جاسم محمد
محفلین
منی مرگ، فیری میڈوز تا رتی گلی: ہمالیائی گھاس کے میدانوں سے...
تنہائی اور پہروں خاموشی میں ایک کوہستانی کاندھے پر بندوق لگائے گھوڑے پر آیا۔ قریب آکر کہنے لگا، ’جو کچھ ہے نکال دو۔‘
سید مہدی بخاریاپ ڈیٹ اکتوبر 07, 2019
لاہور میں حبس بھرے گرم ترین دن گزر رہے تھے۔ ساون کا مہینہ تھا۔ میرے گھر کے برابر لگے آم کے درخت پر پپیہے کی جوڑی نے گھونسلا بنایا تھا۔ ان کی گوں گوں کی آوازیں بھری دوپہر میں میرے کمرے تک آتی رہتیں۔
کبھی کبھار جب ان کی آواز تیز ہوجاتی تو میں اپنے کمرے کی کھڑکی پر لٹکتی نیلی چق اٹھا کر ان کے درخت سے لٹکتے گھونسلے کو دیکھتا۔ مادہ اپنی چونچ سے گھونسلے کے تنکوں کو سنوارتی رہتی اور نَر اس کی مدد کو تنکے اپنی چونچ سے پکڑ کر لاتا رہتا۔
ساون کی ایک دوپہر میں بارش کی جھڑی لگی۔ پپیہے کا جوڑا اس دن خاموش تھا۔ میں نے کھڑکی کی چق ہٹا کر دیکھا۔ وہ دونوں بارش سے بچنے کی خاطر اپنے گھونسلے میں دبکے بیٹھے تھے۔ گھونسلا شاخ یوں لٹک رہا تھا جیسے درخت پر پھل آیا ہو۔ دونوں کا تنکا تنکا جوڑتے بنا یہ گھر قطرہ قطرہ بکھر رہا تھا۔ میرے ذہن میں مارموٹ کی سیٹی گونجنے لگی۔
ناران میں کہرآلود صبح
رتی گلی کا فضائی منظر
رتی گلی جھیل کے نظارے
ناران کی صبح
بیسال ناران
اس دوپہر میں نے لاہور کو چھوڑ دیا۔ میرا ارادہ ہمالیائی سلسلے میں پھیلے گھاس کے میدانوں پر قدم رکھنے کا تھا۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ دنیا کا عظیم ترین پہاڑی سلسلہ ہے جو 6 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل چین، نیپال، میانمار، افغانستان اور بھارت سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہے۔ ایورسٹ اور نانگا پربت سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔
یہ عظیم پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لے کر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ میرا ارادہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں واقع نانگا پربت کے دامن فیری میڈوز، ضلع استور میں واقع دیوسائی کے میدان، برزل پاس کو عبور کرتے منی مرگ و ڈومیل کی وادیوں سے واپس آکر آزاد کشمیر میں واقع سب سے بڑی جھیل رتی گلی جانے کا تھا۔ یہ سارا علاقہ کھلے گھاس کے میدانوں پر مشتمل ہے جو مارموٹ کا گھر ہے۔
ناران کا نظارہ
رینبو جھیل کی جھلک
منی مرگ کے آس پاس
برزل پاس کے آس پاس
ناران جلکھڈ
مارموٹ سے میرا عجب انسیت کا تعلق ہے۔ مجھے ان کی سیٹی سننا اچھا لگتا ہے۔ ان کی آواز مجھے ناسٹالجیا کا شکار کردیتی ہے۔ مسافر کا کل اثاثہ اس کے بیتے شب و روز ہی تو ہوتے ہیں جو یاد آنے لگتے ہیں۔ لاہور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ بالاکوٹ کے آتے دھند بھری صبح دریائے کنہار پر اتر رہی تھی۔ بالاکوٹ گزرا، گاڑی ناران کی وادی میں دریائے کنہار کے ساتھ چل رہی تھی۔
ایک نئی صبح ہوچکی تھی۔ پہاڑوں پر دھند چھائی تھی۔ بادلوں نے آدھا آسمان ڈھک دیا تھا۔ سورج ایک سمت سے طلوع ہوا چاہتا تھا۔ لوئر ہمالیہ کے پہاڑ سبزہ اوڑھے دھند کی سفید چادر تانے کھڑے تھے۔ دریا کہیں نیچے چپ چاپ بہہ رہا تھا۔ مقامی لوگوں کی نقل و حمل شروع ہوچکی تھی۔ پہاڑوں میں شام جلد آجاتی ہے تو دن بھی جلد شروع ہوجاتا ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے بیتی کئی صبحیں دھیان میں آنے لگیں۔ لولوسر جھیل ویران تھی۔ سیاح اپنے ہوٹل کے کمروں میں ابھی سوئے پڑے تھے۔ اس جھیل پر سیاحوں کی بھرمار ہوا کرتی ہے۔ ایسے مقام جو آپ نے رش میں دیکھ رکھے ہوں ان کو یوں سنسان دیکھ کر دل نہ جانے کیوں اوب جاتا ہے۔
رتی گلی کا فضائی منظر
رتی گلی کا فضائی نظارہ
بابوسر کو جاتا راستہ، ناران
بابو سر اور طلوع آفتاب
بابوسر پاس گزرا۔ سردی نے لپیٹ میں لے لیا۔ بابوسر دھند میں مکمل گُم تھا۔ سوائے سڑک کے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک کوہستانی نوجوان اپنے پالتو کتے کے ساتھ سڑک کنارے چپ چاپ کھڑا نیچے دھند میں گُم وادی میں نہ جانے کیا دیکھ رہا تھا۔ سفر، سفیدی میں بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتا ہے۔ چلاس کے آتے آتے گرمی پھر سے لوٹ آئی تھی۔ دریائے سندھ ساتھ آن لگا تو پسینہ بالوں سے بہتا رہا۔ سلسلہ کوہِ قراقرم کے تپے ہوئے پہاڑوں کے بیچ گاڑی چلتی رہی۔ شیر دریا پہلو بدلتا رہا۔
رائے کوٹ پل کے آتے آتے دوپہر ہو رہی تھی۔ گاڑی کو پارکنگ میں لگا کر جیپ لی اور فیری میڈوز کی جانب سفر کا نیا باب کھلنے لگا۔ جیپ اس کچے تنگ راستے پر دھول اڑاتے بھاگتی رہی۔ تاتو گاؤں پہنچ کر رکنے تک ڈرائیور اور میں چونا مٹی کے بت بن چکے تھے۔ تاتو گاؤں جیپ کا آخری اسٹاپ ہے۔ یہاں سے فیری میڈوز کا راستہ ڈھائی سے 3 گھنٹے پیدل مسافت کا راستہ ہے۔ تنگ سے ٹریک پر چلتے، رکتے پڑتے، شام اترنے لگی۔ نانگا پربت کا منظر سامنے کھلا جس کی چوٹی پر سورج آخری آخری بوسہ دے رہا تھا۔ گھاس کا میدان تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔ کیمپ سائٹ پہنچ کر مسافر ڈھے گیا۔ قاری رحمت میری آمد کی خبر سُن کر میرے کیمپ میں آگیا۔
بابوسر پاس کے مقام پر ایک کوہستانی نوجوان اپنے پالتو کتے کے ساتھ
بابو سر پاس
دریائے کنہار،ناران
بالاکوٹ اور دریائے کنہار
قاری رحمت فیری میڈوز کاٹیجز کا مالک ہے۔ اس نے جنت ارضی یعنی فیری میڈوز پر نانگا پربت کے سائے تلے ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے۔ قاری رحمت کی کہانی اس کی زبانی سُنی جو بڑی دلچسپ معلوم ہوئی۔
’صاحب میں پہلے ایک مدرسے میں قرآن پڑھاتا تھا۔ 1992ء میں مجھے 1200 روپے تنخواہ ملتی تھی مگر ایسا ہوتا تھا کہ دُور دراز سے کوئی بندہ اپنا بچہ مدرسے داخل کرانے آجاتا تو اسے چائے پانی پلانا پڑتا جو میں جیب سے یعنی تنخواہ سے بندوبست کرتا تو صاحب مہینے کے آخر تک میری ساری تنخواہ اسی چائے پانی میں صَرف ہوجاتی۔ گھر بار کے لیے کچھ نہیں بچتا تھا۔ تنگ آکر میں نے استعفی دے دیا اور پھر ایک سال بالکل بے روزگار رہا۔ اس زمانے میں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کروں۔ پڑھنا لکھنا مجھے آتا نہیں تھا نہ میرے پاس کوئی ہنر تھا۔
’ایک دن صاحب میں گلگت گیا تو وہاں ایک بندے سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے مجھے پریشان دیکھ کر کہا کہ تم فیری میڈوز میں ہوٹل کیوں نہیں شروع کرتے؟ جگہ میں تم کو بتاتا ہوں۔ فیری میڈوز میں 1992ء میں رحمت نبی کا ہوٹل ہوتا تھا اس سے 10 منٹ پیدل مسافت پر آگے مقامی لوگوں کی مشترکہ جگہ تھی جسے ہم شاملاٹ کہتے ہیں۔ اس شخص نے مجھے وہ جگہ بتائی تو میں اسی دن وہیں سے اٹھا گلگت سے رائے کوٹ کے پُل تک مسافر گاڑی میں آیا اور پُل سے پیدل چلتا 6 سے 7 گھنٹوں بعد شام تک میں اسی جگہ پہنچ گیا جہاں آج میرا ہوٹل فیری میڈوز کاٹیجز ہے۔
فیری میڈوز کے میدان
فیری میڈوز اور نانگا پربت
فیری میڈوز کے میدان
’صاحب میں نے وہاں پہنچتے ہی پتھروں سے جگہ کی حاشیہ بندی شروع کردی۔ ساری رات میں پتھر ڈھو کر لگاتا رہا اور صبح تک ہوٹل جتنی جگہ کی حاشیہ بندی کردی، پھر وہاں ہوٹل بنانا شروع کیا۔ جیب میں 800 روپے تھے۔ جنگل سے لکڑی لاتا، تراشتا اور تعمیر میں لگا دیتا۔ گزارے جتنا ہوٹل کھڑا تو کرلیا مگر 5 سال بیکار رہا کیونکہ تب مقامی سیاح تو آتے نہیں تھے، صرف غیر ملکی کوہِ پیما یا سیاح آتے اور وہ بھی اپنے کیمپ لگا لیتے اور آج یہ حالت ہے کہ گرمیوں میں فیری میڈوز میں جگہ نہیں ملتی میرا ہوٹل سارا سیزن بُک رہتا ہے۔‘
میں نے اسے کہا، ’رحمت روزی تو بے شک خدا دیتا ہے مگر تم نے کبھی سوچا کہ تم ایک پہاڑ نانگا پربت کے وسیلے سے کما رہے ہو کیونکہ اسی کو دیکھنے لوگ پیدل چل کر تمہارے پاس آتے ہیں؟‘
قاری نے ہنستے ہوئے کہا، ’صاحب ہم ایک اور وسیلے سے بھی کما رہا ہے۔‘
میں نے پوچھا، ’اور کون سا وسیلہ؟‘
بولا، ’آپ سامنے ہی تو بیٹھا ہے ہمارا وسیلہ۔‘
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’مگر قاری میں نے تو فیری میڈوز پر ابھی کچھ نہیں لکھا۔‘ توصیف و تعریف جب بڑھنے لگی تو میں نے بات کا پہلو بدلنے کے لیے پوچھا ’چھوڑو، جرمن کوہِ پیما میسنر کی سناؤ۔‘ اس کے بعد قاری رحمت بولتا چلا گیا اور میں کوہِ پیماؤں کے قصے سنتا سنتا سو گیا۔
اگلی صبح اُتری تو فیری میڈوز کے گھاس کا میدان دھوپ چھاؤں کے کھیل میں مشغول تھا۔ سامنے ہمالیہ کا نگینہ دھوپ میں چمک رہا تھا۔ برف میں دبا نانگا پربت دمک رہا تھا۔ سفید جادو چل رہا تھا۔ اسی جادو کے زیرِ اثر جرمن کوہِ پیما کھچے چلے آتے ہیں۔ بابائے کوہِ پیمائی رائن ہولڈ میسنر کے بھائی کو اسی جادو نے کھا لیا تھا۔ اسی چوٹی کے دامن میں جرمن کوہِ پیماؤں سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے کوہِ پیماوں کا قبرستان ہے۔
یہ قاتل پہاڑ اب تک بیسیوں کوہِ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ آسٹرین کوہِ پیما ہرمن بہول نے 1953ء میں اسے جب پہلی بار سَر کیا تو اس سے قبل 31 کوہِ پیما اس قاتل چوٹی کے آگے جان دے چکے تھے۔ ہرمن بہول نے اپنی کتاب میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس دن وہ چوٹی سَر کرنے کو آخری چڑھائی چڑھ رہا تھا اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی چل رہا ہے۔ خیموں کی رسیاں خود بخود کٹ جاتی تھیں۔ ہرمن بہول نے غیر مرئی مخلوق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
ہمالیہ کا نگینہ دھوپ میں چمک رہا تھا، برف میں دبا نانگا پربت دمک رہا تھا
سفید جادو کے اثر سے نکلنے تک سورج سَر پر آن کھڑا تھا۔ فیری میڈوز سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس ہمالیائی گھاس کے میدان پر میں نے آخری نظر ڈالی۔ نانگا پربت 8126 میٹر کی بلندی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ رائے کوٹ کا پل آیا۔ نئی شاہراہِ ریشم کا آغاز ہوا۔ شیر دریا پہلو بدل کر دائیں ہاتھ آگیا۔ استور جاتی سڑک کو گاڑی مڑگئی۔ یہ سڑک زیرِ تعمیر ہونے کی وجہ سے نہایت خستہ حالت میں تھی۔ دیکھ بھال کر سفر ہوتا رہا۔ دریائے استور ہمیشہ کی طرح شوریدہ، جھاگ اڑاتا ساتھ ساتھ رہا۔ استور شہر میں داخل ہوا تو ایک اور شام وادی پر اتر چکی تھی۔
گلگت بلتستان کا ضلع استور بہتے پہاڑی نالوں، ندیوں، جھیلوں اور فلک شگاف سرسبز پہاڑوں کی زمین ہے۔ کُل آبادی ایک لاکھ 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہیں سے ایک راہ راما میڈوز کی جانب مڑتی ہے جہاں چونگڑا کا پہاڑ سیاحوں کا استقبال کرتا ہے۔ ایک راہ رٹو اور ترشنگ و روپل کے گاؤں کو جا نکلتی ہے جہاں نانگا پربت کا شمالی رخ صاف نظر آتا ہے۔ ایک سڑک چلم چوکی سے ہوتی ہوئی برزل پاس اور منی مرگ کی راہ لیتی ہے تو وہیں چلم چوکی سے ایک راستہ شیوسر جھیل اور دیوسائی نیشنل پارک کو جا نکلتا ہے۔
ایک سڑک چلم چوکی سے ہوتی ہوئی برزل پاس اور منی مرگ کی راہ لیتی ہے
منی مرگ آمد