ایم اسلم اوڈ
محفلین
مٹی کے اس کچے گھر سے آج آخری فرد بھی نکل گیا تھا۔ وہ تنہا گھر کی ایک ایک دیوار کو تک رہی تھی۔ یہ وہ گھر تھا جہاں ایک نسل پروان چڑھی تھی اور جس کے کتنے ہی افراد مادرِ وطن پر جاں نثار کرچکے تھے۔ جب سب لوگ اپنا ضروری سامان اردگرد گھر سے نکال رہے تھے تو گھر کی عورتیں اور بچے اس سے لپٹ لپٹ کی کتنا روئے تھے۔
”اماں! آپ یہاں کیا کریں گی۔ آپ کو ساتھ چلنا ہوگا۔“
اور اس نے پہلے کی طرح اٹل لہجے میں کہا تھا: ”تم جاﺅ میرے جیتے جی یہاں کافر قدم نہیں رکھ سکتے۔“ سورج ڈھلنے سے پہلے سب رخصت ہوگئے تھے۔ وہ بستی جہاں ہر وقت زندگی کی رونقیں گونجتی رہتی تھیں، ایک جنازے کی طرح خاموشی تھی جو اپنی حالت پر خود نوحہ خواں ہو۔
فضا میں ایک بار پھر ہیلی کاپٹروں کی گڑ گڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ اس نے سر اٹھاکر اوپر دیکھا، افق پر سیاہ دھبے نمودار ہورہے تھے۔
”آگئے! وہ بے ایمان آگئے! میرے بچوں کے قاتل آگئے!“ وہ بڑبڑارہی تھی۔
اسے معلوم نہیں تھا یہ ظالم درندے اس کے وطن میں کیوں آئے تھے۔ انہیں مسلمانوں سے کیادشمنی ہے۔ اس نے اپنے والدین سے برطانیہ کے خلاف جہاد کے قصے سنے تھے۔ جن میں اس کے دادا، پردادا نے دادِ شجاعت دی تھی۔ پھر روس کے خلاف جنگ کا زمانہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جس میں اس کی قوم کا ایک تہائی حصہ جھلس گیا تھا۔ پھر جب طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسے لگا جیسے وہ کوئی سندر سپنا دیکھ رہی ہے۔ اسے جیتے جی جنت مل گئی تھی، مگر پھر نہ معلوم کیوں اور کیسے یہ جنت یکدم اجڑگئی۔ شاید اسلام کے دشمنوں کو ان کی خوشی نہ بھائی۔ وہ بہاروں کو خزاں کے شعلوں سے سوختہ کرنے پھر آن پہنچے۔ اس بار بہار کو خزاں میں بدلنے والے کا نام ”امریکا“ تھا۔ برطانیہ، روس اور پھر امریکا.... نام الگ الگ تھے، مگر اس کے لیے سب ایک ہی جیسے تھے۔
یہ لوگ اس کے وطن میں کیوں آتے ہیں؟ کیوں یہاں فساد مچاتے اور خون بہاتے ہیں؟ یہ سوالات اس کے دماغ میں ہلچل مچائے رکھتے تھے، مگر وہ ایک سیدھی سادی دیہاتی عورت تھی۔ ان سوالات کے جواب اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ ہاں! وہ اپنے دشمنوں کو خوب پہچانتی تھی۔ دوست اور دشمن کا فرق ان لوگوں سے زیادہ سمجھتی تھی جو تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریوں کو سجاکر بھی اپنا قومی تشخص فراموش کرچکے تھے۔ اس قسم کے کچھ لوگوں نے چند روز پہلے اس کی بستی میں خوفناک قسم کے پمفلٹ تقسیم کیے تھے۔ ایسے پمفلٹ ہیلی کاپٹروں سے بھی گرائے گئے تھے۔ ان پر لکھا تھا: ”طالبان کو پناہ نہ دو، ورنہ سب مارے جاﺅگے۔ امریکی افواج قیام امن کے لیے علاقے میں آپریشن شروع کرنے والی ہیں۔ علاقہ فوری طور پر خالی کردو۔“یہ پمفلٹ مقامی زبان میں ”ہلمند“ کے صوبائی مرکز ”لشکر گاہ“ کی ان نواحی بستیوں میں تقسیم کیا جارہا تھا۔ جو ایک دو دن میں آپریشن کی زد میں آنے والی تھی۔
یہ وہ بستیاں تھیں جن کے بارے میں امریکا کو یقین تھا یہاں طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ یہاں سے طالبان کو کمک، رسد اور افرادی قوت مہیا ہوتی ہے۔ امریکا ایک طرف استنبول اور لندن کانفرنس کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈال رہا تھا مگر دوسری طرف نہایت خاموشی سے وہ افغانستان پر یلغار کے آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی فوجی کارروائی کی تیاریاں کررہا تھا۔ نیٹو کے افسران جو اس علاقے میں ایک عرصے سے پٹ رہے تھے، ”مرجع“ (Marjeh) کے نقشے پر بار بار انگلی رکھ رہے تھے۔
سات آٹھ ہزار کی آبادی پر مشتمل یہ بستی اس لحاظ سے بے حد اہم تھی کہ یہاں جنگ کی صورت میں مزاحمت کاروں کے چھپ جانے یا زندہ بچ نکلنے کے امکانات بہت کم تھے، کیونکہ مرجع اور اس کے اردگرد کا علاقہ ہموار اور میدانی ہے۔ مغربی اور جنوبی سمت دریائے ہلمند سے قریب ہونے کی وجہ سے سرسبز ہے جہاں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ جبکہ باقی علاقہ مکمل ریگستان ہے اور قریب میں کوئی پہاڑی سلسلہ نہیں جہاں طالبان اپنی روایتی گوریلا جنگ لڑسکیں۔ امریکی اور نیٹو افسران نے خاصی بحث وتمحیص اور علاقے کے سروے کے بعدیہ تصور کرلیا تھا کہ طالبان کا مضبوط مورچہ سمجھے جانے والے اس علاقے میں کامیاب آپریشن کرکے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی صرف فضائی جنگ ہی میں برتری کا ریکارڈ نہیں رکھتے بلکہ وہ زمینی معرکوں میں بھی طالبان کو شکست دے سکتے ہیں۔
اپنی کامیابی کا ہر طرح یقین کرلینے کے بعد امریکا پورے کروفر کے ساتھ افواج کو ہلمند کی حدود میں لے آیا تھا۔ امریکی اور اتحادی فوجی علاقے سے 50 ہزار کے لگ بھگ کا انخلا کراچکے تھے اور ان کی مختلف ٹکڑیاں خالی بستیوں کے ویران گھروں کے آس پاس کیمپ لگاچکی تھیں۔
کچھ ہیلی کاپٹراس کی بستی کے پاس بھی اتر آئے تھے۔ خیمے لگائے جارہے تھے۔ گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ سے زمین بار بار دہل جاتی تھی۔ فوجیوں نے آتے ہی بستی کے ایک ایک گھر کی تلاشی لی تھی مگر انہیں کوئی شخص دکھائی نہ دیا تھا۔ سب باشندے جاچکے تھے۔ تلاشی لینے والوں نے اسے ایک لاوارث بڑھیا سمجھ کر بڑی حقارت سے دیکھا تھا، مگر انہیں معلوم نہیںتھا کہ افغان معاشرہ ان کی ”ماڈرن امریکی سوسائٹی“ نہیں جہاں چہرے پر جھریاں آتے ہی عورت ”لاوارث بڈھی“ بن جاتی ہے۔ یہ مسلم افغان معاشرہ تھا جہاں عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ عورت ماں، دادی اور نانی کے روپ میں پہلے سے زیادہ مقدس ہوتی جاتی ہے۔ یہ اکیلی خاتون یہاں رہ گئی تھی تو اس لیے نہیں کہ اس کا کوئی وارث نہیں تھا۔ نہیں! وہ تو اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے رک گئی تھی اس لیے کہ وہ شہیدوں کی ماں بھی تھی اور سرزمین شہدا کی وارث تھی۔
اس نے خفیہ جگہ سے اپنے بیٹے کی کلاشن کوف نکالی جسے امریکی فوجی تلاشی کے دوران برآمد نہیں کرسکے تھے۔ فرض کی ادائیگی کا وقت آچکا تھا۔ اس نے وضو کیا، نماز ادا کی اور اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاکر خوب دعائیں کی۔ اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے اور اپنے ملک کے لیے۔ اسے معلوم تھا اس کے بعد اللہ سے مانگنے کا ایسا موقع پھر نہیں ملے گا اور ہاں اس فرض کی انجام دہی کے ساتھ وہ تو خود وہیں جارہی تھی۔ پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کا زمانہ کہاں رہتا۔ پھر تو عطائیں ہی عطائیں شروع ہونے والی تھیں۔ کلاشن کوف کو لوڈ کرکے وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی چادر میں لپٹ کر باہر نکلی اور دشمن کے کیمپ کی طرف چلی۔ بستی کے نکڑ پر دوسری بستی کی جانب جانے والے راستے پر یہ کیمپ لگا ہوا تھا۔ سامنے سپاہیوں کا مجمع خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اس نے آناً فاناً کلاشنکوف نکالی اور فائر کھول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے 14 امریکی ڈھیر ہوچکے تھے۔ جوابی فائرنگ ہوئی اور سرزمین افغانستان ایک اور پاک روح کے خون سے سیراب ہوگئی۔
ہلمند میں پیش آنے والا یہ سچا واقعہ اس علاقے کے ایک باشندے کی وساطت سے مجھ تک پہنچا ہے۔ یہ خاتون جن کا نام ”لعل مرجان بی بی“ بتایا جاتا ہے، ہلمند کے اس علاقے سے تعلق رکھتی ہے جسے میڈیا پر ”مرجاہ“ یا ”مرجیہ“ کے نام سے پکارا جارہا ہے، مگر صحیح تلفظ مرجع ہے۔ یہ ہلمند کے صوبائی مرکز ”لشکر گاہ“ سے تقریباً 18کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے جنوب میں پاکستانی صوبے بلوچستان کی سرحد لگتی ہے۔ کچی اینٹوں اور مٹی کی لپائی سے تعمیر کیے گئے مکانات میں بسنے والے یہاں کے باشندے ایک شاندار تاریخ کے حامل ہیں۔ یہاں کے بیشتر باشندوں کا تعلق علی خیل قبیلے سے ہے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس نے 1878ءکی جنگ میں برطانوی سورماﺅں کی ایک ہزار لاشیں گراکر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ان بہادر افغانوں کے جری فرزند آج پھر اپنے آباد واجداد کی تاریخ کو زندہ کررہے ہیں۔ فروری کے آغاز میں جب امریکا نے اپنے اتحادیوں کے لشکر کے ساتھ اس چھوٹے سے علاقے پر یلغار کی تھی تو اس کا دعویٰ تھا یہ آپریشن چند دنوں کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ آپریشن سے قبل نیٹو کے سربراہ نے بیان داغا تھا اگر ہم ایک بڑی کارروائی کے ذریعے مرجع پر قبضہ کرلیں تو طالبان کو شکست دی جاسکتی ہے۔ کچھ اس قسم کی خوش فہمیوں کے ساتھ 25 ہزار کا یہ لشکر بے اماں دندناتا ہوا ہلمند پہنچا تھا مگر تین ہفتوں کی درد سری کے باوجود اب تک امریکا کو برائے نام کامیابی بھی نہیں ہوئی۔
امریکا اور نیٹو کی افواج کی زمینی پوزیشن اب تک جوں کی توں ہے۔ امریکا فضائی بمباری کرکے اب تک 50 سے زائد شہریوں کو شہید اور ڈیڑھ سو کے قریب افراد کو زخمی کرچکا ہے۔ یہ خوف وہراس اس لیے پھیلایا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انخلا کرجائیں اور امریکی چھاتہ بردار خالی بستیوں میں اترکر اپنی فتح کا اعلان کرسکیں مگر جہاں لعل مرجان بی بی جیسی بہادر خواتین جنم لیتی ہوں وہاں امریکا اور اس کے چیلے چانٹوں کو اپنے ارمان پورے کرنے کا موقع کبھی نہیں مل سکتا۔ اس وقت ایسی ماﺅں کے صرف چھ سات سو بیٹے 25 ہزار سے زائد طاغوتی سپاہیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلارہے ہیں۔ طالبان اس میدانی علاقے میں بظاہر ناممکن حد تک سرفروشی اور عجیب و غریب حکمت عملی سے لڑرہے ہیں۔ وہ سرنگیں کھودکر مورچہ بند ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں شدید مزاحمت کررہی ہیں۔ ان کی کوئی ایک جگہ متعین نہیں ہے اس لیے دشمن کی بمباری اور گولہ باری کسی ہدف کے بغیر اندھا دھند برس کر ضائع ہورہی ہے۔
اس دوران دوسرے صوبوں کے طالبان اطراف وجوانب سے اتحادی کیمپوںپر مسلسل حملے کررہے ہیں جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی کارروائیاں تیزتر کردی گئی ہیں۔ اب تک کی جنگ میں امریکا کے درجنوں سپاہی مارے جاچکے ہیں۔ 50 کے لگ بھگ ٹینک اور دو درجن سے زائد بکتربند گاڑیاں نشانہ بن چکی ہیں۔ طالبان نے چار ہیلی کاپٹر گرانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ان کے دیسی ریموٹ کنٹرول بم اور بارودی سرنگیں امریکی فوج کے لیے موت کی سرحد بن گئی ہیں۔ ”آپریشن اناکوانڈا“ اور ”آپریشن خنجر“ کی طرح ”آپریشن مشترک“ بھی دم توڑنے کو ہے اور شاید اس کے بعد ایسی غلطی دہرانا امریکا کے بس میںہی نہ رہے۔
http://www.islamicupdates.com/iu/in...7-43-02&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2
”اماں! آپ یہاں کیا کریں گی۔ آپ کو ساتھ چلنا ہوگا۔“
اور اس نے پہلے کی طرح اٹل لہجے میں کہا تھا: ”تم جاﺅ میرے جیتے جی یہاں کافر قدم نہیں رکھ سکتے۔“ سورج ڈھلنے سے پہلے سب رخصت ہوگئے تھے۔ وہ بستی جہاں ہر وقت زندگی کی رونقیں گونجتی رہتی تھیں، ایک جنازے کی طرح خاموشی تھی جو اپنی حالت پر خود نوحہ خواں ہو۔
فضا میں ایک بار پھر ہیلی کاپٹروں کی گڑ گڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ اس نے سر اٹھاکر اوپر دیکھا، افق پر سیاہ دھبے نمودار ہورہے تھے۔
”آگئے! وہ بے ایمان آگئے! میرے بچوں کے قاتل آگئے!“ وہ بڑبڑارہی تھی۔
اسے معلوم نہیں تھا یہ ظالم درندے اس کے وطن میں کیوں آئے تھے۔ انہیں مسلمانوں سے کیادشمنی ہے۔ اس نے اپنے والدین سے برطانیہ کے خلاف جہاد کے قصے سنے تھے۔ جن میں اس کے دادا، پردادا نے دادِ شجاعت دی تھی۔ پھر روس کے خلاف جنگ کا زمانہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جس میں اس کی قوم کا ایک تہائی حصہ جھلس گیا تھا۔ پھر جب طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسے لگا جیسے وہ کوئی سندر سپنا دیکھ رہی ہے۔ اسے جیتے جی جنت مل گئی تھی، مگر پھر نہ معلوم کیوں اور کیسے یہ جنت یکدم اجڑگئی۔ شاید اسلام کے دشمنوں کو ان کی خوشی نہ بھائی۔ وہ بہاروں کو خزاں کے شعلوں سے سوختہ کرنے پھر آن پہنچے۔ اس بار بہار کو خزاں میں بدلنے والے کا نام ”امریکا“ تھا۔ برطانیہ، روس اور پھر امریکا.... نام الگ الگ تھے، مگر اس کے لیے سب ایک ہی جیسے تھے۔
یہ لوگ اس کے وطن میں کیوں آتے ہیں؟ کیوں یہاں فساد مچاتے اور خون بہاتے ہیں؟ یہ سوالات اس کے دماغ میں ہلچل مچائے رکھتے تھے، مگر وہ ایک سیدھی سادی دیہاتی عورت تھی۔ ان سوالات کے جواب اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ ہاں! وہ اپنے دشمنوں کو خوب پہچانتی تھی۔ دوست اور دشمن کا فرق ان لوگوں سے زیادہ سمجھتی تھی جو تعلیم کی بڑی بڑی ڈگریوں کو سجاکر بھی اپنا قومی تشخص فراموش کرچکے تھے۔ اس قسم کے کچھ لوگوں نے چند روز پہلے اس کی بستی میں خوفناک قسم کے پمفلٹ تقسیم کیے تھے۔ ایسے پمفلٹ ہیلی کاپٹروں سے بھی گرائے گئے تھے۔ ان پر لکھا تھا: ”طالبان کو پناہ نہ دو، ورنہ سب مارے جاﺅگے۔ امریکی افواج قیام امن کے لیے علاقے میں آپریشن شروع کرنے والی ہیں۔ علاقہ فوری طور پر خالی کردو۔“یہ پمفلٹ مقامی زبان میں ”ہلمند“ کے صوبائی مرکز ”لشکر گاہ“ کی ان نواحی بستیوں میں تقسیم کیا جارہا تھا۔ جو ایک دو دن میں آپریشن کی زد میں آنے والی تھی۔
یہ وہ بستیاں تھیں جن کے بارے میں امریکا کو یقین تھا یہاں طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ یہاں سے طالبان کو کمک، رسد اور افرادی قوت مہیا ہوتی ہے۔ امریکا ایک طرف استنبول اور لندن کانفرنس کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈال رہا تھا مگر دوسری طرف نہایت خاموشی سے وہ افغانستان پر یلغار کے آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی فوجی کارروائی کی تیاریاں کررہا تھا۔ نیٹو کے افسران جو اس علاقے میں ایک عرصے سے پٹ رہے تھے، ”مرجع“ (Marjeh) کے نقشے پر بار بار انگلی رکھ رہے تھے۔
سات آٹھ ہزار کی آبادی پر مشتمل یہ بستی اس لحاظ سے بے حد اہم تھی کہ یہاں جنگ کی صورت میں مزاحمت کاروں کے چھپ جانے یا زندہ بچ نکلنے کے امکانات بہت کم تھے، کیونکہ مرجع اور اس کے اردگرد کا علاقہ ہموار اور میدانی ہے۔ مغربی اور جنوبی سمت دریائے ہلمند سے قریب ہونے کی وجہ سے سرسبز ہے جہاں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ جبکہ باقی علاقہ مکمل ریگستان ہے اور قریب میں کوئی پہاڑی سلسلہ نہیں جہاں طالبان اپنی روایتی گوریلا جنگ لڑسکیں۔ امریکی اور نیٹو افسران نے خاصی بحث وتمحیص اور علاقے کے سروے کے بعدیہ تصور کرلیا تھا کہ طالبان کا مضبوط مورچہ سمجھے جانے والے اس علاقے میں کامیاب آپریشن کرکے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی صرف فضائی جنگ ہی میں برتری کا ریکارڈ نہیں رکھتے بلکہ وہ زمینی معرکوں میں بھی طالبان کو شکست دے سکتے ہیں۔
اپنی کامیابی کا ہر طرح یقین کرلینے کے بعد امریکا پورے کروفر کے ساتھ افواج کو ہلمند کی حدود میں لے آیا تھا۔ امریکی اور اتحادی فوجی علاقے سے 50 ہزار کے لگ بھگ کا انخلا کراچکے تھے اور ان کی مختلف ٹکڑیاں خالی بستیوں کے ویران گھروں کے آس پاس کیمپ لگاچکی تھیں۔
کچھ ہیلی کاپٹراس کی بستی کے پاس بھی اتر آئے تھے۔ خیمے لگائے جارہے تھے۔ گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ سے زمین بار بار دہل جاتی تھی۔ فوجیوں نے آتے ہی بستی کے ایک ایک گھر کی تلاشی لی تھی مگر انہیں کوئی شخص دکھائی نہ دیا تھا۔ سب باشندے جاچکے تھے۔ تلاشی لینے والوں نے اسے ایک لاوارث بڑھیا سمجھ کر بڑی حقارت سے دیکھا تھا، مگر انہیں معلوم نہیںتھا کہ افغان معاشرہ ان کی ”ماڈرن امریکی سوسائٹی“ نہیں جہاں چہرے پر جھریاں آتے ہی عورت ”لاوارث بڈھی“ بن جاتی ہے۔ یہ مسلم افغان معاشرہ تھا جہاں عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ عورت ماں، دادی اور نانی کے روپ میں پہلے سے زیادہ مقدس ہوتی جاتی ہے۔ یہ اکیلی خاتون یہاں رہ گئی تھی تو اس لیے نہیں کہ اس کا کوئی وارث نہیں تھا۔ نہیں! وہ تو اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے رک گئی تھی اس لیے کہ وہ شہیدوں کی ماں بھی تھی اور سرزمین شہدا کی وارث تھی۔
اس نے خفیہ جگہ سے اپنے بیٹے کی کلاشن کوف نکالی جسے امریکی فوجی تلاشی کے دوران برآمد نہیں کرسکے تھے۔ فرض کی ادائیگی کا وقت آچکا تھا۔ اس نے وضو کیا، نماز ادا کی اور اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاکر خوب دعائیں کی۔ اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے اور اپنے ملک کے لیے۔ اسے معلوم تھا اس کے بعد اللہ سے مانگنے کا ایسا موقع پھر نہیں ملے گا اور ہاں اس فرض کی انجام دہی کے ساتھ وہ تو خود وہیں جارہی تھی۔ پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کا زمانہ کہاں رہتا۔ پھر تو عطائیں ہی عطائیں شروع ہونے والی تھیں۔ کلاشن کوف کو لوڈ کرکے وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی چادر میں لپٹ کر باہر نکلی اور دشمن کے کیمپ کی طرف چلی۔ بستی کے نکڑ پر دوسری بستی کی جانب جانے والے راستے پر یہ کیمپ لگا ہوا تھا۔ سامنے سپاہیوں کا مجمع خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اس نے آناً فاناً کلاشنکوف نکالی اور فائر کھول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے 14 امریکی ڈھیر ہوچکے تھے۔ جوابی فائرنگ ہوئی اور سرزمین افغانستان ایک اور پاک روح کے خون سے سیراب ہوگئی۔
ہلمند میں پیش آنے والا یہ سچا واقعہ اس علاقے کے ایک باشندے کی وساطت سے مجھ تک پہنچا ہے۔ یہ خاتون جن کا نام ”لعل مرجان بی بی“ بتایا جاتا ہے، ہلمند کے اس علاقے سے تعلق رکھتی ہے جسے میڈیا پر ”مرجاہ“ یا ”مرجیہ“ کے نام سے پکارا جارہا ہے، مگر صحیح تلفظ مرجع ہے۔ یہ ہلمند کے صوبائی مرکز ”لشکر گاہ“ سے تقریباً 18کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کے جنوب میں پاکستانی صوبے بلوچستان کی سرحد لگتی ہے۔ کچی اینٹوں اور مٹی کی لپائی سے تعمیر کیے گئے مکانات میں بسنے والے یہاں کے باشندے ایک شاندار تاریخ کے حامل ہیں۔ یہاں کے بیشتر باشندوں کا تعلق علی خیل قبیلے سے ہے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس نے 1878ءکی جنگ میں برطانوی سورماﺅں کی ایک ہزار لاشیں گراکر ایک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ان بہادر افغانوں کے جری فرزند آج پھر اپنے آباد واجداد کی تاریخ کو زندہ کررہے ہیں۔ فروری کے آغاز میں جب امریکا نے اپنے اتحادیوں کے لشکر کے ساتھ اس چھوٹے سے علاقے پر یلغار کی تھی تو اس کا دعویٰ تھا یہ آپریشن چند دنوں کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ آپریشن سے قبل نیٹو کے سربراہ نے بیان داغا تھا اگر ہم ایک بڑی کارروائی کے ذریعے مرجع پر قبضہ کرلیں تو طالبان کو شکست دی جاسکتی ہے۔ کچھ اس قسم کی خوش فہمیوں کے ساتھ 25 ہزار کا یہ لشکر بے اماں دندناتا ہوا ہلمند پہنچا تھا مگر تین ہفتوں کی درد سری کے باوجود اب تک امریکا کو برائے نام کامیابی بھی نہیں ہوئی۔
امریکا اور نیٹو کی افواج کی زمینی پوزیشن اب تک جوں کی توں ہے۔ امریکا فضائی بمباری کرکے اب تک 50 سے زائد شہریوں کو شہید اور ڈیڑھ سو کے قریب افراد کو زخمی کرچکا ہے۔ یہ خوف وہراس اس لیے پھیلایا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انخلا کرجائیں اور امریکی چھاتہ بردار خالی بستیوں میں اترکر اپنی فتح کا اعلان کرسکیں مگر جہاں لعل مرجان بی بی جیسی بہادر خواتین جنم لیتی ہوں وہاں امریکا اور اس کے چیلے چانٹوں کو اپنے ارمان پورے کرنے کا موقع کبھی نہیں مل سکتا۔ اس وقت ایسی ماﺅں کے صرف چھ سات سو بیٹے 25 ہزار سے زائد طاغوتی سپاہیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلارہے ہیں۔ طالبان اس میدانی علاقے میں بظاہر ناممکن حد تک سرفروشی اور عجیب و غریب حکمت عملی سے لڑرہے ہیں۔ وہ سرنگیں کھودکر مورچہ بند ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں شدید مزاحمت کررہی ہیں۔ ان کی کوئی ایک جگہ متعین نہیں ہے اس لیے دشمن کی بمباری اور گولہ باری کسی ہدف کے بغیر اندھا دھند برس کر ضائع ہورہی ہے۔
اس دوران دوسرے صوبوں کے طالبان اطراف وجوانب سے اتحادی کیمپوںپر مسلسل حملے کررہے ہیں جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی کارروائیاں تیزتر کردی گئی ہیں۔ اب تک کی جنگ میں امریکا کے درجنوں سپاہی مارے جاچکے ہیں۔ 50 کے لگ بھگ ٹینک اور دو درجن سے زائد بکتربند گاڑیاں نشانہ بن چکی ہیں۔ طالبان نے چار ہیلی کاپٹر گرانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ان کے دیسی ریموٹ کنٹرول بم اور بارودی سرنگیں امریکی فوج کے لیے موت کی سرحد بن گئی ہیں۔ ”آپریشن اناکوانڈا“ اور ”آپریشن خنجر“ کی طرح ”آپریشن مشترک“ بھی دم توڑنے کو ہے اور شاید اس کے بعد ایسی غلطی دہرانا امریکا کے بس میںہی نہ رہے۔
http://www.islamicupdates.com/iu/in...7-43-02&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2