کاشفی
محفلین
غزل
(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
منہ پہ رکھنے لگے نقاب بہت
آج کل بڑھ گیا حجاب بہت
ہم بھی اُمید وصل سے خوش ہیں
ہے زمانہ کو انقلاب بہت
جان بچتی نظر نہیں آتی
آج ہے دل کو اضطراب بہت
دارِ فانی میں کیا ہو خاطر جمع
خود پریشاں ہے یہ خواب بہت
نہ جما رنگ اشک خوں کے حضور
یوں تو برسا کیا سحاب بہت
کیوں نہ گھبرائیں آہِ سوزاں سے
ہے گل رُخ پہ آب و تاب بہت
خوار و رسوا ، ذلیل و سودائی
مل چکے ہیں ہمیں خطاب بہت
دیکھ سکتا نہیں وہ مصحفِ رُخ
اس میں ہیں آیت حجاب بہت
سب بھلایا ہے ضعف پیری نے
یاد آتا ہے پر شباب بہت
پہلے ہی ڈر سے ہم تو سہمتے ہیں
یاں ہے تھوڑا ہی سا عتاب بہت
دوست گنتے ہو غیر کو اپنا
ہے غلط آپ کا حساب بہت
جان و دل کو کباب کر ڈالا
گرم ہے آہ شعلہ تاب بہت
دہشت قبر ہے اگر اے دل
درد رکھ نام بوتراب بہت
صبح بے ہوش تھے پڑے مجروح
پی گئے رات کو شراب بہت