محمد تابش صدیقی
منتظم
لے آئی کہاں مجھ کو خیالات کی زنجیر
یہ کون سا میدان ہے زیرِ فلکِ پیر
سچ دیکھ رہا ہوں کہ نگاہوں کی ہے تزویر
اف معرکۂ کرب و بلا کی ہے یہ تصویر
افواجِ عدو وہ ہیں اِدھر خیمۂ شبیرؓ
سب آلِ نبیؐ آئے ہیں فطرت ہے عناں گیر
اُس سمت سیہ بختی اِدھر خوبی تقدیر
ظلمت کا اُدھر رنگ اِدھر عالمِ تنویر
وہ پہلوئے تخریب اِدھر جذبۂ تعمیر
نکبت ہے اُدھر اور اِدھر جلوۂ توقیر
دشمن ہیں تلے جنگ پہ اِن کو ہے تامّل
عجلت میں ہے شر جبکہ اِدھر خیر کو تاخیر
دشمن نے پہل کی وہ چھڑا سلسلۂ جنگ
خنجر وہ چلے اور برسنے وہ لگے تیر
شیدائی اسلام بھی ایک ایک بڑھا ہے
ہیبت کا سماں چھایا ہے از نعرۂ تکبیر
اف خونِ شہیداں کا وہ اک سیلِ رواں ہے
آزردہ و رنجور ہے از حد دلِ شبیرؓ
اب آپ کی باری ہے بڑھے جانبِ اعدا
کوندی ہے کوئی برق جو لہرائی ہے شمشیر
پیاسے تھے بہت نوش کیا جامِ شہادت
تکمیل کو یوں پہنچی ہے اللہ کی تقدیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا فخرِ امامت
پائندہ ترے خون سے اسلام کی تعمیر
مجلس میں شہیدوں کی تمہیں صدر نشیں ہو
اورنگِ شہادت پہ نظر آئے تمہیں میر
اللہ کو دینا تھا تمہیں اوجِ شہادت
جس کے لئے سوچی گئی یہ غیب سے تدبیر
خوشنودی خلاقِ دو عالم تمہیں حاصل
عظمت تری باندی ہے تو جنت تری جاگیر
مٹ جائے یہ دنیا بھی تو مٹنے کی نہیں ہے
ہے جزوِ رَفعنا لَکَ ذِکرک تری تشہیر
اس طرح کسے یاد کیا جاتا ہے واللہ
ہر ایک ہے سینہ سے لگائے غمِ شبیرؓ
دیکھا ہے تری یادِ مقدس کا نظارا
اشکوں سے وضو کرتی ہیں آنکھیں پئے تطہیر
بے نام و نشاں ہو گئے دشمن ہی تمہارے
تم اب بھی نگاہوں میں جہاندار و جہانگیر
انساں کے لئے درس ہے عرفانِ خودی کا
قرطاسِ زمانہ پہ ترے خون کی تحریر
درگاہِ خداوند سے طالب ہوں اسی کا
بھر دے مرے دل میں ترے اخلاص کی تاثیر
اسلام میں آمیزشِ باطل ہو نظرؔ جب
لازم ہے تجھے پیرویِ حضرتِ شبیرؓ
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
یہ کون سا میدان ہے زیرِ فلکِ پیر
سچ دیکھ رہا ہوں کہ نگاہوں کی ہے تزویر
اف معرکۂ کرب و بلا کی ہے یہ تصویر
افواجِ عدو وہ ہیں اِدھر خیمۂ شبیرؓ
سب آلِ نبیؐ آئے ہیں فطرت ہے عناں گیر
اُس سمت سیہ بختی اِدھر خوبی تقدیر
ظلمت کا اُدھر رنگ اِدھر عالمِ تنویر
وہ پہلوئے تخریب اِدھر جذبۂ تعمیر
نکبت ہے اُدھر اور اِدھر جلوۂ توقیر
دشمن ہیں تلے جنگ پہ اِن کو ہے تامّل
عجلت میں ہے شر جبکہ اِدھر خیر کو تاخیر
دشمن نے پہل کی وہ چھڑا سلسلۂ جنگ
خنجر وہ چلے اور برسنے وہ لگے تیر
شیدائی اسلام بھی ایک ایک بڑھا ہے
ہیبت کا سماں چھایا ہے از نعرۂ تکبیر
اف خونِ شہیداں کا وہ اک سیلِ رواں ہے
آزردہ و رنجور ہے از حد دلِ شبیرؓ
اب آپ کی باری ہے بڑھے جانبِ اعدا
کوندی ہے کوئی برق جو لہرائی ہے شمشیر
پیاسے تھے بہت نوش کیا جامِ شہادت
تکمیل کو یوں پہنچی ہے اللہ کی تقدیر
سرخیلِ شہیدانِ وفا فخرِ امامت
پائندہ ترے خون سے اسلام کی تعمیر
مجلس میں شہیدوں کی تمہیں صدر نشیں ہو
اورنگِ شہادت پہ نظر آئے تمہیں میر
اللہ کو دینا تھا تمہیں اوجِ شہادت
جس کے لئے سوچی گئی یہ غیب سے تدبیر
خوشنودی خلاقِ دو عالم تمہیں حاصل
عظمت تری باندی ہے تو جنت تری جاگیر
مٹ جائے یہ دنیا بھی تو مٹنے کی نہیں ہے
ہے جزوِ رَفعنا لَکَ ذِکرک تری تشہیر
اس طرح کسے یاد کیا جاتا ہے واللہ
ہر ایک ہے سینہ سے لگائے غمِ شبیرؓ
دیکھا ہے تری یادِ مقدس کا نظارا
اشکوں سے وضو کرتی ہیں آنکھیں پئے تطہیر
بے نام و نشاں ہو گئے دشمن ہی تمہارے
تم اب بھی نگاہوں میں جہاندار و جہانگیر
انساں کے لئے درس ہے عرفانِ خودی کا
قرطاسِ زمانہ پہ ترے خون کی تحریر
درگاہِ خداوند سے طالب ہوں اسی کا
بھر دے مرے دل میں ترے اخلاص کی تاثیر
اسلام میں آمیزشِ باطل ہو نظرؔ جب
لازم ہے تجھے پیرویِ حضرتِ شبیرؓ
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی