عباد اللہ
محفلین
'
موجبِ درد بھی راحت کا سبب بھی کوئی ہےاندمالِ غمِ جاں خندۂ لب بھی کوئی ہے
حیطۂ جاں میں ہے پرہول یہ آشوبِ سکوت
پردۂ چپ میں مگر شور و شغب بھی کوئی ہے
چاہ کر بھی نہ کرے مجھ سے تغافل کا گلہ
سخت حیرت ہے کہ وہ مہر بہ لب بھی کوئی ہے
ڈھونڈتے ہیں کہ جو شایاں بھی تو ہو اس کے لئے
بول فرہنگ کہیں ایسا لقب بھی کوئی ہے
جوششِ عرضِ تمنا کو دبا کر رکھئے
خلوتِ حسن میں کچھ پاسِ ادب بھی کوئی ہے
ورد کرتے ہیں انا العشق کا سوتے ہوئے بھی
پوچھیو میر سے جا کر کہ یہ ڈھب بھی کوئی ہے
عباد اللہ
آخری تدوین: