منہاج العابدین ؛ تصنیف امام ہماّم حجۃالاسلام حضرت امام غزالی رحمۃاللہ علیہ

مہ جبین

محفلین
اس کتاب کا ترجمہ و حواشی مولانا محمد سعید نقشبندی رحمۃاللہ نے کیا ہے جو مسجد داتا گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کے خطیب اور امام ہیں
میں کوشش کروں گی کہ کچھ منتخب اقتباسات اس کتاب سے آپ سب کی خدمت میں پیش کرسکوں
طالبِ دعائے خیر

سب سے پہلے ایک پیاری حدیث پیشِ خدمت ہے ؛۔
سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے محوِ گفتگو تھے کہ وحی آئی " یہ شخص جو آپ کے ساتھ بات کر رہا ہے اس کی عمر صرف ایک ساعت اور باقی رہ گئی ہے "
وہ عصر کا وقت تھا ، سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو اس بات سے آگاہ فرمایا تو وہ بیقرار ہوگئے اور عرض کیا
" یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائیے جو اِس وقت میرے لئے زیادہ مناسب ہو، سرکارِ دوعالم سلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اِشتغل با لتعلم یعنی علم حاصل کرنے میں مشغول ہوجاؤ"
تو وہ علم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے اور مغرب سے قبل انتقال فرماگئے
راوی کا کہنا ہے کہ اگر علم سے افضل کوئی اور چیز ہوتی تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میں اسی کے کرنے کا حکم فرماتے ، سبحان اللہ یہ ہے علم کی فضیلت
 

مہ جبین

محفلین
کتاب کا آغاز اِن الفاظ سے ہوتا ہے؛۔
سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام کائنات کا مالک ہے ، جس نے تمام موجودات کو اپنی حکمتِ کاملہ سے ترتیب دیا ۔ جو حکیم، جواد، غالب اور کریم جیسے اعلیٰ صفاتی اسماء سے متصف ہے ، جس نے انسان کو بہترین فطرت پر پیدا فرمایا۔ اور زمین و آسمان جیسی عظیم مخلوق کو اپنی قدرتِ کاملہ سے وجود کا جامہ پہنایا ۔ اور جس نےدونوں جہان کے امور کو احسن طریقے پر چلایا ۔ اور جنّ و انس کو صرف اپنی ہی عبادت کے لئے پیدا فرمایا
لقائے الٰہی کا قصد کرنے والوں کے لئے اس تک پہنچنے کے لئے راہیں کشادہ کی ہیں ، اور غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس کی ہستی پر واضح دلائل موجود ہیں ۔۔۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت کی راہ دکھائے۔
اور قیامت تک حضور پر نور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپکی آل اور آپکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر، جو ظاہر و باطن میں طیب و طاہر تھے، اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی رہےاور ہمیشہ آپکی اور آپکے متعلقین کی عظمت قائم رہے آمین

اماّ بعد؛ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
ترجمہ ، میں ہی تمہارا رب ہوں اسلئے میری ہی عبادت کرو
ایک اور جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛
ترجمہ؛ جنتیوں کو جنت میں داخل ہوتے وقت کہا جائے گا ، یہ تمہارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش ( جو تم نے دنیا میں کی مقبول ہوئی)
آیاتِ مندرجہ بالا سے معلوم ہوا کہ جنت میں جانا اسی کو نصیب ہوگا جس نے دنیا میں کوشش کی اور کما حقہ خدا کی بندگی میں مصروف رہا ۔
اسلئے ہم نے عبادات کی حقیقت میں نظر کی ، اسکے طریقوں پر غور کیا، اسکے بنیادی امور اور اس مقاصد میں نظر دوڑائی جو سالِکِ راہِ آخرت کو درپیش ہیں تو غور کرنے سے معلوم ہوا کہ طریقِ عبادت نہایت دشوار اور مشکل ہیں اس راہ میں نہایت تنگ و تاریک گھاٹیاں عبور کرنی پڑتی ہیں ، شدید مشقّتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بڑی بڑی آفات راستے میں پیش آتی ہیں اور منزلِ مقصود تک پہنچنے میں بہت موانع اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں، اور طول و طویل مسافتوں کو طے کرنا پڑتا ہے ۔
غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادات کے راستے میں گو ناگوں ہلاکتیں اور تباہ کن چیزیں مخفی ہیں۔ اور یہ کہ یہ راستہ خطرناک دشمنوں اور ڈاکوؤں میں گھرا ہوا ہے ۔ اور یہ کہ اس راستے کی شاخیں اور فروعات سخت پیچیدہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر اس راستے کا ایسا مشکل اور پیچیدہ ہونا ضروری ہے ۔ اور جنت میں پہنچنا کوئی آسان نہیں۔
عبادات کا اتنا مشکل ہونا حضور علیہالصلوٰاۃ والسلام کے اس ارشاد کی تصدیق کرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا؛
" سن لو، جنت خلافِ نفس کام کرنے سے حاصل ہوگی، اور دوزخ میں لوگ شہوات کی پیروی کی وجہ سے جائیں گے"
اسی بارے میں آپکا ایک اور ارشاد ہے کہ؛
"سن لو، جنت اونچے ٹیلے پر سنگلاخ زمین کی طرح ہے اور دوزخ صحن میں نرم و ہموار زمین کی مانند ہے۔"
یعنی اول الذکر زمین میں کاشت کرکے پھل حاصل کرنا نہایت محنت طلب ہے
(جاری ہے)
 

مہ جبین

محفلین
(گذشتہ سے پیوستہ)
عبادت سے متعلقہ مشکلات کے ساتھ ساتھ انسان ایک کمزور مخلوق ہے اور زمانہ طرح طرح کی صعوبتوں سے لبریز ہے اور دین کا معاملہ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف رجوع کر رہا ہے ۔ پھر دنیوی مشغولیات بہت ہیں اور عبادت کے واسطے وقت بہت مختصر ہے ۔ ادھر انسان کی عمر بہت کم ہے ، اور مزید یہ کہ انسان اعمالِ صالحہ کی بجا آوری میں بہت لاپرواہی کرتا ہے یعنی خشوع و خضوع وغیرہ کا خیال بہت کم رکھتا ہے، اور جس ذات نے اعمال کو پرکھنا ہے وہ انتہائی بصیر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام پریشانیوں کے ساتھ ساتھ موت ہر ثانیہ قریب آرہی ہے ، اور انسان کو جو سفر درپیش ہے وہ بہت طویل ہے
مندرجہ بالا مشکلات میں گھرے ہوئے انسان کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس خطرناک اور ضروری سفر کا توشہ صرف عبادت ہے۔اور سفر میں زادِ راہ کا ہونا ضروری ہے ۔ اس زادِ راہ کو فراہم کرنے کا وقت تیزی سے بھاگ رہا ہے جو ہرگز واپس نہیں آئے گا ، تو جو شخص اس تھوڑے سے وقت میں زادِ آخرت تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا ، سمجھو وہ نجات پاگیااور اس نے ہمیشہ کی سعادت حاصل کرلی۔ لیکن جس احمق نے اس انتہائی قیمتی وقت کو لہو و لعب میں کھودیا اور زادِ آخرت مہیا نہ کرسکا تو وہ بلاشک ناکام و نامراد اور تباہ و برباد لوگوں میں سے ہوگیا۔
مذکورہ وجوہات کے باعث یہ عبادت جس قدر مشکل ہے اس کہیں زیادہ اہم بھی ہے ۔ اسی لئے اس سفر پر کمر بستہ ہونے والے تھوڑے ہیں۔ اور پھر جم کر استقلال سے اس سفر کی منازل طے کرنے والے اس سے بھی تھوڑے ہیں ۔ مگر منزلِ مقصود تک پہنچنے والے ہی خدا کو پیارے ہیں ۔
انہی کو اللہ نے اپنی محبت اور معرفت کے لئے چنا اور منتخب کیا۔ اور انہی لوگوں کو رب تعالیٰ توفیق و عصمت کے ساتھ مضبوط کرتا ہے۔ پھر یہی لوگ جنت الفردوس کے مستحق بنتے ہیں اور اس کی رضا کا مقام پاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تو ہم اللہ تعالیٰ سے (جس کا ذکر بلند ہے ) التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سعادت مند کرے اور کامیاب لوگوں میں شامل کرے آمین
(جاری ہے )
 
اس کتاب کا ترجمہ و حواشی مولانا محمد سعید نقشبندی رحمۃاللہ نے کیا ہے جو مسجد داتا گنج بخش رحمۃاللہ علیہ کے خطیب اور امام ہیں
نجانے یہاں بات کی اجازت ہے یا نہیں
مولامفتی سعید صاحب تھے۔ وہ ایک عرصہ دراز پہلے فوت ہو گئے تھے۔ پہلے ان کو دربار داتا صاحب کے سامنے جامعہ حنفیہ غوثیہ میں دفن کیا گیا تھا۔ پھر جب توسیع کی گئی تو وہ جامعہ بھی بھاٹی گیٹ کے سامنے از سر نو تعمیر ہوا اور مفتی صاحب کا تابوت دربار داتا صاحب کے احاطے میں شمالی جانب دفتروں کے آس پاس دفن کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس تابوت میں سے عرصہ دراز بعد خوشبو آ رہی تھی جیسے تازہ تازہ ہو۔
 
Top