موت کو بھی کبھی سینے سے لگانا ہو گا
اس بھری بزم سے اک روز کو جانا ہو گا
سنتا آیا ہوں کہ آتا ہے وہ سب سے ملنے
کیا کسی روز مری سمت بھی آنا ہو گا
میں تو نکلا تھا کسی شوق میں گھر سے اپنے
کیا خبر تھی مرے رستے میں زمانا ہو گا
لے کے آؤں میں کہاں سے نئے گیت کہ ہاں
میرے ہونٹوں پہ وہی نغمہ پرانا ہو گا
چھپ کے بیٹھیں گے اگر سخت اذیت دیں گے
دل کے زخموں کو کہیں جا کے دکھانا ہو گا
مجھ سے پہلے بھی کئی دشت میں آئے مجنوں
بعد میرے بھی کوئی اور دوانا ہو گا
کس کی جرات ہے اسے جان لے پورا پورا
جو بھی جانا ہے اسے تھوڑا سا جانا ہو گا
لب پہ آئے گی اگر آہ تو لب سینے ہوں گے
آنکھ بھر آئے تو اشکوں کو چھپانا ہو گا