عثمان
محفلین
چلئے۔۔ پھر مجھے آپ کا بیان سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔یہ تو (بالکل )وہی بات ہوئی۔
چلئے۔۔ پھر مجھے آپ کا بیان سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔یہ تو (بالکل )وہی بات ہوئی۔
اس سے ملتا جلتا فراز کا ایک اور شعرکیا زمیں کے مسئلے حل ہوگئے؟
کس لیئے سوئے قمر جاتے ہیں لوگ
بہرحال ہندوستان کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ میری طرف سے بھی تما م بھارتی دوستوں کوبہت بہت مبارکباد۔
ہود بھوائے صاحب کے تبصرے کے بارے میں احباب کی کیا رائے ٹھہرتی ہے ؟ان کے بقول اگلے سو سال تک اس کا کوئی خآص فائدہ نہیں ۔ مگر سخت غربت و افلاس کے باوجود ایسے تجربات ہونے چاہیئں۔
کیا زمیں کے مسئلے حل ہوگئے؟
کس لیئے سوئے قمر جاتے ہیں لوگ
[…]
[خلائی سفر کے لیے بنائے جانے والے انتہائی اعلٰی سسٹمز کے نتیجے میں] حاصل ہونے والا یہ تمام علم زمین سے متعلق ٹیکنالوجیز کے لیے بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ہر سال خلائی پروگرام میں جنم لینے والی تقریباً ایک ہزار جدتیں زمینی ٹیکنالوجیز میں بھی داخل ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے کچن کی بہتر مصنوعات، کاشتکاری کا بہتر ساز و سامان، بہتر سلائی مشینیں اور ریڈیو، بہتر بحری اور ہوائی جہاز، موسم کی پیش گوئی اور طوفان سے خبردار کرنے کے بہتر آلات، بہتر مواصلات، بہتر طبّی اوزار، بہتر ظروف اور روزمرہ زندگی کا بہتر سامان ممکن ہوتا ہے۔ غالباً آپ کا اگلا سوال یہ ہوگا کہ آخر چاند پر جانے والے خلا بازوں کی زندگی محفوظ کرنے والے سسٹمز کی تیاری پہلے، اور دل کے مریضوں کے لیے دور سے کام کرنے والے سینسر کی ایجاد بعد میں کیوں کی جائے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے: تکنیکی مسائل کے حل میں اہم پیش رفت اکثر کسی براہ راست کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتی، بلکہ ایک بڑے چیلنج کے لیے مقرر کیے جانے والے ہدف کے ذریعے ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انتہائی اختراعی کام کی تحریک ملتی ہے، جو لوگوں کے تخیل کو بڑھانے اور مزید سے مزید محنت کا سبب بنتی ہے، اور جس کے ردِّ عمل کی وجہ سے دیگر علوم اور میدانوں میں ترقی دیکھنے کو ملتی ہے۔
[…] مریخ کا سفر یقیناً قحط زدہ لوگوں کے لیے خوراک کا براہِ راست ذریعہ نہیں بنے گا۔ لیکن اس پروجیکٹ کے ضمنی اثرات کے نتیجے میں کہیں زیادہ نئی ٹیکنالوجیز، سہولیات، اور پروجیکٹس پیدا ہوں گے، جو اس کی قیمت سے کہیں زیادہ مفید اور سود مند ثابت ہوں گے۔
ایسا ہی کچھ میں نے بھی شیئر کیا تھا ۔۔۔ لیکن وہی بات جب ہم کچھ کہیں تو وہ بات سب کو ناگوار ہی گزرتی ہے۔۔تھوڑا سا آف ٹاپک ہونے پر معذرت، مگر منگلیان مشن پر 450 کروڑ یعنی ساڑھے چار ارب انڈین روپے لگے ہیں جس کو ڈالرز میں 74 ملین ڈالرز سمجھ لیں۔ فی کلومیٹر قیمت کے لئے ٹوٹل فاصلہ یہاں سے دیکھ لیں۔ اس کے مقابل 24 کلومیٹر طویل پاکستانی راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پر 24 ارب روپے لگ رہے ہیں جو ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ فی کلومیٹر ایک ارب روپے یعنی لگ بھگ ایک کروڑ ڈالر یعنی دس ملین ڈالر۔ 24 کلومیٹر کے 240 ملین ڈالر ہوئے۔۔۔میرا نہیں خیال کہ اس "آف ٹاپ موضوع" پر مزید بحث ہو سکے
ویسے ان مبارک بار دینے اور لینے والوں میں کوئی ہندوستانی بھی ہے ابھی تک ؟
ہود بھوائے صاحب کے تبصرے کے بارے میں احباب کی کیا رائے ٹھہرتی ہے ؟ان کے بقول اگلے سو سال تک اس کا کوئی خآص فائدہ نہیں ۔ مگر سخت غربت و افلاس کے باوجود ایسے تجربات ہونے چاہیئں۔
آپ شاید بدر اول کی بات کر رہے ہیں جس کا مشن ہی مختصر تھا اور 35 دن میں پورا ہو گیا تھا۔ بدر اول کے اہداف پڑھ کر آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ ایک تجرباتی سیٹلائٹ تھا جس کا مقصد آئندہ سیٹلائٹس کی تیاری کے لیے ڈیٹا جمع کرنا تھا۔ ذرا مشن کے صفحے پر موجود ان الفاظ پر غور کریں۔پاکستان کا بدر 32 دن اپنے زمینی مدار میں رہا پھر فضامیں اپنے مدار میں رہا اور پھر آوارہ ہو گیا۔ ہم انجینئرنگ فائنل ایئر میں سپارکو کے دورے پر گئےاپنے نیویگیشن سسٹمز کے استاد کے ساتھ تو 1995 میں ہمیں وہاں یہ پتہ چلا تھا۔یہ زمین کے گرد تھا۔اب یہاں دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔
کیا مطلب ؟یا د پڑتا ہے کہ اسے مدار میں بھیجنے کے لیے چین یا روس سے مدد لی گئی تھی ۔البتہ ٹھیک سے یاد نہیں ۔بائی دا وے، کیا آپ کو معلوم تھا کہ بدر اول کو لے کر جانے والا راکٹ "لانگ مارچ" نامی خاندان سے تعلق رکھتا تھا؟
چین کا ہی لانگ مارچ 2E راکٹ تھا۔کیا مطلب ؟یا د پڑتا ہے کہ اسے مدار میں بھیجنے کے لیے چین یا روس سے مدد لی گئی تھی ۔البتہ ٹھیک سے یاد نہیں ۔
ویسے بدر ۔ ب ۔کب سے سروس میں ہے ؟
کیا اب پاکستان کے پاس اپنا آربٹ لانچنگ نظام ہے ۔ ؟۔۔۔۔چین کا ہی لانگ مارچ 2E راکٹ تھا۔
بدر۔ ب۔ 10 دسمبر 2001ء کو "پھینکا" گیا تھا۔
بلوچستان میں سومیانی میں ایک خلائی سینٹر ہے،جہاں سے راکٹس لانچ کیے جاتے ہیں۔ ناسا بھی اسے استعمال کرتا رہا ہے۔کیا اب پاکستان کے پاس اپنا آربٹ لانچنگ نظام ہے ۔ ؟۔۔۔۔