نظر لکھنوی منقبت حضرت امام حسینؓ ::کوئی کہاں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو تراب

دادا مرحوم کی منقبت بحضور امام عالی مقامؓ

کوئی کہاں ہے مثلِ حسینؓ ابنِ بو ترابؓ
چشمِ فلک نے ایک ہی دیکھا ہے آفتاب

وہ روئے پاک جیسے کوئی سورۂ کتاب
آنکھوں میں ایسی آب خجل جس سے دُرِّ ناب

صد رشکِ آفتاب ہے صد رشکِ ماہتاب
نظریں نہ ٹھہریں جس پہ سراپا وہ لا جواب

یہ مردِ متقی ہیں یہ ہیں سبطِ آنجنابؐ
پردے میں شب کے دیکھ الیٰ ربہٖ متاب

ان کی دعائیں دیکھ ہیں کس درجہ مستطاب
درگاہِ مستجیب میں فی الفور مستجاب

مردِ جری ہیں شیر ہیں شبیرؓ ہے خطاب
ثانی نہیں ہے کوئی نہ ان کا کوئی جواب

یہ ہیں حریمِ عشق میں واللہ باریاب
کیا مرتبہ ہے خود ہی لگا لیجئے حساب

دینِ محمدی میں کہ در آیا انقلاب
تھے پاسبانِ دیں تو اٹھے بہرِ سدِ باب

گرمی وہ کربلا کی وہ پروردۂ سحاب
لگتا نہیں ہے ہم سے کچھ اندازۂ عِقاب

تھے اِس طرف عُقاب اُدھر لشکرِ غراب
تھا قتل و خوں سے مردِ صفا کو پر اجتناب

شیریں سخن نے صبر و تحمل سے بات کی
دشمن تلے تھے جنگ پہ لیکن بصد عتاب

ہونا تھا اور معرکۂ کربلا ہوا
خونیں ردا کو اوڑھ کے ڈوبا یہ آفتاب

چیخیں اٹھیں قیامت اٹھی آہِ دل اٹھی
اٹھا سناں پہ جبکہ سرِ لاشۂ جناب

ان کے لئے شہادتِ عظمیٰ لکھی گئی
ہم کیا کہیں کہ تھا وہ مشیت کا انتخاب

خوانِ کرم سے جس کے سبھی فیضیاب ہیں
اس پر پڑا یہ وقت کہ نانِ جویں نہ آب

پانی پہنچ سکا نہ جو ان تک تو آج تک
پانی جہاں جہاں ہے وہیں پر ہے آب آب

میں خود نہ کچھ کہوں گا زمانہ سے پوچھئے
نا کامیاب کون، رہا کون کامیاب

جس کو ہو عشقِ دیں اسے جاں بھی نہیں عزیز
دنیا ہو کیا عزیز کہ دنیا تو ہے سراب

فتنے یزیدیت کے جہاں بھی ہوں رونما
لازم ہے ہم پہ پیرویِ ابنِ بو ترابؓ

زہرہ گداز اپنا بیاں ختم کر نظرؔ
پیدا ہے دل میں سوز جگر میں ہے التہاب



محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top