منظوم ڈرامہ

کیا آپ محفل فورم میں ڈرامے کی لڑی شروع کروانے کے حق میں ہیں؟

  • ہاں

    Votes: 5 55.6%
  • نہیں

    Votes: 4 44.4%
  • پتہ نہیں

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    9
ایک منظوم ڈرامہ
ترتیب و پیشکش: محمد خلیل الرحمٰن​
( گزشتہ دنوں محفل کی ایک لڑی ’فی البدیہہ شاعری ‘ میں ایک انتہائی دلچسپ مکالمہ ہوا جو محفلین کی دلچسپی کے لیے ایک منظوم ڈرامے کی شکل میں ، ایک نئی ترتیب میں پیش ہے)​
( محمد احمد، سعود ابنِ سعید اور استاد عبید آپس میں فیصل عظیم فیصل کے متعلق باتیں کرتے ہوئے)​
محمد احمد:
چھڑ گیا ذکر ان کا محفل میں​
ان سے کہیے کہ اب تو آجائیں​
سعود ابنِ سعید:
ہم نے ان سے کہا کہ آجائیں​
پر وہ کہتے ہیں ہم نہ آئیں گے​
ہاں مگر اتنی لاج رکھ لی ہے​
گھر پہ بیٹھیں گے مسکرائیں گے​
استاد اعجاز عبید:
شاہ فیصل اگر نہیں آئیں​
ساری دنیا خموش رہتی ہے​
سعود ابنِ سعید:
ان کی آمد ذرا ذرا سی سہی​
پر جب آتے ہیں خوب آتے ہیں​
ان کے دم سے تھی روشنی ہر سو​
پھروہ آنے لگے ذرا کم کم​
(فیصل عظم فیصل اور محمد وارث داخل ہوتے ہیں)​
فیصل عظیم فیصل:
روشنی دم بدم نہیں ہوتی​
اور یہ کم بھی کم نہیں ہوتی​
محمد وارث:
زخم دل کے ہرے سے ہونے لگے​
کیوں یہ موضوع چھیڑا ہے ہمدم​
فیصل عظیم فیصل:
وارثِ عشق دل سے زخمی ہے​
بے رحم آنکھ نم نہیں ہوتی​
(سعود ابنِ سعید سے مخاطب ہوکر)​
گھر کا رخ تک نہیں کیا ہم نے​
اب تلک دیس میں بدیسی ہیں​
(استاد عبید سے مخاطب ہوکر)​
شاہ فیصل ہے مملکت سے جدا​
بیوی بچوں سے دور بیٹھا ہے​
منہ سے اسکے بھی کچھ ندارد ہے​
سر گریباں حضور بیٹھا ہے​
آپ کی بندہ پروری ہے حضور​
آپ سمجھے ہیں خوب آتے ہیں​
استاد عبید:
بیوی بچے نہیں تو غم ہے کیوں​
دل لگانے کو اردو محفل ہے​
روز آیا کرو تو بہتر ہے​
ورنہ تنہائی سمِ قاتل ہے​
فیصل عظیم فیصل:
آپکو علم ہے مرے صاحب​
ہم ہیں دیوانگی کے متعلم​
چاہتیں آپ کی بہت ہم کو​
ورنہ خاموش ہم ہیں متکلم​
(محمد خلیل الرحمٰن داخل ہوتے ہیں)​
سعود ابنِ سعید:
لوگ آتے ہیں لوگ جاتے ہیں​
بعد مدت کے لوٹ آتے ہیں​
ٹک تبسم بہت ضروری ہے​
آؤ سب مل کے مسکراتے ہیں​
محمد خلیل الرحمٰن:
تم جو آجاؤ تو ہم گھر کو سجالیں گے حضور​
ورنہ تنہائی ہمیں کاٹنے آئے گی ضرور​
فیصل عظیم فیصل:
ہم وہاں تھے تو سدا دور کیا کرتے تھے​
آج ہم دور ہیں تو گھر کا سجانا کیسا​
محمد خلیل الرحمٰن :
لوگ جاتے ہیں ، بھول جاتے ہیں​
پیچھے ان کے جو رشتے ناطے ہیں​
ہم نے مانا کہ لوٹ آؤ گے​
یاد کے ہم دیے جلاتے ہیں​
فیصل عظیم فیصل:
رشتے ناطے ضرورتوں کے سراب​
اس لیئے لوگ بھول جاتے ہیں​
جانے والے کو پھول کر سارے​
پھر نئی "محفلاں" سجاتے ہیں​
محمد خلیل الرحمٰن :
آپ ایسے جو مسکراتے ہیں​
پھول گویا نظر چراتے ہیں​
آپ کی مسکراہٹوں پہ فدا​
ہم تو ویسے ہی ہوتے جاتے ہیں​
فیصل عظیم فیصل:
جب ملو مسکرا کے ملتے ہو​
اپنے سب دکھ چھپا کے ملتے ہو​
دور اس سے نفاق ہوتا ہے​
جب کبھی دل ملا کے ملتے ہو​
(جاری ہے)​
 
محمد خلیل الرحمٰن:
بھائی سعود آپ کی ہے شاعری کمال​
تکنیکی معاملات میں ہے لٹرسی کمال​
ہر دلعزیز آپ ہیں محفل میں دم بدم​
جادو ہے آپ کی یہی جادوگری کمال​
فیصل عظیم فیصل:
سعود ابنِ سعید شاعرِ محفل ہوا کیے​
لٹ رے سیوں کے نام سے ہم بھی ڈرا کیے​
میرے عزیز آپ کی تک بند ہو نہ ہو​
ہم کو بہت ملیح لگے ہے یہ لٹرسی۔!​
محمد خلیل الرحمٰن:
بات آپ نے جناب مرے منہ کی چھین لی​
کیوں نہ ملیح ہوں، یہ انھی کی ہے لٹرسی​
سعود ابنِ سعید:
اصل شعور و شاعر و اشعار ایک ہے​
پھر یہ مشاعرہ ہے بھلا کس شعار میں؟​
چچا غالب سے معذرت کے بغیر۔۔۔​
سعود ابنِ سعید:
تک بندیوں کو نہ دیں الزام شاعری​
دو چار حرف پڑھنے کو کہتے ہیں لٹرسی؟​
ہو جن کا دل کشادہ انھیں ہر کوئی عزیز​
ورنہ عزیز ناعمہ و عائشہ پری​
( ناعمہ داخل ہوتی ہیں اور اپنا نام سن کر چونک اُٹھتی ہیں)​
محمد خلیل الرحمٰن:
تک بندی اور شعر میں کچھ فرق ہے جناب​
جیسے ہر اک مشین کا ہے اپنا ہی حساب​
ہر معاملے میں طاق ہیں اور خوش مذاق ہیں​
اللہ ہنستا رکھے ہاں آپ کو شتاب​
سعود ابنِ سعید:
شاعر کوئی کہے تو وہ کہلائے شاعری​
تک بند کچھ کہے تو وہ کیونکر ہو شاعری؟​
"تک بِن ندی" کی دھار کی مانند جو بہے​
تعریف اس کی ہم نے ہے کچھ اس طرح سنی​
ناعمہ عزیز:
مجھے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کیا ہے​
سعود ابنِ سعید:
جو نہ سمجھ میں آئے ایسی ہی مفہوم سے عاری الجھی ہوئی سطروں کو تک بندی کہتے ہیں۔​
ناعمہ عزیز:
اچھا اچھا تو یہ تُک بندی ہے​
محمد خلیل الرحمٰن:
نہیں بلکہ یہ جو ر وستم ہے ظلم ہے زیادتی ہے​
سعود ابنِ سعید:
"جورو کا ستم" موضوع کوئی عام نہیں ہے​
تاریخ و فلسفے کا عنوان نہیں ہے​
محمد خلیل الرحمٰن:
جور و ستم میں جورو کہاں آگئی نظر​
اور کچھ کا کچھ بنادیا لفظوں کو پھیر کر​
یہ آپ کا کمال ہے ، ہم اور کیا کہیں​
آیا نہیں ہمیں تو ایسا حسیں ہنر​
(محمد محمود مغل اور فاتح داخل ہوتے ہیں)​
محمدمحمود مغل:
اچھی گزر رہی تھی دلِ خود خلیل سے​
جَور و ستم سے ’’ جورُو ستم ‘‘ یاد آگئے​
فاتح:
جورُو ستم کا ذکر سرِ عام کر دیا​
لگتا ہے تم کو جینے کی خواہش نہیں رہی​
استاد عبید:
ہر اک یہاں تو جورُو ستم کا قتیل ہے​
جور و ستم یہی ہے کہ خاموش ہیں )سبھی شادی شہداء)​
فاتح:
آفت زدہ کہیں یا مصیبت زدہ کہیں​
بیگم گزیدہ شادی زدہ مرد کو جناب​
استاد عبید:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد​
ڈرتا ہوں عورتوں سے کہ بیگم گزیدہ ہوں​
( جلدی میں واپس جاتے ہیں)​
فیصل عظیم فیصل:
ڈرتے ہیں سب ہی بیگماتِ خونخوار سے​
جو بھی کہے میں نہ ڈروں کذاب ہوتوہو​
( محمد خلیل الرحمٰن نبیل بھائی کو آواز دیتے ہیں)​
 
محمد خلیل الرحمٰن:
بھائینبیل آپ ہی کچھ منہ سے بولیے​
گنجینہ ء معانی کو کچھ ایسے کھولیے​
اعجاز بھائی آئیں تو کچھ ڈانٹ نہ پڑے​
ہم نے تو خونِ دل میں قلم ہیں ڈبولیے​
محمد خلیل الرحمٰن :
دل لگانے کو اردو محفل ہے​
ورنہ تنہائی زہرِ قاتل ہے​
روز آتے ہیں دل بہلتا ہے​
ہائے سینے میں کیسا یہ دِل ہے​
فیصل عظیم فیصل:
دل بہلنے کو محفلیں سجتی​
زہر پی پی کے رات کٹتی ہے​
محفلیں "یار" کے بنا سونی​
عقل یاراں اسی پہ "سٹتی" ہے​
آپکو علم ہے مرے صاحب​
ہم ہیں دیوانگی کے متعلم​
چاہتیں آپ کی بہت ہم کو​
ورنہ خاموش ہم ہیں متکلم​
آپ کی چاہتیں عزیز ہمیں​
یہ سعادت ہمی کو ملنا تھی​
"مبتسم" آپ کو کیا ہم نے​
دوریاں اس طرح سے سلنا تھیں​
(شمشاد بھائی داخل ہوتے ہیں)​
محمد خلیل الرحمٰن:
شمشادبھائی آپ بھی کچھ بولیے حضور​
ویسے تو داد آپ ہمیں دیتے ہیں ضرور​
جب بھی کبھی جواب ہمیں آپ نے دیا​
وللہ اس سے آپ ہمیں آگیا سُرور​
فیصل عظیم فیصل:
شمشاد میاں آپ کی باتوں کا دیں جواب​
مشکل ہمیں یہ لگ رہا ہے آج بھی جناب​
سرور آپ کو آئے گا تبھی تو میاں خلیل​
جب ہم ملیں گے آپ سے کھائیں گے گھی کباب​
محمد خلیل الرحمٰن:
ہم آپ کو کھلائیں گے کس طرح گھی کباب​
لاہور مستقر ہے وہیں کے ہوئے جناب​
دل تو ملے ہوئے ہیں مگر دوریاں بھی ہیں​
اپنی تو عید ہوگی جہاں مل لیے جناب​
محمد خلیل الرحمٰن :
فیصل عظیم شاعرِ محفل ہیں برملا​
ہر شعر کا جواب انھوں نے ہے یوں دیاک​
ہنے کو شعر کہتے ہیں گو ہم ، انھوں نے آج​
ہم چھوٹے شاعروں کو تو گونگا سا کردیا​
فیصل عظیم فیصل:
چھوٹا کہا ہے آپ نے خود کو ظلم کیا​
فیصل جو بولتا ہے تو کہتا ہے برملا​
شاید مرے مزاج پہ بجلی سی گر پڑی​
کوشش بہت سنبھالنے کو کی نہ بن پڑا​
محمد خلیل الرحمٰن:
ہے یہ عنایت آپ کی ، اپنا نہیں کمال​
بولیں بڑوں کے سامنے اپنی نہیں مجال​
خود کو سنبھالیے کہ ہمیں آپ کا ہے مان​
فیصل عظیم شاعرِ محفل ہیں باکمال​
(محمود غزنوی داخل ہوتے ہیں)​
شمشاد:
ماشاء اللہ یہاں تو رونق لگی ہوئی ہے۔​
محمود غزنوی:
کیا بات ہے یہاں تو ہے رونق لگی ہوئی​
اشعار کے پردوں میں بڑی دل لگی ہوئی​
چپ چاپ چلے جاتے ہیں ہم آکے روزہی​
لیکن یہ خامشی کی مہر ٹوٹ ہی گئی۔۔۔​
فیصل عظیم فیصل:
کچھ بات ہم نے کھول دی محفل میں غزنوی​
جو دل میں تھی وہ بول دی محفل میں غزنوی​
 

مغزل

محفلین
بندہ پرور ہمیں بھی یاد رکھیں
ہم کوئی غیر تھوڑی ہیں صاحب
یہ بھی اچھا ہوا کہ محفل میں
ایک تمثیل ہوگئی منظوم
آپ چونکہ خلیل ہیں صاحب
اس لیے ہم قتیل ہیں صاحب
کیا ہی اچھا ہو نام رنگوں میں
کردیے جائیں یا لکھے جائیں
 
محمد خلیل الرحمٰن:
محمود غزنوی بھی تو آئے ہوئے ہیں یاں​
شاعر ہے اور کون یاں اپنوں کے درمیاں​
اب بات ہوگی شعر میں طے ہے یہ معاملہ​
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جاکے نظر کہاں​
( استاد عبید داخل ہوتے ہیں اور ایک نیا موضوع چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں)​
استاد عبید:
ہر شخص ہی قتیل ہے غالب کا بزم میں​
ہیں یاں ’سخن فہیم‘ جہاں تک نظر گئی​
سب گنگناتے ہیں یہاں غالب کی وہ غزل​
’دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی‘​
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں​
فیصل عظیم فیصل :
استاد محترم نے ہمیں سرخ رو کیا​
سب کو سخن فہم جو کہا دوبدو کیا​
غالب کہاں سے آگیا محفل میں آج شب​
بس آپ لے کے آئے اسے گو مگو کیا​
محمد خلیل الرحمٰن:
استاد عبید آئے تو ان کی نظر گئی​
غالب کی شاعری کی طرح کام کرگئی​
ہم شاعروں کا کام ہوا اور کیا خلیل​
انکی نگاہ دل سے جگر تک اتر گئی​
فیصل عظیم فیصل:
"غالب" غریب نام کو بدنام ہوا ہے​
کچھ چیرہ دستیوں سے پریشان ہوا ہے​
"استاد محترم" جہاں "محمود" ہوں "خلیل"​
"فیصل" کا فن گفتگو بے جان ہوا ہے​
استاد عبید:
اس کو ہوں فیصل مبارک اور یہ فیصل کو لڑی​
’فی البدی‘ دھاگے میں آکر بس اسی میں کھو گئے​
کیا کہوں میں شان فیصل میں، کہ وہ موضوع کے​
پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں ہو گئے​
محمد خلیل الرحمٰن:
شعروں کی انجمن میں کچھ ایسے کھوگئے​
بھائی مغل کہیں پر معمور ہوگئے​
چہرہ دکھایا ہم کو، بس ایک ہی جھلک​
اور اس کے بعد ہم سے کچھ دور ہوگئے​
محمود مغل:
ایسا نہیں ہے حضرتِ عالی خلیل جی​
اپنا تو ایک ہی سا ہے دارلفضیل جی​
چہرہ دکھا کے ہم کہاں غائب ہوئے حضور​
اتنا نہ ہم کو، کوسیئے چچا خلیل جی !!!​
فیصل عظیم فیصل:
شعروں کی انجمن میں کہاں کون کھو گیا​
کس ربط میں چھپا ہے کہ وہ معمور ہوگیا​
محمود یار اپنا ہے بیچے ہے "سرف" روز​
دکھتا برا جو داغ تھا اب دور ہو گیا​
محمود مغل:
اے یارِ خوش نگاہ ’ سرف‘ کی کہی ہے خوب​
لیکن یہ داغ، داغِ دلِ خود کفیل ہے ۔۔۔ ۔۔​
محمد خلیل الرحمٰن:
دل کے جو داغ تھے وہی اچھے تھے کل تلک​
محمود بھائی سرف کی دیتے ہیں کیا جھلک​
شاعر کہے یہ بات عجب معاملہ ہوا​
سب کچھ بدل گیا ہے کہ جھپکی نہیں پلک​
استاد عبید:
ہم نے تو ’سرف‘ ہی نہیں، رِن بھی ’یوزیا‘​
اور ساری چادروں کو سر عام دھو دیا​
محمد خلیل الرحمٰن :
استاد عبید نے تو یہاں رِن بھی یوزیا​
اور ساری چادروں کا تیا پانچا کردیا​
لیکن وہ ایک داغ، تمنا کہیں جسے​
داغوں میں ایک داغ وہی تو ہرا رہا​
(محمد امین ایک شعر پڑھتے ہوئے داخل ہوتے ہیں)​
محمد امین :
ہمیں نہ راس آیا سرمہ تیرے در کی خاک کا​
جبھی اس شہر میں آنکھیں بدل کے دیکھتے ہیں​
اب کوئی اس کی اصلاح بھی کرے​
 
محمود مغل:
اصلاحِ شعرِ یار کا حامی نہیں ہوں میں
بنتی نہی ہے مصرعِ اولیٰ کہے بغیر !!!!

فیصل عظیم فیصل:
معاف کیجئے گا کہ میں دن بھر ذرا مصروف تھا
تین منزل کی عمارت گر گئی لاہور میں
ہم صبح سے کوششوں میں ہیں کہ جانیں بچ سکیں
کچھ بچے ہیں اور باقی پھر وہی لاہور میں
گفتگوکرنے کو کرلے با ادب کرنا محال
پھر ڈیوٹی کال فیصل آگئی لاہور میں
(چلے جاتے ہیں)
(متلاشی داخل ہوتے ہیں)

متلاشی:
بزمِ یاراں میں اب کروں میں کیا بیاں
کچھ بولنے کی مجھ میں ہمت نہیں یہاں
ہم جو بولے تو سب کہیں گے بد زباں
سو اسی کے واسطے ہیں ہم خاموش یاں

محمود مغل :
(محمد خلیل الرحمٰن سے مخاطب ہوکر)

کہیے جناب کیسے گزارے ہیں رات دن
حافظ، انیس، آپ سے ملنے کے بعد کے
حافظ تو ان دنوں سے ہی غائب ہیں آج تک
گم کردہ ہوگئے ہیں وہ دن اختیار کے

محمد خلیل الرحمٰن:
حیرانگی ہے، دونوں کہاں گم ہوئے حضور
نظروں کے سامنے سے یوں ہوگئے ہیں دور
گر آپ کو ملیں تویہ پیغام دیجیے
ہاں شرفِ دوستی ہمیں بخشیں گے وہ ضرور

استاد عبید:
کل خوب خوب شعر کہے ہم نے بزم میں
افسوس ہے کہ ’آرگ‘ نے سب ہضم کر دئے

سعود ابنِ سعید:
ہجرت سے قبل آرگ کا اعلان برملا
دیکھا نہیں تھا آپ نے شاید لکھا ہوا

استاد عبید:
اس سلسلے میں دیکھا تھا لیکن وہاں کہیں
ایسا پیام کوئی دکھائی نہیں دیا

محمد خلیل الرحمٰن:
بھائی سعود آپ ہی کہہ دیں یہ برملا
آمد کو کون روک سکا ہے یہاں بھلا
بنتی نہیں ہے شعر کو روکے سے کوئی بات
بے شک جلی حروف میں کچھ ہو لکھا ہوا
اور پھر جناب عبید تو کہتے ہیں برملا
ایسا پیام کوئی دکھائی نہیں دیا
اب آپ کے ہی کورٹ میں یہ بال آگئی
کوئی جواب اب تو ذرا دیجیے بھلا

استاد عبید:
خلیل نے اس لڑی کو گویا حیات نو دی ہے ماشاء اللہ
اگرچہ اس کو عظیم فیصل کی ذریت ہی کہیں گے ہم تو
(پردہ گرتا ہے)
 
ایک بڑی پر لطف بات مشاہدے میں آئی کہ ابتدائی مراسلوں میں کہیں کہیں سعود ابن سعید کے بجائے عجلت میں سعید ابن سعود لکھا گیا ہے۔ :) :) :)
 
چلو مستقبل کا ایک مرحلہ طے ہو گیا، صاحبزادے کو نام دینے کا!!

یعنی عربوں کی طرح دو ناموں سے ایسے چپک جائیں جیسے:

عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ۔۔۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ :)
 

محمد امین

لائبریرین
بہت خوب جنابِ والا :) ۔۔۔ بہت ہی اچھوتا خیال ۔۔۔ ہمیں بہت پسند آیا :) ۔۔۔۔ اللہ آپ کے ہنر کو مزید تقویت عطا فرمائے :) ۔۔۔
 
یعنی عربوں کی طرح دو ناموں سے ایسے چپک جائیں جیسے:

عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ ابن عبد الرحمن ابن عبد اللہ۔۔۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ :)


اگر صرف پسند کو دس ہزار سے ضرب دینے کا کوئی بٹن ہوتا تو وہ آپ کا حق تھا ۔ جتنی مرتبہ بھی پڑھا ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا
 
کیا ہی بات ہے خلیل بھائی آپ۔ ماشاء اللہ ماشاء اللہ
جزاک اللہ جناب۔ پسند یدگی کا شکریہ

بہت خوب جنابِ والا :) ۔۔۔ بہت ہی اچھوتا خیال ۔۔۔ ہمیں بہت پسند آیا :) ۔۔۔ ۔ اللہ آپ کے ہنر کو مزید تقویت عطا فرمائے :) ۔۔۔
جزاک اللہ جناب۔ پسندیدگی کا شکریہ
 
کیا ہی بات ہے خلیل بھائی آپ۔ ماشاء اللہ ماشاء اللہ
جزاک اللہ جناب۔ پسند یدگی کا شکریہ

بہت خوب جنابِ والا :) ۔۔۔ بہت ہی اچھوتا خیال ۔۔۔ ہمیں بہت پسند آیا :) ۔۔۔ ۔ اللہ آپ کے ہنر کو مزید تقویت عطا فرمائے :) ۔۔۔
جزاک اللہ جناب۔ پسندیدگی کا شکریہ
 
Top