محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایک منظوم ڈرامہ
ترتیب و پیشکش: محمد خلیل الرحمٰن
( گزشتہ دنوں محفل کی ایک لڑی ’فی البدیہہ شاعری ‘ میں ایک انتہائی دلچسپ مکالمہ ہوا جو محفلین کی دلچسپی کے لیے ایک منظوم ڈرامے کی شکل میں ، ایک نئی ترتیب میں پیش ہے)
( محمد احمد، سعود ابنِ سعید اور استاد عبید آپس میں فیصل عظیم فیصل کے متعلق باتیں کرتے ہوئے)
محمد احمد:
چھڑ گیا ذکر ان کا محفل میں
ان سے کہیے کہ اب تو آجائیں
سعود ابنِ سعید:
ہم نے ان سے کہا کہ آجائیں
پر وہ کہتے ہیں ہم نہ آئیں گے
ہاں مگر اتنی لاج رکھ لی ہے
گھر پہ بیٹھیں گے مسکرائیں گے
استاد اعجاز عبید:
شاہ فیصل اگر نہیں آئیں
ساری دنیا خموش رہتی ہے
سعود ابنِ سعید:
ان کی آمد ذرا ذرا سی سہی
پر جب آتے ہیں خوب آتے ہیں
ان کے دم سے تھی روشنی ہر سو
پھروہ آنے لگے ذرا کم کم
(فیصل عظم فیصل اور محمد وارث داخل ہوتے ہیں)
فیصل عظیم فیصل:
روشنی دم بدم نہیں ہوتی
اور یہ کم بھی کم نہیں ہوتی
محمد وارث:
زخم دل کے ہرے سے ہونے لگے
کیوں یہ موضوع چھیڑا ہے ہمدم
فیصل عظیم فیصل:
وارثِ عشق دل سے زخمی ہے
بے رحم آنکھ نم نہیں ہوتی
(سعود ابنِ سعید سے مخاطب ہوکر)
گھر کا رخ تک نہیں کیا ہم نے
اب تلک دیس میں بدیسی ہیں
(استاد عبید سے مخاطب ہوکر)
شاہ فیصل ہے مملکت سے جدا
بیوی بچوں سے دور بیٹھا ہے
منہ سے اسکے بھی کچھ ندارد ہے
سر گریباں حضور بیٹھا ہے
آپ کی بندہ پروری ہے حضور
آپ سمجھے ہیں خوب آتے ہیں
استاد عبید:
بیوی بچے نہیں تو غم ہے کیوں
دل لگانے کو اردو محفل ہے
روز آیا کرو تو بہتر ہے
ورنہ تنہائی سمِ قاتل ہے
فیصل عظیم فیصل:
آپکو علم ہے مرے صاحب
ہم ہیں دیوانگی کے متعلم
چاہتیں آپ کی بہت ہم کو
ورنہ خاموش ہم ہیں متکلم
(محمد خلیل الرحمٰن داخل ہوتے ہیں)
سعود ابنِ سعید:
لوگ آتے ہیں لوگ جاتے ہیں
بعد مدت کے لوٹ آتے ہیں
ٹک تبسم بہت ضروری ہے
آؤ سب مل کے مسکراتے ہیں
محمد خلیل الرحمٰن:
تم جو آجاؤ تو ہم گھر کو سجالیں گے حضور
ورنہ تنہائی ہمیں کاٹنے آئے گی ضرور
فیصل عظیم فیصل:
ہم وہاں تھے تو سدا دور کیا کرتے تھے
آج ہم دور ہیں تو گھر کا سجانا کیسا
محمد خلیل الرحمٰن :
لوگ جاتے ہیں ، بھول جاتے ہیں
پیچھے ان کے جو رشتے ناطے ہیں
ہم نے مانا کہ لوٹ آؤ گے
یاد کے ہم دیے جلاتے ہیں
فیصل عظیم فیصل:
رشتے ناطے ضرورتوں کے سراب
اس لیئے لوگ بھول جاتے ہیں
جانے والے کو پھول کر سارے
پھر نئی "محفلاں" سجاتے ہیں
محمد خلیل الرحمٰن :
آپ ایسے جو مسکراتے ہیں
پھول گویا نظر چراتے ہیں
آپ کی مسکراہٹوں پہ فدا
ہم تو ویسے ہی ہوتے جاتے ہیں
فیصل عظیم فیصل:
جب ملو مسکرا کے ملتے ہو
اپنے سب دکھ چھپا کے ملتے ہو
دور اس سے نفاق ہوتا ہے
جب کبھی دل ملا کے ملتے ہو
(جاری ہے)