موت کو بھی کبھی سینے سے لگانا ہو گا

عظیم

محفلین



موت کو بھی کبھی سینے سے لگانا ہو گا
اس بھری بزم سے اک روز کو جانا ہو گا

سنتا آیا ہوں کہ آتا ہے وہ سب سے ملنے
کیا کسی روز مری سمت بھی آنا ہو گا

میں تو نکلا تھا کسی شوق میں گھر سے اپنے
کیا خبر تھی مرے رستے میں زمانا ہو گا

لے کے آؤں میں کہاں سے نئے گیت کہ ہاں
میرے ہونٹوں پہ وہی نغمہ پرانا ہو گا

چھپ کے بیٹھیں گے اگر سخت اذیت دیں گے
دل کے زخموں کو کہیں جا کے دکھانا ہو گا

مجھ سے پہلے بھی کئی دشت میں آئے مجنوں
بعد میرے بھی کوئی اور دوانا ہو گا

کس کی جرات ہے اسے جان لے پورا پورا
جو بھی جانا ہے اسے تھوڑا سا جانا ہو گا

لب پہ آئے گی اگر آہ تو لب سینے ہوں گے
آنکھ بھر آئے تو اشکوں کو چھپانا ہو گا



 

الف عین

لائبریرین
دو مصرعے وزن کی پٹری سے کیسے اتر گئے عظیم
مطلع میں بھی 'روز کو' پسند نہیں آیا، 'روز تو' کر دو۔
باقی اشعار خوب ہیں خاص کر دل کے زخموں والا شعر زبردست لگا
 

یاسر شاہ

محفلین
ماشاء اللہ خوب کاوش ہے۔
لے کے آؤں میں کہاں سے نئے گیٹ کہ ہاں
اس مصرع میں کوئی لفظ ٹائپ سے رہ گیا ہے شاید۔

خالد اقبال تائب صاحب کے اشعار یاد آگئے جو اسی بحر و زمیں میں ہیں:


یہ یقیں خود کو بہرحال دلانا ہوگا
ہم مسافر ہیں یہاں سے ہمیں جانا ہوگا

یہ وہ بستی ہے جو بستی ہے اجڑنے کے لیے
گھر کہیں اور ہمیں جا کے بسانا ہوگا

دل بنے ایسا کہ ہم شوق سے جائیں ورنہ
دل نہ چاہے گا مگر جان سے جانا ہوگا

بند ہوتے ہی کھلیں گی یہ ہماری آنکھیں
رنج و حسرت کا ان آنکھوں میں فسانہ ہوگا

با خدا گر ہمیں پانا ہے خدا کو تائب
با خدا تک ہمیں ہر حال میں آنا ہوگا


لیجیے کلام بزبان شاعر مع ترنم و تشریح سنیے:

 

عظیم

محفلین
دو مصرعے وزن کی پٹری سے کیسے اتر گئے عظیم
مطلع میں بھی 'روز کو' پسند نہیں آیا، 'روز تو' کر دو۔
باقی اشعار خوب ہیں خاص کر دل کے زخموں والا شعر زبردست لگا
شاید آپ کا اشارہ ان دو مصرعوں کی طرف ہے

۔لے کے آؤں میں کہاں سے نئے گیت کے ہاں
۔لب پہ آئے گی اگر آہ تو لب سینے ہوں گے

پہلے مصرع میں مَیں بحر کی رعایت سمجھا ہوں یعنی
'نئے گیت کہ ہاں' کو فعلات فعول/فعِل' مجھے لگا کہ اس طرح کیا جا سکتا ہے
دوسرے میں بھی یہی معاملہ ہے 'سینے ہوں گے' کو میں سمجھا کہ آخری رکن 'فعلان' بھی کیا جا سکتا ہے
پہلے مصرعے کے ایک دو متبادل میں نے سوچ رکھے تھے لیکن ان میں بھی یہی ارکان والا معاملہ آ رہا ہے
-لے کے آؤں تو کہاں سے میں نئے گیت کوئی
 

عظیم

محفلین
ماشاء اللہ خوب کاوش ہے۔

اس مصرع میں کوئی لفظ ٹائپ سے رہ گیا ہے شاید۔

خالد اقبال تائب صاحب کے اشعار یاد آگئے جو اسی بحر و زمیں میں ہیں:


یہ یقیں خود کو بہرحال دلانا ہوگا
ہم مسافر ہیں یہاں سے ہمیں جانا ہوگا

یہ وہ بستی ہے جو بستی ہے اجڑنے کے لیے
گھر کہیں اور ہمیں جا کے بسانا ہوگا

دل بنے ایسا کہ ہم شوق سے جائیں ورنہ
دل نہ چاہے گا مگر جان سے جانا ہوگا

بند ہوتے ہی کھلیں گی یہ ہماری آنکھیں
رنج و حسرت کا ان آنکھوں میں فسانہ ہوگا

با خدا گر ہمیں پانا ہے خدا کو تائب
با خدا تک ہمیں ہر حال میں آنا ہوگا


لیجیے کلام بزبان شاعر مع ترنم و تشریح سنیے:

جزاک اللہ خیر یاسر شاہ بھائی
 

الف عین

لائبریرین
فعلان ضرور کیا جا سکتا ہے آخری رکن کو، مگر تقطیع میں تو صرف 'نے ہوگ' آتا ہے نا!
 
Top