موت

موت

موت کا تصور کتنا پر لطف ہے۔ موت ہی وہ راہ ہے جو بے چین روح‌ کو اس جہاں‌کے پنجرے سے نجات دلاتی ہے۔ زندگی موت کی متضاد نہیں۔ موت ہی دراصل زندگی ہے۔ دکھ، درد اور افسوس اس وقت تک ہم پر مسلط ہیں‌ جب تک ہم زندگی و موت کا درست ادراک نہیں‌کرلیتے۔ یہ نہیں‌جان لیتے کہ زندگی و موت کا سلسلہ کیونکر چل رہا ہے۔ شعور کی اس کیفیت میں‌ جب یہ اشکار ہوتا ہے کہ زندگی و موت کیا ہے تو ایک نشاط کی کیفیت سی طاری ہوجاتی ہے۔ پھر انسان زندگی اس امید پر گزارتا ہے کہ موت کب ائے گی کہ وہ لذت حقیقی سے لطف اندوز ہو۔ اپنے خالق کا دیدار کرسکے انشاللہ

نوٹ: تبصرے یہاں کریں۔
 
موت کا تصور کتنا فرحت بخش ہے اس کا اکثر لوگوں کو اندازہ نہیں۔ موت ہی تو اصل انعام ہے۔
ذیل کی یہ تحریر اگرچہ میری نہیں مگر موت سے محبت کا ایک راز کھولتی ہے۔
05_04.gif

جنگ
 
جیسے سورج صبح ِنو کا اعلان ہے اسی طرح‌موت انسان کو روشنی میں‌لے اتی ہے۔ یکلخت ایک نئے جہاں‌کا ادراک ہوتا ہے اور سچائی کی طرف سفر شروع ہوتا ہے منزل نظر انا شروع ہوجاتی ہے۔ جس انسان کی تیاری منزل کے لیے ہی ہوتی ہے اسکے تو نیارے ہوجاتے ہیں یہی تو ہے جس کا انتظار تھا۔ وہ محبوب جس کی تڑپ میں‌زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق بتانے کی سعی کی تھی اس کا انعام اب سامنے ہے۔ واہ۔ لذت حقیقی سے اشنائی اب ہونے کو ہے۔ موت ہی تو ہے جو اس لذت کے حصول کا پہلا قدم ہے۔
 
غزالی نے موت کے بارے میں خوبصورت باب اپنی کتاب احیاء العلوم اور کیمائے سعادت میں‌کھنچا ہے۔ موت دراصل روح کی جسم سے ازادی کا نام ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ روح ایک سوار ہے جبکہ جسم سواری۔ عالم فانی میں جو کہ درحقیقت ازمائش گاہ ہے روح کی بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور اس عمل میں‌جسم معاون ہوتا ہے کیونکہ جسم مادی ہے اور مادی دنیا سے منفعت حاصل کرتا ہے۔ جسم خود کوئی "ذات" نہیں ہے اور ہرلحظہ بدلتا رہتا ہے۔ یعنی وہ جسم جو ایک لمحہ پہلے ہمارے ساتھ تھا وہ ایک لمحہ بعد نہ ہوگا کیونکہ وہ خلیات جو پہلے تھے نئے خلیات سے تبدیل ہوجاتے ہیں تو موت کے ذریعے جب ہر لحظہ تبدیل ہوتے جسم سے چھٹکارہ مل جائے تو کیا افسوس؟ ہاں روح تو ذات ہے اور باقی ہے جو موت کے بعد اپنے ابدی مقام تک پہنچ جاتی ہے۔
 
زندگی کی مثال شکاری کے جال کی سی ہے کہ جب شکار ہاتھ اجاتا ہے تو شکاری جال ہاتھ سے رکھ دیتا کہ اس بوجھ کا اتارنا ہی اچھا ہے۔ لہذاجب گوہر مقصود انسان کے ہاتھ اجاتا ہے تو زندگی کے بوجھ سے ازادی ہی اچھی ہے۔ مگر اس بوجھ سے آزادی یعنی موت اس وقت ہی اچھی لگے گی جب گوہر مقصود ہاتھ ایاہوا ہو۔ خدانہ خواستہ جب گوہرِمقصود ہی ہاتھ میں‌نہیں‌اور زندگی بھی ہاتھ سے گئی تو سوائے افسوس کے کیا حاصل؟ لہذا موت کی محبت اسے ہی ہوسکتی ہے جو زندگی کے آصل فائدے حاصل کرچکا ہو۔
جاری۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
غزالی نے موت کے بارے میں خوبصورت باب اپنی کتاب احیاء العلوم اور کیمائے سعادت میں‌کھنچا ہے۔ موت دراصل روح کی جسم سے ازادی کا نام ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ روح ایک سوار ہے جبکہ جسم سواری۔ عالم فانی میں جو کہ درحقیقت ازمائش گاہ ہے روح کی بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور اس عمل میں‌جسم معاون ہوتا ہے کیونکہ جسم مادی ہے اور مادی دنیا سے منفعت حاصل کرتا ہے۔ جسم خود کوئی "ذات" نہیں ہے اور ہرلحظہ بدلتا رہتا ہے۔ یعنی وہ جسم جو ایک لمحہ پہلے ہمارے ساتھ تھا وہ ایک لمحہ بعد نہ ہوگا کیونکہ وہ خلیات جو پہلے تھے نئے خلیات سے تبدیل ہوجاتے ہیں تو موت کے ذریعے جب ہر لحظہ تبدیل ہوتے جسم سے چھٹکارہ مل جائے تو کیا افسوس؟ ہاں روح تو ذات ہے اور باقی ہے جو موت کے بعد اپنے ابدی مقام تک پہنچ جاتی ہے۔
بہت خوب
 
Top