موت رحمت اور نعمت

آباؤ اجداد کا حساب

اگر میں یہ کہوں کہ میرے آباؤ اجداد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرتی ہے تو شاید آپ ہنس دیں اور اسے مضحکہ خیز سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہمارے آباو اجدااد کی تعداد اربوں میں ہے۔ تو آئیے آج ہم اپنے آباؤ اجداد کا حساب لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہماری رگوں میں کتنے لوگوں کا لہو گردش کر رہا ہے

1 ۔ ۔ باپ ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعداد -- 2 - - - - - - 1^2
2 ۔ ۔ دادا دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ تعداد -- 4 - - - - - - 2^2
3 ۔ ۔ پڑ دادا پڑ دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعداد -- 8 - - - - - - 3^2
4 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (1) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 16 - - - - - 4^2
5 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (2) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 32 - - - - - 5^2
6 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (3) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 64 - - - - - 6^2
7 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (4) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 128 - - - - 7^2
8 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (5) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 256 - - - - 8^2
9 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (6) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 512 - - - - 9^2
10۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (7) ۔ ۔ تعداد -- 1024 - - - 10^2
11۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (8۔ ۔ ۔ تعداد -- 2048 - - - 11^2
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
33 ۔ ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (30) ۔ ۔ تعداد -- 8,589,934,592 - - 33^2
اس حساب سے اگر ہم اپنے اوپر اپنے صرف 33 آباؤاجداد کا حساب لگائیں تو وہ (33^2 = 8.6 Billion)یعنی 8 ارب 60 کڑوڑ لوگ بنتے ہیں جو کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی زیادہ ہوئے۔ اگر کزنز کے درمیان شادی کا حساب لگالیں تو یہ تعداد کچھ کم ہو جائے گا، چلیں اسے آدھا کر لیتے ہیں تب بھی یہ تعداد 4 ارب 30 کڑوڑ کی بنتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جیسے ایک انسان کی پیدائش کے پیچھے کتنے بے شمار لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ہم پر ہمارے اتنے زیادہ آباؤاجداد کے احسانات ہیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے۔
ذرا غور کیجئے کہ اگر ہمارے یہ بے شمار آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو ہم کتنے مشکل میں پڑ جاتے۔ ہم کس کس کا حق ادا کرتے جبکہ آج ہم اہنے حقیقی والدین کے حقوق ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ دوبارہ تصور کیجئے کہ اگر ہمارے یہ سارے آباؤاجداد زندہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ تو ہر طرف بستر پر پڑے دکھ درد سے کراہتے، پاخانہ پیشاب کرتے، کھانستے اور تھوکتے، ضعیف و لاغر، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر، بولنے اور سننے سے معذور صرف بوڑھے بوڑھے ہی نظر آتے اور دنیا میں زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے فرمایا: ’’کاش! کہ موت نہ ہوتی‘‘۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی آپ تک یہ نعمتیں پہنچی ہیں، ورنہ یہ آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی‘‘۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت تو آنی ہے اور ہم نے جانا ہے۔ جس طرح ہمارے اربوں آباؤاجداد موت کو گلے لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارے لئے یہ نعمتوں سے بھرا دنیا چھوڑ گئے اسی طرح ہم نے بھی اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے اس دنیا سے جانا ہے۔
موت ہے تو زندگی ہے۔ موت کی وجہ کر ہی دنیا میں زندگی رواں دواں ہے۔ موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ موت سے اللہ تعالٰی کی قدرتِ کاملہ اور تمام مخلوقات پر اس کی مکمل تسلط کا پتہ چلتا ہے۔ جب کوئی بوڑھا ہوجائے تو ناکارہ ہونے سے پہلے اچھی اور آسان موت کا آجانا حق تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے۔
موت رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ نعمت بھی ہے۔ موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت مومن کیلئے جنت کا دروازہ ہے لیکن اس کیلئے موت کو یاد رکھنا اور اس کیلئے تیاری کرنا ضروری ہے۔
عقل مند شخص موت سے پہلے موت کی تیاری کرتے ہوئے اپنے آپ کو قبر کیلیے تیار کرتا ہے، اپنی قبر کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے اور نیک اعمال سے بھر دیتا ہے تا کہ اس کی قبر جنت کا باغیچہ بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی کرتا ہے جس کا ثواب اسے موت کے بعد بھی ملتا رہے۔
رسول اللہﷺنے فرمایا: ”آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ (1) ایک صدقۂ جاریہ کا، (2) دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور (3) تیسرے نیک و صالح اولاد جو دعا کرے اس کے لیے‘‘۔ (صحيح مسلم: 4223، ترقیم فوادعبدالباقی: ١٦٣١)
اوپر دیئے گئے حساب کے مطابق ہمارے اربوں آباؤاجداد (کم از کم 4 ارب 30 کڑوڑ) اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنوں کو ان کے کئے گئے صدقۂ جاریہ کا ثواب اب تک مل رہا ہے لیکن ان میں جو مومن تھے ہماری دعاؤں میں آج بھی وہ سب شامل ہیں۔ یہ دین اسلام کی برکت ہے کہ ایک بندہ جب ’’اللهُمَّ اغْفِرْ لِيّ ولوَالديّ وللمُسلمِينَ والمُسلمَاتّ والمُؤمنينَ والمُؤمناتّ‘‘ یہ دعا یا اس جیسی دوسری دعائیں کرتا ہے تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا سے گزرنے والے آخری مومن بندے تک کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیتا ہے۔
اسی طرح رحمت للعالمین ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور کہے: ’’التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ‘‘ تو زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ دعا پہنچے گی۔ (صحيح البخاري: 1202)
اسی طرح جب ہم کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور اس میں دعا کرتے ہیں: ’’اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ‘‘
’’یا اللہ! تو ہمارے زندوں کو بخش اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر شخصوں کو اور ہمارے غائب لوگوں کو اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ یا اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو ہم میں سے موت دے تو اس کو ایمان پر موت دے‘‘۔
تو ہم (۱) زندہ (۲) مردہ (۳) حاضر (۴) غائب (۵) چھوٹے (۶) بڑے (۷) مرد و (۸) عورت ان آٹھ قسم کی لوگوں کو اکٹھے اپنی دعا میں شامل کرتے ہیں تمام کے تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما۔
ایسی برکت والی دین اور کہاں ملے گی؟ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ایسی برکت نہیں کہ ایک مسلمان کی دنیا سے گزرنے کے بعد بھی قیامت تک اربوں کھربوں مسلمان اس کے لئے دعئیں کرتے رہیں۔ یہ برکت صرف اور صرف دین اسلام کی ہے۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ جب تک دنیا میں زندہ رہیں اللہ سے ڈرتے ہوئے دین اسلام پر قائم رہیں اور دین اسلام پر رہتے ہوئے ہمیں موت آئے اور فرقہ پرستی کی شرک سے دور رہیں کیونکہ جو فرقہ پرستی میں پڑ گیا وہ دین اسلام سے نکل گیا۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّ۔هَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (١٠٢) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّ۔هِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ ۔ ۔ ۔ (١٠٣) سورة آل عمران
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان (102) اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (فرقوں میں نہ بٹ جانا)‘‘ ۔ ۔ ۔ (١٠٣) سورة آل عمران
ہمیں بھی موت آئے گی۔ کل ہم بھی اپنی اپنی قبروں میں پڑے ہوں گے۔ ہمیں بھی دنیا میں زندہ رہنے والے مومن بندوں کی دعاؤں کا انتظار رہے گا، ہمیں بھی اپنے نیک اور صالح اولاد کی دعاؤں کا انتظار رہے گا اور ہمیں بھی اپنے صدقۂ جاریہ سے ثواب پہنچنے کا انتظار رہے گا۔
تو کیوں نہ ہم آج ہی ان باتوں کا انتظام کریں؟
فرقہ پرستی سے توبہ کرکے خالص دین اسلام کو اپنائیں۔
سچے مومن بن جائیں تاکہ اسی حالت میں موت کو گلے لگائیں۔
کیونکہ موت کا تو کوئی بھروسہ نہیں، نا جانے کسے کب آ جائے!
اور ہم بھی اپنے اربوں آباؤ اجداد میں شامل ہوجائیں جو آج ہم میں نہیں۔
تحریر: محمد اجمل خان
 
آخری تدوین:
Top