ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
منظر وہی پرانا ہے ، موسم نیا نیا
بدلا جو میں نے زاویہ ، عالم نیا نیا
تازہ ہے دوستی ابھی لہجے نہ جانچئے
کھُلتا ہے تار تار یہ ریشم نیا نیا
دل کی خلش بڑھی ہے تری قربتوں سے اور
زخموں کو جیسے ملتا ہے مرہم نیا نیا
ہر عکس کرچیاں سی چبھاتا ہے آنکھ میں
پتھر اور آئنے کا ہے سنگم نیا نیا
یارب ہو میرے شہر ِسیاست میں سب کی خیر
گلیوں میں پھر اٹھا کوئی پرچم نیا نیا
پیروں کو یوں بھی رقص کی عادت نہیں ظہیر
چھیڑا ہے زندگی نے بھی سرگم نیا نیا
ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۲۰۰۲
ٹیگ: سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی فاتح
بدلا جو میں نے زاویہ ، عالم نیا نیا
تازہ ہے دوستی ابھی لہجے نہ جانچئے
کھُلتا ہے تار تار یہ ریشم نیا نیا
دل کی خلش بڑھی ہے تری قربتوں سے اور
زخموں کو جیسے ملتا ہے مرہم نیا نیا
ہر عکس کرچیاں سی چبھاتا ہے آنکھ میں
پتھر اور آئنے کا ہے سنگم نیا نیا
یارب ہو میرے شہر ِسیاست میں سب کی خیر
گلیوں میں پھر اٹھا کوئی پرچم نیا نیا
پیروں کو یوں بھی رقص کی عادت نہیں ظہیر
چھیڑا ہے زندگی نے بھی سرگم نیا نیا
ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۲۰۰۲
ٹیگ: سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی فاتح