسودازدگان حقیقت شاہد ازلی کے جاں دادہ ہیں ، انہیں بھی مجازی کوچوں میں درو دیوار سے سر ٹکراتے دیکھا گیا ہے؛کیوں کہ دل جب تک لذت آشنائے درد نہ ہو برف کا ایک ٹکڑا ہے جس کو پانی بنتے دیکھا ہے ، مگر برف آگ میںجلتے ہوئے کبھی نظر نہ آئی۔ حالانکہ انسانیت کا مفہو م یکسر سوز و گداز ہے ۔ اور عشق کاکلیسا آتش کدہ ہے ، یہاں وہی آتش طلب قدم رکھ سکتے ہیں جو اپنے دلوں کو اس آتش کدہ پر نذر چڑھادیں اور پھر دامن سے ہوا دیتے جائیں کہ کہیں شعلوں کی بھڑک کم نہ ہوجائے ‘‘
سرمد ؔنے راہ عشق کے ان تمام سلوک کو اپنا یا تھا ، اُس ماہ رو کی تلاش میں مجازی کوچوں سے سردیواروں سے ٹکرایا ہی نہیں تھا؛ بلکہ آبلہ پائی بھی کی ؛بلکہ اس آبلہ پائی کو متاع زیست بھی تصور کیا ۔ دل کو عشق کے آتش کدہ میں نذر کرکے دامن سے جلتے ہوئے شعلوں کو ہوا بھی دیا تھا کہ کہیں مبادا اس کی آگ سرد نہ ہوجائے ۔ سرمدؔ نے ان کلیوں کو بحسن خوبی اپنایا ، اسے نبھایا اورپھر محبوب کا وصال نصیب نہ ہوسکا تو خود کو کنج تنہائی میں خود کو ڈال دیا۔ دنیا و مافیہاسے بے خبر ، ہجر و فراق کی اصلی تصویر بنے ، سرپر تھر کی خاک ڈا ل کر خلق سے بیگانے ہوگئے ۔ ان کی ایک ہی دھن تھی اور وہ دھن محبوب کی یاد تھی ،محبوب کے روئے تاباں کا دیدار تھی ۔ ضعیف قول کے مطابق تقریباً آٹھ سے دس سال تک ٹھٹھہ اور لاہور میں گزارد یئے ،اسی عالم ہجر میں سرمد ؔ نے اپنی رباعیات بھی مرتب کی ۔کاتب تقدیر نے نگاہ کشتہ کا شہید ہوکر حقیقی معنوں میں بھی شہید ہونا لکھا تھا اور پھر یہ بھی طے ہے کہ خود سرمدؔ کو بھی اس کا یقین تھا کہ چشم کافر نے جو آگ لگائی ہے اس کا انجام تختہ ٔ دار ہی ہے ۔ (جارى )
نوٹ : سرمدؔ شہید کی کہانی مبا لغہ آرائی کی وجہ سے خلط ملط ہوگئی ہے اور پھر ارباب اقتدار کے خوف سے تذکرہ نویسوں اور مؤرخین نے بھی سرمدؔ کے ذکر سے اپنے قلم کو بچا لیا تھا ؛ اس لیے ان کی کہانی جو درحقیقت فسانہ عشق و سرمستی کی لازوال داستان ہے، حقائق سے پرے ہوکر رہ گئی ؛ لیکن عشق لافانی ہوا کرتا ہے اس کا ذکر خواہ جس شکل میں ہوں لطیف ہی ہوا کرتا ہے ۔ راقم اگلی قسط اس کو مکمل کرنےکی کوشش کرے گا ان شاءاللہ !!
مدیر کی آخری تدوین: