منہاج القرآن لاہور میں کیا ہوا ؟۔۔۔ نجم سیٹھی کی زبانی

منہاج القرآن لاہور میں کیا ہوا ؟۔۔۔ نجم سیٹھی کی زبانی
کراچی (جنگ نیوز) ممتاز تجزیہ کار نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری حکومت کیلئے خطرہ ہیں، 30,40 ہزار لوگ اسلام آباد میں آجائیں تو مسئلہ ہوسکتا ہے، تاہم طاہرالقادری کو ماڈل ٹائون آپریشن کی طرز کا اشارہ دینا غلط فیصلہ تھا، رانا ثناء اللہ اس معاملے میں کھڑکا جبکہ رانا مشہود نے پنگانہ لینے کا مشورہ دیا تھا، شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ لے کر ثابت کردیا کہ یہی انہی کی سوچ تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت پریشان تھی کہ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد آ گئے تو پھر لاہور میں سیاسی مورچے بنائیں گے لانگ مارچ کریں گے،پھر کیا ہوگا ؟کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے کہ حکومت گرانے کے لئے آ رہے ہیں۔ وہ اس سے پہلے دکھا چکے ہیں کہ وہ مجمع اکٹھا کر لیتے ہیں پیسے کی بھی کمی نہیں، حکومت ان سے عمران خان کے مقابلے میں زیادہ خوفزدہ تھی ۔کیونکہ وہ انقلاب کی بات نہیں کر رہے محض چار نشستوں پر ووٹوں کی تصدیق کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے خلاف ایسا کرتے ہیں تو چوہدری برادران،شیخ رشید اور عمران خان بھی ساتھ دے سکتے ہیں ۔اگر آٹھ سے دس دن وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں تو خون خرابہ بھی ہوسکتا ہے ۔حکومت کی کوشش تھی کہ کسی بھی طریقے سے ڈاکٹر صاحب کی آمد کو منسوخ کرا دیاجائے،جیسے کہ عمران خان نے بھی اپنے جلسے منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔کیونکہ فوج آپریشن میں مصروف ہے۔اس سلسلے میں سوچ بچار شروع ہوگئی تھی ۔اسی لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے آنے سے پہلے ایسی اطلاعات آئیں کہ ان آنے سے پہلے منی لانڈرنگ اور معاشی معاملات دیکھے جائیں گے ۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وفاقی حکومت بھی اس حوالے سے دلچسپی لے رہی ہے ۔پہلا طریقہ تھا کہ طاہر القادری کو واپس نہ آنے کے لئے قائل کیا جائے اور دوسرا انہیں دھمکایا جائے ۔اس سلسلے میں میٹنگز بھی ہوئیں ۔پہلی میٹنگ میں ایف آئی اے پنجاب کے سربراہ ،ایف بی آر کے لوگ ،آئی بی پنجاب کے جوائنٹ ڈائریکٹر ،اسپیشل برانچ ،سی سی پی او اور ڈی آئی جی شریک ہوئے تھے ۔یہ محض بیورو کریٹس کی میٹنگ تھی ۔اس میں بنیادی سوال یہ تھا کہ اگر طاہر القادری آئیں انکے ساتھ کیا کیا جائے ؟ایک موقف تھا کہ انہیں گرفتار کیا جائے ۔دوسرا موقف تھا کہ انہیں آنے دیا جائے کچھ ہزار لوگ ہی انہیں لینے آئیں گے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس میٹنگ میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ۔بیورو کریٹس کی میٹنگ کے بعد ایک اور میٹنگ میں پنجاب کی سیاسی قیادت کے لوگ بھی شامل ہوئے ۔رانا ثناء اللہ کہتے تھے کہ کھڑکا دو ،جبکہ رانا مشہود کہتے تھے کہ پنگا نہ لیا جائے۔ راجہ اشفاق سرور بھی نہیں چاہتے تھے کہ ایسا ہو۔ مگر پیچھے سے یہی بات چل رہی تھی کہ طاہر القادری کو سختی کا اشارہ دیا جائے ۔اس حوالے سے کارروائی پر اتفاق ہوگیا ۔کمشنر ،سی سی پی او کی میٹنگ بھی ہوئی۔ ایک بیورو کریٹ جو کہ وزیر اعلیٰ کے بہت قریب تھے انہوں نے افسران کو یہی تاثر دیا کہ سختی ہی کرنی ہے۔ کمشنر اور سی سی پی او نے یہی سمجھا کہ وزیر اعلیٰ بھی ایسا چاہتے ہیں ۔اس سلسلے میں ہدایات تھیں کہ صرف ایک تھانے سے پندرہ بیس پولیس والے ہی ایس ایچ او کے ساتھ بھیجے جائیں ،بیورو کریٹس چاہتے تھے کہ اس کام کو کر بھی لیاجائے اور لو پروفائل بھی رکھا جائے ۔یہ لوگ وہاں گئے اور بیریئرز ہٹانے کا مطالبہ کیا مگر وہاں موجود لوگوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ اس پر ادارہ منہاج القرآن کے ہاسٹل سے طالب علم بھی آ گئے ۔پولیس کو سٹے آرڈر بھی دکھایا گیا مگر اس سٹے آرڈر میں بیریئرز لگانے کا حکم نہیں تھا صرف پولیس کو یہ ہدایت تھی کہ طاہر القادری کو سیکورٹی فراہم کرنے میں مدد دیں ۔بیر ئیرز انہوں نے خود ہی بنا لئے ۔تحریک منہاج کے لوگوں نے فون کر کے اپنے مزید بندے اکٹھے کر لئے ۔اس پر مجمع جمع ہونا شروع ہوگیا ۔پولیس ڈر گئی کہ مزاحمت ہوسکتی ہے ۔پولیس پر پتھرائو بھی شروع ہوگیا ۔اس پر پولیس نے آٹھ سے دس تھانوں سے دو سے تین سو بندے بلا لئے ۔گلو بٹ پولیس کے ٹائوٹ ہیں انکی ہمدردیاں تو ن لیگ کے ساتھ ہیں مگر یہ ن لیگ کے کارکن نہیں ۔سینئر افسران نے سی سی پی او کوفون کیا جس پر سی سی پی او نے کہا کہ اس صورتحال پر احتیاط سے کام لیں ۔صبح ساڑھے چھ بجے طاہر القادری کا فون آیا جس پر لوگ مزید جذباتی ہوگئے ۔اس کے بعد پولیس کبھی پیچھے ہٹی کبھی آگے گئی کبھی پیچھے گئی کبھی آ گے آئی ۔اور بالا آخر گیارہ بجے کے بعد حملہ ہوا اور اس میں لوگ مارے گئے۔نجم سیٹھی کے مطابق طاہر القادری کو ماڈل ٹائون آپریشن کی طرز کا اشارہ دینے کا فیصلہ غلط تھا ۔جب وہاں معاملات خراب ہورہے تھے تو پیچھے ہٹ جانا چایئے تھا ۔اس پر ہمدردی حاصل ہوتی جبکہ اگر بیورو کریسی وزیر اعلیٰ کو یہ کہتی کہ اس آ پریشن سے کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے تو وزیر اعلیٰ کہہ سکتے تھے کہ تیاری کیوں نہیں کی ؟کسی بیورو کریٹ میں جرات نہیں کہ وزیر اعلیٰ سے اختلاف رائے کر سکے۔ شہبازشریف نے رانا ثناء اللہ سے ا ستعفیٰ ٰ طلب کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ رانا ثنا ء اللہ کی ہی سوچ تھی ۔جبکہ اس سلسلے میں دوسرا کردار پرنسپل سیکر ٹری داکٹر توقیر شاہ کا تھا ۔توقیر شاہ بہت مضبوط ہیں اور وزیر اعلیٰ کا سیکر ٹریٹ چلاتے ہیں ۔ڈاکٹر توقیر ہی آرڈرز دے رہے تھے ۔سی سی پی او،ایس پی اور ڈی آئی جی آپریشنز جبکہ سیاسی طور پر رانا ثنا ء اللہ اور ڈاکٹر توقیر کا ان سب میں کردار واضح ہے ۔نجم سیٹھی نے کے مطابق وزیر اعلیٰ کو اس حوالے سے اپنا کردار بھی واضح کرنا ہوگا کہ اس سارے معاملے میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا۔
 
میرے ایک دوست جو منہاج القرآن کے ہمدرد بھی ہیں اور ن لیگ کے بھی۔ کل رات ان سے سکائپ پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس کے لوگ منہاجیوں کو سبق سکھانے ہی گئے تھے۔ مگر گولی چلانے کا پروگرام نہیں تھا۔ جس طرح حالات بگڑے یہ حکومت کے خلاف کوئی سازش لگتی ہے۔
 
میرے ایک دوست جو منہاج القرآن کے ہمدرد بھی ہیں اور ن لیگ کے بھی۔ کل رات ان سے سکائپ پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس کے لوگ منہاجیوں کو سبق سکھانے ہی گئے تھے۔ مگر گولی چلانے کا پروگرام نہیں تھا۔ جس طرح حالات بگڑے یہ حکومت کے خلاف کوئی سازش لگتی ہے۔

میرا بھی یہی خیال ہے کہ پروگرام قادری کے لوگوں کی دھنائی کرنے کا تھا مگر بعد میں بات ہاتھ سے نکل گئی اور معصوم لوگوں کی شہادت ہوئی
 

زلفی شاہ

لائبریرین
پروگرام تو حالات نے واضح کر دیا اور آزاد میڈیا نے بھی کوئی قصر نہیں اٹھا رکھی۔ ایک بات تو اس آپریشن سے واضح ہو گئی کہ شریف برادران نے سب اداروں کو اپنی نوکر شاہی پر لگا رکھا ہے۔ پھر پولیس والے چند ٹکوں کی نوکری کی خاطر ایسا کردار ادا کر رہے تھے جیسے وہ انسان نہیں بھیڑیے ہوں۔ سیاستدانوں اور پولیس والوں کے غلیظ چہروں سے خوب پردہ اٹھا۔ اس سانحہ کی ویڈیو جو بھی انسان دیکھے گا وہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ پولیس والوں سے بھی انتہائی نفرت کرے گا۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
کتنی بیوقوفی کی بات ہے کہ ایک طرف ہم وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریش کرنے جا رہے ہیں اور دوسری طرف اس بندے کے گھر کے سامنے سے بیریئر اٹھانے جا رہے ہیں جس نے اپنی تقریروں اور فتووں کے ذریعے سےطالبان کو ہمیشہ روندا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نجم سیٹھی حسبِ سابق کچھ لوگوں کو بے قصور اور "شریف" ثابت کر گئے، حالانکہ اس سارے قضیے میں کئی ایک سوالات جواب طلب ہیں جن کا جواب نجم سیٹھی تو کیا کسی نے بھی نہیں دیا۔

مثلاً، عموماً مجمعوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس آنسو گیس وغیرہ کا استعمال کرتی ہے یا اوپر کی طرف ہوا میں فائرنگ کرتی ہے، یہاں تو سیدھی گولیاں چلی ہیں۔کیوں؟ یعنی ایسے کون سے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ پولیس کو انتہائی اقدام کے طور پر سیدھی گولیاں چلانی پڑیں؟

گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ کیا رانا ثنا اللہ نے؟

اگر وزیر اعلیٰ نے گولی چلانے کا حکم دیا تھا تو وہ براہِ راست ذمہ دار ہے کہ یہ انتہائی فیصلہ کیوں کیا؟ کیا محرکات تھے، وجہ معلوم کرنا عوام کا حق ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کا فیصلہ صحیح تھا تو عوام کو اس فیصلے کی وجوہات بتائی جائیں۔ اگر غلط فیصلہ کر لیا گیا تھا تو کیوں ایسا غلط فیصلہ کیا گیا اور غلط فیصلے کی سزا ملنی چاہیے۔

اگر گولی چلانے کا حکم وزیراعلیٰ نے نہیں دیا تھا اور اس کے علم کے بغیر یہ سب ہوا یا بقول شخصے سازش ہوئی ہے تو وہ کیسا وزیر اعلیٰ ہے کیونکہ آخر میں ساری ذمہ داری تو اسی پہ آنی تھی۔ کیا ایسے وزیر اعلیٰ کو اپنے عہدے پر رہنے کا حق ہے کہ اس کے ناک کے نیچے ایک انتہائی قدم اٹھایا جا رہا تھا جس کا ذمہ دار بلآخر اُسی نے بننا تھا اور اُسے اِس کا علم ہی نہیں تھا۔

طاہر القادری کی رہایش کی دوسری منزل پر، جہاں اس کے بیٹے رہایش پذیر ہیں، وہاں گولیوں کے نشانات ہیں اور وہ نشان ظاہر کرتے ہیں کہ گولیاں نیچے سے اوپر کی طرف نہیں آئیں بلکہ سیدھی آئی ہیں اور بلندی سے چلائی گئی ہیں یعنی اس گھر کے سامنے ایک گھر اور ایک سرکاری عمارت سے۔ تو کیا یہ سب بھی بیرئیرز ہٹانے کے لیے تھا؟

یہ یقیناً کوئی گھمبر کھیل کھیلا گیا ہے اور پاکستان میں ہونے والے بہت سے واقعات کی طرح اس واقعے کے بھی اصل حقائق کبھی عوام کے سامنے نہیں آئیں گے۔ افسوس صد افسوس۔
 
نجم سیٹھی حسبِ سابق کچھ لوگوں کو بے قصور اور "شریف" ثابت کر گئے، حالانکہ اس سارے قضیے میں کئی ایک سوالات جواب طلب ہیں جن کا جواب نجم سیٹھی تو کیا کسی نے بھی نہیں دیا۔

مثلاً، عموماً مجمعوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس آنسو گیس وغیرہ کا استعمال کرتی ہے یا اوپر کی طرف ہوا میں فائرنگ کرتی ہے، یہاں تو سیدھی گولیاں چلی ہیں۔کیوں؟ یعنی ایسے کون سے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ پولیس کو انتہائی اقدام کے طور پر سیدھی گولیاں چلانی پڑیں؟

گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ کیا رانا ثنا اللہ نے؟

اگر وزیر اعلیٰ نے گولی چلانے کا حکم دیا تھا تو وہ براہِ راست ذمہ دار ہے کہ یہ انتہائی فیصلہ کیوں کیا؟ کیا محرکات تھے، وجہ معلوم کرنا عوام کا حق ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کا فیصلہ صحیح تھا تو عوام کو اس فیصلے کی وجوہات بتائی جائیں۔ اگر غلط فیصلہ کر لیا گیا تھا تو کیوں ایسا غلط فیصلہ کیا گیا اور غلط فیصلے کی سزا ملنی چاہیے۔

اگر گولی چلانے کا حکم وزیراعلیٰ نے نہیں دیا تھا اور اس کے علم کے بغیر یہ سب ہوا یا بقول شخصے سازش ہوئی ہے تو وہ کیسا وزیر اعلیٰ ہے کیونکہ آخر میں ساری ذمہ داری تو اسی پہ آنی تھی۔ کیا ایسے وزیر اعلیٰ کو اپنے عہدے پر رہنے کا حق ہے کہ اس کے ناک کے نیچے ایک انتہائی قدم اٹھایا جا رہا تھا جس کا ذمہ دار بلآخر اُسی نے بننا تھا اور اُسے اِس کا علم ہی نہیں تھا۔

طاہر القادری کی رہایش کی دوسری منزل پر، جہاں اس کے بیٹے رہایش پذیر ہیں، وہاں گولیوں کے نشانات ہیں اور وہ نشان ظاہر کرتے ہیں کہ گولیاں نیچے سے اوپر کی طرف نہیں آئیں بلکہ سیدھی آئی ہیں اور بلندی سے چلائی گئی ہیں یعنی اس گھر کے سامنے ایک گھر اور ایک سرکاری عمارت سے۔ تو کیا یہ سب بھی بیرئیرز ہٹانے کے لیے تھا؟

یہ یقیناً کوئی گھمبر کھیل کھیلا گیا ہے اور پاکستان میں ہونے والے بہت سے واقعات کی طرح اس واقعے کے بھی اصل حقائق کبھی عوام کے سامنے نہیں آئیں گے۔ افسوس صد افسوس۔

مجھے لگ رہا ہے کہ قادری کے پاکستان انے پر بھی کچھ گڑبڑ ہوگی۔ خدانہ خواستہ قادری ہی کو نشانہ بنایاجائے۔
 
یہ کون ہے ؟۔۔۔ سانحہ لاہور کا نیا پراسرار کردار سامنے آ گیا
386223_75270399.jpg.pagespeed.ce.RMjKW1TodV.jpg

سادہ لباس نوجوان نے پولیس کے سامنے دل کھول کر جلاؤ، گھیراؤ، پتھراؤ کیا کہیں ہجوم کی آڑ میں حکومت کیخلاف سازش تو نہیں ہوئی:سوالات اٹھنے لگے
لاہور (دنیا نیوز) سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں گلو بٹ نے جو تباہی مچائی وہ تو سب نے دیکھی لیکن دنیا نیوز ایسا ہی ایک اور کریکٹر بھی سامنے لایا ہے جس نے پولیس کے سامنے دل کھول کر جلاؤ ،گھیراؤ اور پتھراؤ کیا۔ یہ گمنام کردار کون ہے ؟ یہ ابھی ایک معمہ ہے لیکن کئی سوال ضرور سامنے آئے ہیں اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کہیں ہجوم کی آڑ میں حکومت کے خلاف کوئی سازش تو نہیں ہوئی۔دنیا نیوز کی فوٹیج میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کے درمیان سادہ لباس میں موجود یہ نوجوان مخالفین پر پتھراؤ کر رہا ہے اور اس کے دونوں ہاتھوں میں پستول بھی ہے ۔ یہ نوجوان رات کو پولیس کے سامنے آگے بڑھ کر لوگوں پر پتھراؤ کرتا ہے جس کے بعد پولیس پارٹی بھی تیزی سے پیش قدمی کرکے لوگوں پر جھپٹ پڑتی ہے ۔ ایک اور جگہ یہ شخص پستول کے ساتھ نظر آتا ہے ۔کبھی سامنے آتا ہے اور کبھی اچانک کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ کبھی مزے سے ٹیلی فون پر گفتگو میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ یہی نوجوان جب میدان مار کر آتا ہے تو دوسرے اس کو گلے لگاتے ہیں اور یہ گالیاں بھی دیتا ہے ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ایک کردار گلو بٹ ہے اور دوسرا کردار دنیا نیوز سامنے لایا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پراسراریت کی حقیقت کب سامنے آتی ہے ۔ یا یہ بھی فائلوں میں کہیں دب کر رہ جاتی ہے ۔ پراسرا کردار
 
سانحہ ماڈل ٹائون کا نیا گلو بٹ پولیس کانسٹیبل نکلا،ریاض بابر ماڈل ٹائون ڈویژن میں تعینات
226311_83026486.jpg

لاہور(دنیا نیوز)سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس دونوں ہاتھوں میں پسٹل لئے فائرنگ کرنے والے گمنام کردار کا دنیا ٹی وی نے سراغ لگا لیا ہے ، نیا گلو بٹ ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں تعینات پولیس کانسٹیبل نکلا۔
دنیا نیوز سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس دونوں ہاتھوں میں پسٹل لئے فائرنگ کرنے والے گمنام کردار کو سامنے لے آیا ۔ دنیا ٹی وی کے ذرائع کے مطابق یہ گمنام کردار ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں تعینات پولیس کانسٹیبل ہے اور اس کا نام ریاض بابر ہے ۔ ریاض بابر پولیس کا ایسا بدنما داغ ہے جو متعدد مرتبہ ڈکیتی کی وارداتوں میں گرفتار بھی ہو چکا اور جیل بھی کاٹ چکا ہے ، مگر پولیس کے اس گلو بٹ کو پولیس حکام کی آشیر باد حاصل رہی اور یہ ہر مرتبہ سزا سے بچ نکلتا ۔ ریاض بابر ماڈل ٹاؤن آپریشن کے دوران دونوں ہاتھوں میں پسٹل لئے اپنی خفیہ کارروائیوں میں مصروف رہا اور اپنے پیٹی بھائیوں سے داد تحسین بھی وصول کرتا رہا ۔ دنیا نیوز نے تو پولیس کے اس بدنما کردار کو بے نقاب کر دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلٰی حکام اس پر کیا ایکشن لیتے ہیں؟
 
دنیا نیوز کی خبر پر ایکشن،وزیر اعلیٰ پنجاب کا گلو بٹ ٹو ریاض بابر کو گرفتار کرنے کا حکم
226321_78004975.jpg

رائے ونڈ(دنیا نیوز)دنیا نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سادہ لباس میں ملبوس پولیس کانسٹیبل کی فائرنگ کا نوٹس لے
رائے ونڈ(دنیا نیوز)دنیا نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سادہ لباس میں ملبوس پولیس کانسٹیبل کی فائرنگ کا نوٹس لے لیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران سادہ لباس میں پولیس کانسٹیبل دونوں ہاتھوں میں پسٹل لئے فائرنگ کرتا رہا ۔دنیا نیوز نے کانسٹیبل ریاض بابر کے چہرے سے نقاب اتارا اور فوٹیج منظر عام پر لایا۔ وزیر اعلٰی نے آئی جی پنجاب سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ سادہ لباس میں فائرنگ کرنے والے کانسٹیبل کو فوری گرفتار کیا جائے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
وزیرِ اعلیٰ صاحب پہلے سوئے ہوئے تھے مگر دنیا نیوز نے پھر نیند میں خلل ڈال دیا کانسٹیبل بمع ڈکیت کا بتا کر اور تو جیسے انہیں کوئی بتانے والا ہی نہیں
 
Top