کاشفی
محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
منہ چھپانے لگے حیا کر کے
ہوئے بیگانہ آشنا کر کے
ایسے پھر چہچہے نہ ہوویں گے
مجھ کو پچھتاؤ گے رہا کر کے
لطف کیسا، وفا ہے کیا، وہ تو
رکھتے احسان ہیں، جفا کر کے
رہ کے مسجد میں کیا ہی گھبرایا
رات کاٹی خدا خدا کر کے
اب وہ باتیں کہاں، کبھی پہلے
گالیاں سنتے تھے دعا کر کے
خوب ملنے کو آئے تھے صاحب
مجھ کو مجھ سے چلے جُدا کر کے
دل ہی نے اُس کی خوب بگاڑی ہے
ہر گھڑی عرضِ مدعا کر کے
وہ تو غصہ میں آگ تھے، ہم نے
اور بھڑکا دیا، گِلا کر کے
آہی کودا تھا دیر میں واعظ
ہم نے ٹالا، خدا خدا کر کے
کھو دیا ہاتھ سے اُنہیں مجروح
یوں ہی ہر روز التجا کر کے