منیب فاتح کی آخری غزل

السلام علیکم صاحبان!
شاعری سے میرا دل اٹھتا جا رہا ہے۔ سبب اس کا اولا:
کہتا ہوں منہ سے کچھ میں نکلتا ہے منہ سے کچھ​
جو کہنا چاہتا ہوں کہا نہیں جاتا۔ بلا ارادہ کبھی کسی کے حسن و جمال کا گھائل ہوتا ہوں تو کبھی کسی کی بے وفائی کا گلہ کیے بغیر نہیں رہا جاتا۔ کبھی شراب خوری کرتا ہوں پھر اس پہ سینہ زوری۔
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے​
اور
شعر کہنے سے تو کچھ حاصل نہیں​
مانتا لیکن ہمارا دل نہیں​
ایسے اشعار بھی جی بیزار کیے دیتے ہیں۔
ثانیا:
کاشف عمران صاحب نے بھی اپنے آخری دھاگے"اردو ادب میں نئے دور کا آغاز" سے میرے خیالات کو بھڑکا دیا جو مضامینِ شعری کی یکسانیت و تقلیدِ محض اور ان میں رہنے کی قید کے احساس کو مضبوط کر گئے۔ لہذا:
اگرچہ شاعری کی صلاحیت خود میں پاتا ہوں مگر کچھ سمجھ نہیں آتا۔ شاعری ترک کرنے سے خداداد صلاحیت بےکار جانے کا افسوس بھی ہوتا ہے۔ تو پیارے اصحابِ محفل کچھ کہو کہاں جاؤں؟ بہرحال:
سوچا یہی ہے کہ کوئی کام کا کام کیا جائے۔ اور اسے اپنی آخری غزل سمجھ کر پیش کرتا ہوں۔ کچھ متروک الفاظ استعمال کیے ہیں اور شاید کچھ قوانینِ عروض سے انحراف بھی کیا ہو۔ مگر کرنے دیجئے، دمِ رخصت اتنی رخصت دیجئے۔ اور یہ رہی آخری غزل:

میں ہوں فرد گامِ حیات میں ولے روزگار نیا نہیں​
یہی وہ عذابِ عظیم ہے کوئی بڑھ کے اس سے سزا نہیں​
اے مذاقِ شعر برا کیا کہ لگائی کارِ عبث کی لت​
کوئی اس سے کام بنا نہیں کوئی اور کام ہوا نہیں​
وہ تمام لمحے جو بے غرض طلبِ ہنر میں لگا دیے​
یہ بتا رہے ہیں دمِ وداع کوئی مجھ سے ناداں بڑا نہیں​
مرے حرف حرف میں رنگ تھا مرے شعر شعر میں نقش تھا​
جو کمی رہی تو یہی رہی کوئی صادقین ملا نہیں​
یوں چرا لیا مرے حسن کو متشاعروں نے فریب سے​
مرا آئینہ بھی خفا ہوا مجھے ناز خود پہ رہا نہیں​
جو سنا سنا جو کہا کہا جو ہوا ہوا جو کیا کیا​
جو بنے بنے جو ملے ملے کیا بجا بجا کیا بجا نہیں​
میں حیات مانگوں قضا ملے جو ممات چاہوں ملے دوام​
رہا اتضاد مرے لئے میں نے ہاں کہی وہ سنا نہیں​
میں چلا گیا تو بہت ہوئے مرے مدح خواں مرے قدرداں​
ہے یہ قاعدہ مرے شہر کا جو مرا نہیں سو جچا نہیں​
یہ حدیثِ دل یہ حدیثِ دل میں کسے کہوں میں کسے کہوں​
مرے پاس رک مرے پاس رک کوئی میرے پاس رکا نہیں​
کھلا اس پہ جب مرے دل کا حال بہت دور مجھ سے چلا گیا​
وہ بھی ایک قطرہ اشک ہے جسے فکرِ چشم ذرا نہیں​
اے رہینِ پیشہ عاشقی وہ غزل سنا جسے آج تک​
کسی لب کی گدی ملی نہیں کسی دل کا تخت ملا نہیں​
وہ مقیمِ خانہ دل ترا وہی فاتحِ عدم آشنا​
ہوا عرصہ جاں سے گزر گیا تجھے آج بھی یہ پتا نہیں​

والسلام!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
غزل پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ اس کے لیے اساتذہ کرام یہاں موجود ہیں۔ چونکہ تم نے میرے اہم ترین دھاگے کا ذکر کیا ہے، اس لیے کچھ کہنا لازم۔ پہلی بات تو یہ کہ میں تمہارے شاعری کوثانوی اہمیت دینے کے فیصلے کی پوری تائید کرتا ہوں۔ اگر یاد ہو تو یہ مشورہ تو پہلے بھی دے چکا ہوں۔

خدا نے تمہیں ایک نہایت اچھا ذہن دیا ہے۔ اسے ضائع نہ کرو۔ اپنی کیریئر کو بنانے کو فکر کرو۔ جدید سائنسی علوم بشمولِ پروگرامنگ، خود بھی بہت "شعریت" کے حامل ہیں۔ جو لےَ اور سُر ریاضی کی ایک کمال کی مساوات یا ایک خوبصورت پروگرامنگ کوڈ میں ہوتا ہے، بسا اوقات وہ اچھے سے اچھے شعر میں بھی نہیں ہوتا۔ اُوائلر کی مشہور "آئڈنٹٹی مساوات" اس کی عظیم مثال ہے۔ پھر فنڈامنٹل تھیورم آف کیلکیولس بھی نظر میں رہے؟ تم تو یہ سب پرھتے رہے ہو؟ خود بتاؤ یہ چیزیں کسی شعر سے کم ہیں؟؟؟؟؟

مجھے خوشی ہے، کہ میرے ایک نہایت محنت سے لکھے مقالے کو کم سے کم دو چار لوگ تو سمجھے۔ اس معاشرے کا تو یہ حال ہے کہ سادہ زبان میں لکھی ایک بات سمجھے والے یہاں خال خال ہیں۔ بڑا شعر کون سمجھے گا؟؟ اگر اپنے مقام سے گرو گے، تو شاید معاشرہ تو عزت دے گا۔ مگر اس صورت میں دل مطمئن نہیں ہو گا۔ بہتر یہی کہ اپنے کیریر کی فکر کرو۔ میتھ اور پروگرامنگ کو شعر سمجھو (جو سچ مچ شعریت کے حامل ہیں، بس خیاّمی نگاہ ہونی چاہیے)۔

اگر اب بھی کچھ مغالطہ ہے، تو میرے آخری مقالے پر موجود تبصرے پڑھ لو۔ یہ ان لوگوں کے تبصرے ہیں جن کا براہِ راست تعلق شعرو ادب سے ہے۔ وہ میری شاعری اور نظریات پر فراز اور وصی شاہ کے کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ عام لوگ کیا سلوک کریں گے، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ میری شاعری کے بارے میں تمہارے دل میں اگر اب بھی کوئی ابہام ہے، تو زیادہ نہیں، میری غالب کی زمین میں کہی تین چار غزلوں ہی پڑھ لو، دل کا بوجھ خوب ہلکا ہو جائے گا۔

(------------------------------------)

دل لگی کے لیے شعر لکھتے رہو۔ کوئی حرج نہیں۔ کتاب بھی چھپ جائے، کوئی حرج نہیں۔ مگر خونِ جگر تلف کرنے سے پرہیز کرو۔ اگر محنت ہی کرنی ہے، تو پھر انگریزی سیکھ کر ناول وغیرہ لکھنے کی کوشش کرو۔ صلہ ملے گا۔

آخری بار پھر کہوں گا۔ کیریر بناؤ۔ یقین کرو، تم ابھی بچے ہو۔ میری نصیحت مانو۔ بہت فائدہ میں رہو گے۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب کلام محترم منیب احمد فاتح بھائی
شاعری گھڑی نہیں جاتی ۔ شاعری کہی جاتی ہے ۔
مندرجہ بالا آپ کی غزل بلاشبہ " کہاوت " محسوس ہو رہی ہے " گھڑت " نہیں ۔
کہتے رہا کریں جو بھی قلب و نظر پر اترے ۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑت میں الجھے وقت برباد ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری گھڑنی بند کر دیجئے تو بہت اچھا ۔۔۔۔۔
گھڑت کا وقت رزق کی تلاش اور تقسیم علم پر صرف کیا کریں ۔
شاعری سچ بولتی ہے بھید دلوں کے کھولتی ہے ۔
اور شاعر کے حالات زندگی شاعری سے دل پھیرتے ہیں ۔۔۔۔۔
 
غزل پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ اس کے لیے اساتذہ کرام یہاں موجود ہیں۔
پتہ نہیں کون سے اساتذہ کرام موجود ہیں؟
جناب یعقوب آسی؟ انہوں نے میری کسی غزل پر کچھ کہنا آج تک گوارا نہیں کیا۔ بڑے آدمی ہیں، ماننا پڑتا ہے۔
جناب وارث؟ وہ خوب کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ لگتا ہے ماضی میں اصلاح دے دے کر تنگ آئے ہوئے ہیں۔
جناب الف عین؟ وہ اصلاحِ سخن کے باہر لفٹ نہیں کراتے۔
لیجئے۔ ہو گئے اساتذہ کرام پورے!
اب میری فریاد پر حضرات آئے بھی تو کیا کہیں گے؟
عروضی غلطیاں!
کچھ اشعار مبہم!
بس؟ اس کی خبر مجھ کو بھی ہے۔
یہ رہے میرے اشعار اور یہ رہا میں۔ باز آیا ایسی استادی شاگردی سے!
 
پتہ نہیں کون سے اساتذہ کرام موجود ہیں؟
استاد ہوتے نہیں مانے جاتے ہیں! :) :) :)
جناب یعقوب آسی؟ انہوں نے میری کسی غزل پر کچھ کہنا آج تک گوارا نہیں کیا۔ بڑے آدمی ہیں، ماننا پڑتا ہے۔
اس اصول کے تحت تو اس مراسلے سے قبل تک ہم بھی بڑے آدمی ہی رہے! :) :) :)
جناب وارث؟ وہ خوب کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ لگتا ہے ماضی میں اصلاح دے دے کر تنگ آئے ہوئے ہیں۔
بقول شاعر: تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے! - ویسے وارث بھائی کی طبیعت پچھلے کافی عرصہ سے ٹھیک نہیں رہتی اس لیے اب ان کی فعالیت بہت کم ہوتی ہے۔ محفل میں آتے بھی ہیں تو زیادہ عمل دخل نہیں کرتے۔ آپ اسے تنگ آجانا کہہ لیں، اگر یوں ہی سکون ملتا ہو تو! :) :) :)
جناب الف عین؟ وہ اصلاحِ سخن کے باہر لفٹ نہیں کراتے۔
کیوں کہ اصاح سخن کے باہر کسی کے کلام پر تنقید کرنا کئی دفعہ مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ لوگ پلٹ کر گلا پکڑ لیتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے کلام میں نقص نکالنے والے؟ ہم نے آپ کو بلایا کیا؟ :) :) :)
لیجئے۔ ہو گئے اساتذہ کرام پورے!
اب اردو محفل اتنی بھی کوتاہ نہیں۔۔۔ بشرطیکہ آپ کا قبولیت استادی کا خانہ وسیع ہو! :) :) :)
اب میری فریاد پر حضرات آئے بھی تو کیا کہیں گے؟
عروضی غلطیاں!
کچھ اشعار مبہم!
تو کیا خیال ہے، اساتذہ کو عروضی خامیاں، معنویت کے جھول اور ابہام وغیرہ بتانے کے بجائے "واہ واہ، بہت خوب، بہت عمدہ، لا جواب، بے مثال و علیٰ ہٰذا القیاس" کے قصائد کا ریکارڈر آن رکھنا چاہیے؟ اس کام کے لیے باقی قارئین ہیں ناں! یا پھر اساتذہ کا یہ کام ہے کہ وہ ایک لاکھ اشعار لکھ کر اپنے چار لاکھ خوش نصیب شاگردوں میں بذریعہ قرعہ اندازی برابر برابر تقسیم کر دیں؟ :) :) :)
بس؟ اس کی خبر مجھ کو بھی ہے۔
بس پھر شکایت کس بات کی؟ آپ کو تو خود میں اپنا استاد مل گیا۔ خود ہی خوش کلامی کیجیے، خود ہی اس کے بخیے ادھیڑیے، خود ہی خود کو شاباشی دیجیے، خود ہی لکھیے، خود پڑھیے، خود ہی خوش ہو جایا کیجیے، خود ہی نقد و تبصرہ کیجیے اور خود ہی سے رنجشیں مول لیجیے۔ یوں تو آپ ذرے میں کائینات کی مثال بن گئے۔صد آفرین! :) :) :)
یہ رہے میرے اشعار اور یہ رہا میں۔ باز آیا ایسی استادی شاگردی سے!
یہ تو ٹوکری باندھ کر بھاگ کھڑے ہونے والی بات ہوئی۔ بقول ناقص العقل عوام:

بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا​
رکھو اپنی کنٹھی مالا​

:) :) :)
 
وارث صاحب کے باب میں معافی چاہتا ہوں۔ فرطِ جذبات میں بول گیا۔ وہ غزل پر تو چلیں کچھ نظر نہیں کرتے لیکن اس کے علاوہ جو بھی ان سے پوچھوں ضرور جواب دیتے ہیں۔ نہایت نادم ہوں۔
 

مغزل

محفلین
معذرت منیب احمد فاتح بھائی ۔۔ مجھ سے پہلے ہی سعود بھیا آگئے ۔۔ ورنہ میں ’’آخری‘‘ سے مراد Top Rated لیے بیٹھا تھا۔۔:angel:
ماشا اللہ اچھی کاوش ہے باقی آپ نے خود ہی رائے محفوظ کر رکھی ہے اپنے کلام بابت تو بندہ کیا عرض کرے گا ؟
اللہ کرے ِ زورِ سخُن اور زیادہ
 

محمد وارث

لائبریرین
اردو شاعری کے باوا آدم ولی دکنی نے کئی سو سال پہلے، جب انہیں اسی قسم کے حالات کا سامنا تھا کہ میاں تم کس کھیت کی مولی ہو فارسی کے متقدمین، متوسطین اور متاخرین تو سب کچھ باندھ گئے ہیں، کہا تھا

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

اور حیدر علی آتش نے کچھ عجب ہی گل افشانی کی، ان مسافروں کیلیے جو چند قدم چل کر راہ کی صعوبتوں پر شکوہ کناں ہو جاتے ہیں، اور ایسا سایہ فراہم کر گئے کہ بس اللہ اللہ۔

خیر، میں آپ کے حواسِ خمسہ میں سے ایک بھی حس کو تکلیف نہ دیتا اگر آپ ادھر میرا ذکر خیر نہ فرماتے، سو مشورے تو آپ کو مل ہی رہے ہیں سو ایک مشورہ اکبر الہ آبادی کا آپ کی چھٹی حس کے لیے

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مکتب سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب کے باب میں معافی چاہتا ہوں۔ فرطِ جذبات میں بول گیا۔ وہ غزل پر تو چلیں کچھ نظر نہیں کرتے لیکن اس کے علاوہ جو بھی ان سے پوچھوں ضرور جواب دیتے ہیں۔ نہایت نادم ہوں۔

قبلہ پبلک فورم پر عموماً میں اپنی زبان بند ہی رکھتا ہوں، کیوں۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ ایک لمبی کہانی ہے اور مجھے نہیں امید ہے کہ آپ کو کبھی سنا پاؤں گا کہ ع - راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں، لیکن جب کوئی ذاتی پیغام میں کچھ کہتا ہے تو پھر اس کو جواب دینا مجھ پر فرض سا ہو جاتا ہے۔

خیر آپ کے حسنِ ظن کے لیے آپ کا ممنون ہوں۔

والسلام
 
استاد ہوتے نہیں مانے جاتے ہیں! :) :) :)
اس اصول کے تحت تو اس مراسلے سے قبل تک ہم بھی بڑے آدمی ہی رہے! :) :) :)
بقول شاعر: تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے! - ویسے وارث بھائی کی طبیعت پچھلے کافی عرصہ سے ٹھیک نہیں رہتی اس لیے اب ان کی فعالیت بہت کم ہوتی ہے۔ محفل میں آتے بھی ہیں تو زیادہ عمل دخل نہیں کرتے۔ آپ اسے تنک آجانا کہہ لیں! :) :) :)
کیوں کہ اصاح سخن کے باہر کسی کے کلام پر تنقید کرنا کئی دفعہ مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ لوگ پلٹ کر گلا پکڑ لیتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے کلام میں نقص نکالنے والے؟ ہم نے آپ کو بلایا کیا؟ :) :) :)
اب اردو محفل اتنی بھی کوتاہ نہیں۔۔۔ بشرطیکہ آپ کا قبولیت استادی کا خانہ وسیع ہو! :) :) :)
تو کیا خیال ہے، اساتذہ کو عروضی خامیاں، معنویت کے جھول اور ابہام وغیرہ بتانے کے بجائے "واہ واہ، بہت خوب، بہت عمدہ، لا جواب، بے مثال و علیٰ ہٰذا القیاس" کے قصائد کا ریکارڈر آن رکھنا چاہیے؟ اس کام کے لیے باقی قارئین ہیں ناں! یا پھر اساتذہ کا یہ کام ہے کہ وہ ایک لاکھ اشعار لکھ کر اپنے چار لاکھ خوش نصیب شاگردوں میں بذریعہ قرعہ اندازی برابر برابر تقسیم کر دیں؟ :) :) :)
بس پھر شکایت کس بات کی؟ آپ کو تو خود میں اپنا استاد مل گیا۔ خود ہی خوش کلامی کیجیے، خود ہی اس کے بخیے ادھیڑیے، خود ہی خود کو شاباشی دیجیے، خود ہی لکھیے، خود پڑھیے، خود ہی خوش ہو جایا کیجیے، خود ہی نقد و تبصرہ کیجیے اور خود ہی سے رنجشیں مول لیجیے۔ یوں تو آپ ذرے میں کائینات کی مثال بن گئے۔صد آفرین! :) :) :)
یہ تو ٹوکری باندھ کر بھاگ کھڑے ہونے والی بات ہوئی۔ بقول ناقص العقل عوام:
بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا​
رکھو اپنی کنٹھی مالا​
استاد ہوتے نہیں مانے جاتے ہیں!
یہ کیا استاد کی تعریف کر دی۔ ذرا اپنے جملے پر غور کریں۔

اس اصول کے تحت تو اس مراسلے سے قبل تک ہم بھی بڑے آدمی ہی رہے!
اتنا بھی کسی کو بڑا آدمی کہلائے جانے کا شوق نہ ہو۔

تو کیا خیال ہے، اساتذہ کو عروضی خامیاں، معنویت کے جھول اور ابہام وغیرہ بتانے کے بجائے "واہ واہ، بہت خوب، بہت عمدہ، لا جواب، بے مثال و علیٰ ہٰذا القیاس" کے قصائد کا ریکارڈر آن رکھنا چاہیے؟ اس کام کے لیے باقی قارئین ہیں ناں!
میاں، داد و تحسین کا طالب نہیں۔ میں تو اس سے عاجز آیا ہوا ہوں۔ اگر آپ میری ماضی کی غزلیں دیکھ نہیں چکے تو ایسے بڑھ بڑھ کر نہ بولئے۔

بس پھر شکایت کس بات کی؟ آپ کو تو خود میں اپنا استاد مل گیا۔ خود ہی خوش کلامی کیجیے، خود ہی اس کے بخیے ادھیڑیے، خود ہی خود کو شاباشی دیجیے، خود ہی لکھیے، خود پڑھیے، خود ہی خوش ہو جایا کیجیے، خود ہی نقد و تبصرہ کیجیے اور خود ہی سے رنجشیں مول لیجیے۔ یوں تو آپ ذرے میں کائینات کی مثال بن گئے۔صد آفرین!
بجا کہا حضور۔ میں ہی غلط ہوں۔
شاید خوب سے خوب تر کی پیاس نے مجھے تنگ کیا ہوا ہے۔​
یہ غزل جو آپ کے سامنے ہے، مجھ پر آسمان سے نہیں اتری۔ اس کے پیچھے تنہائی کی مشقت ہے کسی اور کے کندھے پر بیٹھ کر یہ غزل نہیں کہی۔ ناسخ کی طرح، خود ہی کی استادی کی ہے۔ خود ہی خوش کلامی کی ہے، خود ہی بخیے ادھیڑے ہیں، خود ہی شاباشی دی ہے، خود ہی لکھی ہے۔ خود ہی پڑھی ہے، خود ہی خوش ہوا ہوں۔ آئندہ بھی یہی کروں گا۔

یہ تو ٹوکری باندھ کر بھاگ کھڑے ہونے والی بات ہوئی۔ بقول ناقص العقل عوام:
بھوکے بھجن نہ ہوئے گوپالا
رکھو اپنی کنٹھی مالا
جی میرا آپ نے مزید اچاٹ کیا۔​
آپ سب صاحبانِ علم ہیں۔ اس میں بحث نہیں۔​

خیر ایک ہی بات سمجھ آئی ہے اور اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ اپنی شاعری یہاں پوسٹ نہیں کروں گا۔ میں جانتا ہوں آپ میری شاعری کے منتظر بھی نہیں بیٹھے ہوئے۔ لیکن داد و تحسین میرا مقصود نہیں جو رہنمائی میں چاہتا ہوں وہ یہاں ملنے سے رہی۔ عروضی غلطیاں، جھول وغیرہ اس کے لئے میں اپنا پورا پورا استاد ہوں۔ بہرحال، جو جی میں تھا کہہ گیا۔ برا تھا تو معافی۔ نہیں تھا تو نوازش۔​
اور ابنِ سعید صاحب، ہو سکے تو میری ماضی کی پوسٹ کردہ شاعری پر ایک نظر ڈال لیجے گا، شاید سمجھ جائیں گے کہ میری ضرورت کیا ہے؟ عروضی مسائل کی نشاندہی کی محتاجی یا فکری رہنمائی! خیر اب ہر دو سے بے نیاز ہوں۔​
 
Top