منیب احمد فاتح
محفلین
السلام علیکم صاحبان!
شاعری سے میرا دل اٹھتا جا رہا ہے۔ سبب اس کا اولا:
ثانیا:
کاشف عمران صاحب نے بھی اپنے آخری دھاگے"اردو ادب میں نئے دور کا آغاز" سے میرے خیالات کو بھڑکا دیا جو مضامینِ شعری کی یکسانیت و تقلیدِ محض اور ان میں رہنے کی قید کے احساس کو مضبوط کر گئے۔ لہذا:
اگرچہ شاعری کی صلاحیت خود میں پاتا ہوں مگر کچھ سمجھ نہیں آتا۔ شاعری ترک کرنے سے خداداد صلاحیت بےکار جانے کا افسوس بھی ہوتا ہے۔ تو پیارے اصحابِ محفل کچھ کہو کہاں جاؤں؟ بہرحال:
سوچا یہی ہے کہ کوئی کام کا کام کیا جائے۔ اور اسے اپنی آخری غزل سمجھ کر پیش کرتا ہوں۔ کچھ متروک الفاظ استعمال کیے ہیں اور شاید کچھ قوانینِ عروض سے انحراف بھی کیا ہو۔ مگر کرنے دیجئے، دمِ رخصت اتنی رخصت دیجئے۔ اور یہ رہی آخری غزل:
شاعری سے میرا دل اٹھتا جا رہا ہے۔ سبب اس کا اولا:
کہتا ہوں منہ سے کچھ میں نکلتا ہے منہ سے کچھ
جو کہنا چاہتا ہوں کہا نہیں جاتا۔ بلا ارادہ کبھی کسی کے حسن و جمال کا گھائل ہوتا ہوں تو کبھی کسی کی بے وفائی کا گلہ کیے بغیر نہیں رہا جاتا۔ کبھی شراب خوری کرتا ہوں پھر اس پہ سینہ زوری۔عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
اورشعر کہنے سے تو کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل نہیں
ایسے اشعار بھی جی بیزار کیے دیتے ہیں۔ثانیا:
کاشف عمران صاحب نے بھی اپنے آخری دھاگے"اردو ادب میں نئے دور کا آغاز" سے میرے خیالات کو بھڑکا دیا جو مضامینِ شعری کی یکسانیت و تقلیدِ محض اور ان میں رہنے کی قید کے احساس کو مضبوط کر گئے۔ لہذا:
اگرچہ شاعری کی صلاحیت خود میں پاتا ہوں مگر کچھ سمجھ نہیں آتا۔ شاعری ترک کرنے سے خداداد صلاحیت بےکار جانے کا افسوس بھی ہوتا ہے۔ تو پیارے اصحابِ محفل کچھ کہو کہاں جاؤں؟ بہرحال:
سوچا یہی ہے کہ کوئی کام کا کام کیا جائے۔ اور اسے اپنی آخری غزل سمجھ کر پیش کرتا ہوں۔ کچھ متروک الفاظ استعمال کیے ہیں اور شاید کچھ قوانینِ عروض سے انحراف بھی کیا ہو۔ مگر کرنے دیجئے، دمِ رخصت اتنی رخصت دیجئے۔ اور یہ رہی آخری غزل:
میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں
یہی وہ عذابِ عظیم ہے کوئی بڑھ کے اس سے سزا نہیں
اے مذاقِ شعر برا کیا کہ لگائی کارِ عبث کی لت
کوئی اس سے کام بنا نہیں کوئی اور کام ہوا نہیں
وہ تمام لمحے جو بے غرض طلبِ ہنر میں لگا دیے
یہ بتا رہے ہیں دمِ وداع کوئی مجھ سے ناداں بڑا نہیں
مرے حرف حرف میں رنگ تھا مرے شعر شعر میں نقش تھا
جو کمی رہی تو یہی رہی کوئی صادقین ملا نہیں
یوں چرا لیا مرے حسن کو متشاعروں نے فریب سے
مرا آئینہ بھی خفا ہوا مجھے ناز خود پہ رہا نہیں
جو سنا سنا جو کہا کہا جو ہوا ہوا جو کیا کیا
جو بنے بنے جو ملے ملے کیا بجا بجا کیا بجا نہیں
میں حیات مانگوں قضا ملے جو ممات چاہوں ملے دوام
رہا اتضاد مرے لئے میں نے ہاں کہی وہ سنا نہیں
میں چلا گیا تو بہت ہوئے مرے مدح خواں مرے قدرداں
ہے یہ قاعدہ مرے شہر کا جو مرا نہیں سو جچا نہیں
یہ حدیثِ دل یہ حدیثِ دل میں کسے کہوں میں کسے کہوں
مرے پاس رک مرے پاس رک کوئی میرے پاس رکا نہیں
کھلا اس پہ جب مرے دل کا حال بہت دور مجھ سے چلا گیا
وہ بھی ایک قطرہ اشک ہے جسے فکرِ چشم ذرا نہیں
اے رہینِ پیشہ عاشقی وہ غزل سنا جسے آج تک
کسی لب کی گدی ملی نہیں کسی دل کا تخت ملا نہیں
وہ مقیمِ خانہ دل ترا وہی فاتحِ عدم آشنا
ہوا عرصہ جاں سے گزر گیا تجھے آج بھی یہ پتا نہیں
والسلام!