سید محمد نقوی
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہیں معلوم، ہو سکتا ہے کہ یہ نظم پہلے محفل پر پوسٹ ہو چکی ہو۔
میں آج اسے یہاں اس لیے پوسٹ کررہا ہوں کہ پرسوں میرے ایک بہت عزیز دوست اور بھائی کی والدہ ہمیں داغ مفارقت دے گئیں، اس لیے سرچ کر کے یہ نظم نکالی سوچا کہ یہاں پیش کردوں، ہر ماں کی یاد میں۔ اگر تکرار ہے تو معافی چاہتا ہوں۔
ہر ماں کی صحت اور طول عمر کی دعا کے ساتھ۔
موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں بھی کب سکوں پاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچے تڑپ جاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچے تڑپ جاتی ہے ماں
جاتے جاتے پھر گلے بچے سے ملنے کے لئے
توڑ کر بند کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں
توڑ کر بند کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گھرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
بھوکا سونے ہی نہیں دیتی یتیموں کو کبھی
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلاکر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سوجاتی ہے ماں
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سوجاتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسووں کے ساز پر بچے کو بھلاتی ہے ماں
آنسووں کے ساز پر بچے کو بھلاتی ہے ماں
ماردیتی ہے طمانچہ گر کبھی جذبات میں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں
کب ضرورت ہو مِری بچے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سوجاتی ہے ماں
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سوجاتی ہے ماں
گھر سے جب پردیس کو جاتا ہے گودی کا پلا
ہاتھ میں قرآں لئے آگن میں آجاتی ہے ماں
ہاتھ میں قرآں لئے آگن میں آجاتی ہے ماں
دیکے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر باہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
ڈال کر باہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
ایسا لگتاہے کہ جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
دیر ہوجاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
مرتے دم بچہ نہ آئے گھر اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
حال دل جاکر سنا دیتا ہے معصومہ کو وہ
جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں
جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں
تھام کر روضے کی جالی جب تڑپتاہے کوئی
ایسا لگتاہے کہ جیسے سر کو سھلاتی ہے ماں
ایسا لگتاہے کہ جیسے سر کو سھلاتی ہے ماں
گمرہی کی گرد جم جائے نہ میرے چاند پر
بارش ایمان میں یوں ہرروز نھلاتی ہے ماں
بارش ایمان میں یوں ہرروز نھلاتی ہے ماں
اپنے پہلو میں لٹاکر روز طوطے کی طرح
ایک بارہ پانچ چودہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
ایک بارہ پانچ چودہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
عمر بھر غافل نہ ہونا ماتم شبیر سے
رات دن اپنے عمل سے ہم کو سجمھاتی ہے ماں
رات دن اپنے عمل سے ہم کو سجمھاتی ہے ماں
دوڑ کر بچے لپٹ جاتے ہیں اس رومال سے
لےکے مجلس سے تبرک گھر میں جب آتی ہے ماں
لےکے مجلس سے تبرک گھر میں جب آتی ہے ماں
یاد آتا ہے شب عاشور کا کڑیل جواں
جب کبھی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتی ہے ماں
جب کبھی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتی ہے ماں
اللہ اللہ اتحاد صبر لیلا اور حسین
باپ نے کھینچی سناں سینے کو سہلاتی ہے ماں
باپ نے کھینچی سناں سینے کو سہلاتی ہے ماں
سامنے آنکھوں کے نکلے گر جواں بیٹے کا دم
زندگی بھر سر کو دیواروں سےٹکراتی ہے ماں
زندگی بھر سر کو دیواروں سےٹکراتی ہے ماں
سب سے پہلے جان دینا فاطمہ کے لال پر
رات بھر عون ومحمد سے یہ فرماتی ہے ماں
رات بھر عون ومحمد سے یہ فرماتی ہے ماں
یہ بتا سکتی ہے بس ہم کو رباب خستہ تن
کس طرح بن دودھ کے بچے کو بھلاتی ہے ماں
کس طرح بن دودھ کے بچے کو بھلاتی ہے ماں
شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھئے
ماں ادھر منھ سے نکلتاہے ادہر آتی ہے ماں
ماں ادھر منھ سے نکلتاہے ادہر آتی ہے ماں
اپنے غم کو بھول کر روتے ہیں جو شبیر کو
ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں
ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں
باپ سے بچے بچھڑجائیں اگر پردیس میں
کربلا سے ڈھونڈنے کوفے میں خود آتی ہے ماں
کربلا سے ڈھونڈنے کوفے میں خود آتی ہے ماں
جب تلک یہ ہاتھ ہیں ہمشیر بے پردہ نہ ہو
ایک بہادر باوفا بیٹے سے فرماتی ہے ماں
ایک بہادر باوفا بیٹے سے فرماتی ہے ماں
جب رسن بستہ گزرتی ہے کسی بازار سے
ایک آوارہ وطن بیٹی کو یاد آتی ہے ماں
ایک آوارہ وطن بیٹی کو یاد آتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
جناب رضا سرسوی