موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لے جارہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی

جاسم محمد

محفلین
موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لے جارہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی
ویب ڈیسک بدھ 17 مارچ 2021

2155725-jucticeqazifaizesa-1615972940-913-640x480.jpg

میری گفتگو کا مکمل حصہ میڈیا رپورٹ نہیں کرتا، چاہتا ہوں لوگ میری بات براہ راست سنیں، جسٹس قاضی فائز


اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لیکر جارہی ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی براہ راست کوریج کی درخواست پر سماعت کی۔ وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے ٹرائل کی براہ راست کوریج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ براہ راست کوریج سے عدالتی وقار میں کمی آئے گی، عدالتی کارروائی تکنیکی نوعیت کی ہوتی ہے جو عام آدمی سمجھ نہیں سکتا، کورٹ رپورٹرز آسان زبان میں کارروائی عوام تک پہنچاتے ہیں، ججز کے کنڈکٹ پر پارلیمنٹ میں بھی بحث نہیں ہو سکتی، براہ راست کوریج سے ججز کے کنڈکٹ پر عوامی سطح پر بحث ہوگی جس سے ججز عوامی سطح پر مقبول اور شناخت ہوسکیں گے، جس سے خدشہ ہے فیصلے قانونی نہیں مقبولیت پر مبنی ہوں گے، ججز ٹی وی پر نہیں اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔

جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کبھی تصویر نہیں بنی تھی، اب عدالت آتے جاتے میری ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، عمران خان اور وزیر قانون نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، جسٹس فائز عیسی کو راستے سے ہٹانے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیے، فروغ نسیم نے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عہدے کا نا جائز استعمال کیا، میرے ساتھ حکومتی عہدیداروں کا رویہ تضحیک آمیز ہے، اپنی رقم سے خریدی جائیداد راتوں رات میرے شوہر کی بنادی گئی، عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہوں، عمران خان میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے انہیں ٹوکا کہ اس وقت سماعت کی براہ راست نشریات کی درخواست پر سماعت ہورہی ہے۔

سرینا عیسی نے کہا کہ جون 2020 تک کے میرے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی گئی، شہزاد اکبر نے نوکری شروع کی تو انکی تنخواہ 35 ہزار تھی، وہ آج امیر آدمی ہیں لیکن کبھی اثاثے ظاہر نہیں کیے، ان کے حوالے سے ہر سچ پر پردہ ڈالا جا رہا ہے، نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر شہزاد اکبر کے معاملے پر خاموش کیوں ہیں، عدالت حکم دے تو براہ راست کوریج کا بندوبست کر سکتی ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی خود عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ جسٹس منظور ملک نے میری رہنمائی کی ہے، ان کی ہدایت پر کوشش ہے جذباتی نہ ہوں، عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی لیکن ملک دشمنوں کے خلاف ففتھ جنریشن وار نہیں ہورہی، سوشل میڈیا بریگیڈ منہ چھپا کر حملے کررہی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لیکر جارہی ہے، میرے خلاف صحافی وحید ڈوگر کی شناخت کیا ہے؟ کوئی نہیں بتاتا، پاکستان میں اس وقت ڈوگر جیسے ٹاؤٹ بھرے پڑے ہیں، آٹھ ہزار روپے پر نیب کا ملازم شہزاد اکبر عدلیہ کو لیکچر دیتا ہے، ہم احمقوں کی جنت میں نہیں رہ رہے، چاہتا ہوں لوگ میری بات براہ راست سنیں، میری گفتگو کا مکمل حصہ میڈیا رپورٹ نہیں کرتا، صدر مملکت بھول جاتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ورکر ہیں، کیچڑ مجھ پر اچھالا گیا لیکن برداشت ان سے نہیں ہورہا تھا، صدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر تین انٹرویوز دیے اور کہا ریفرنس پر خاموش رہنے اور میڈیا ٹرائل کا بھی آپشن تھا، تیسرا آپشن جوڈیشل کونسل کا تھا جو استعمال کیا، سچ بولتا رہوں گا چاہے کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ صدر کبھی میڈیا ٹرائل نہیں کرواتے یہ خود ہو جاتا ہے، بہتر ہو گا ان باتوں پر نہ جائیں، عدالت جس سماعت کے لیے بیٹھی ہے اس سے بات دوسری طرف جاچکی ہے، ہمیں کمنٹری سننے پر مجبور نہ کریں، آپ بات اس طرف لے گئے کہ حکومت نے آپ کی تضحیک ہو گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مزید تین سال بینچ میں رہنے یا پنشن لینے میں کوئی دلچسپی نہیں، میری دلچسپی صرف عدلیہ کی عزت اور احترام میں ہے، میرے خلاف یوٹیوب پر پراپگینڈہ کیا جا رہا ہے، یوٹیوب چینل نہیں بنا سکتا اس لیے عدالت میں کھڑا ہوں، بول ٹی وی کا مالک کون ہے یہ کوئی نہیں بتائے گا، سمیع ابراہیم نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو آصف سعید کھوتا کہا، دبئی میں بول ٹی وی کے شیئرز کس کے پاس ہیں میڈیا ذکر نہیں کرے گا، میرے نام سے تین جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹس بنے ہیں، 3 بار خط لکھ چکا کہ میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں۔

عدالت نے جسٹس عیسی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مزید تین سال بینچ میں رہنے یا پنشن لینے میں کوئی دلچسپی نہیں، میری دلچسپی صرف عدلیہ کی عزت اور احترام میں ہے
بالکل۔ نواز شریف کا حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس ٹیکنکل بنیادوں پر بند کر کے اور میڈیا میں اس پر بات کرنے کی پابندی لگانے سے عدلیہ کی عزت اور احترام بڑھ گیا۔ :)
No live shows on Hudaibiya, rules SC
 

سیما علی

لائبریرین
موجودہ حکومت سے قبل یہ ملک احمقوں کی جنت تھا کیونکہ اس سے پہلے کسی جج سے رسیدیں نہیں مانگی گئی تھ
“کس ماحول میں زندہ ہیں ‘‘

حسن نثار
18 فروری ، 2021
عمر ڈھلنے لگے تو یادداشت بھی دھیرے دھیرے غروب ہونے لگتی ہے ۔یہ بیش قیمت شعر شاید افتخار عارف کا ہے، نہ ہو تو ان سے بھی معافی آپ سے بھی معذرت؎

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان! بہت شرمندہ ہیں

میں نے اس میں ’’حسبِ تجربہ ‘‘تبدیلی کی ہے۔

کس ماحول میں زندہ ہیں
یار! بہت شرمندہ ہیں

اخباروں سے لیکر چوراہوں تک، ٹی وی چینلز سے درس گاہوں تک، تراویحیوںسے لیکر تلاوتوں تک، نمازوں سے لیکر حج عمروں تک نور ہی نور ہے لیکن ہم سب کس ماحول میں زندہ ہیں ؟ نہ علم نہ علاج، نہ عمل نہ انصاف، نہ چھت نہ زمین، کوئی چودھری کوئی کمی کمین۔کیا اسی ملک ، معاشرہ اور ماحول کیلئے وہ سب کچھ ہوا جو قیام پاکستان کی پہچان ہے ؟ ہم جن سے ڈرتے اور محبت بھی کرتے ہیں ان کی ہدایات، تعلیمات، احکامات پر عمل سے اتنا دور رہ کر کیسے جی رہے ہیں ؟ جیسے جی رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں ’’کس ماحول میں زندہ ہیں ؟‘‘

بیشتر کا تکیہ کلام ....’’خدا کا خوف کروجی ‘‘ لیکن یہ خوف کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ حرمتِ رسول ؐ پر جان بھی قربان ہے لیکن ان کے فرمودات اور اپنے مفادات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ؟

وہ ہمارے لئے کیسا ماحول اور معاشرہ چاہتے تھے ؟فرمایا ’’ یتیم بچے کے سامنے اپنے بچے سے بھی پیار نہ کرو کہ معصوم یتیم بچے کا احساس محرومی جاگ اٹھے گا ‘‘۔مدینہ النبی کے میدان میں بچوں کو کھیلتے دیکھا تو صحابہ سمیت رک کر انہیں دیکھنے اور خوش ہونے لگے۔ہوا تیز تر اور ٹھنڈی ہوئی کہ سورج ڈھلنے لگا تھا تو ارد گرد کے کچے گھروں سے مائوں نے اپنے اپنے جگرگوشوں کو بلانا شروع کر دیا تو آپ نے اشارے سے منع فرمایا ۔سردی تیزی سے بڑھنے لگی تو کچھ مائیں آپ کے پاس آئیں اور روکنے کی وجہ جاننا چاہی تو فرمایا ’’مائوں والوں کو تو مائیں بلالیں گی لیکن جن کی مائیں نہیں ان بچوں کے دلوں پر کیا گزرے گی۔تھوڑی دیر میں اندھیرا ہوتے ہی خود اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے ‘‘۔

پتھر دل آدمی بھی جب یہ پڑھتا ہے تو پگھل جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کیا واقعی ہم ان کے وارث ہیں ؟ کیا سچ مچ ہمیں ان سے دور پار کی بھی کوئی نسبت ہے ؟ ہم کس ماحول میں زندہ ہیں ؟ جہاںبچے رکشائوں، سیڑھیوں، ہسپتالوں کے برآمدوں میں جنے جاتے ہیں اور زندہ بچ جائیں تو چائلڈ لیبر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، آوارہ پھرتے ہیں، آرسینک ملا پانی اور کیمیکل زدہ دودھ پیتے ہیں، بیمار ہوں تو دوا نہیں اور ہو تو دو نمبر جعلی دوا کا خطرہ ۔

نجانے کتنی بیٹیاں معمولی جہیز کے ا نتظار میں شادی کی عمروں سے گزر رہی ہیں اور ان کے ماں باپ جہنموں سے گزر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ’’مہندیوں‘‘ کی تقریبات ہی مان نہیں، ایک ایک لہنگا کئی کئی لاکھ کا ۔شکیب جلالی نے فریاد کی تھی۔

رہتا ہے اک ملول سا چہرہ پڑوس میں

اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو

لیکن اس ماحول میں ایک دوسرے کو زخم لگانے، چھیلنے، کریدنے میں مزہ آتا ہے ۔کیا واقعی یہ معاشرہ ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک عضو کو چوٹ لگے تو پورا جسم اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے ؟یا اس جسم کا ہر عضو دوسرے اعضا کو نوچنے، کاٹنے کے درپے ہے؟

سیاست صنعت بن گئی

جہالت علمیت بن گئی

ذلت عزت بن گئی

تجارت رشوت بن گئی

شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی

الٹا لٹکوگے تو پھر سیدھا دکھائی دےگا

دلیل دفن ہو چکی، قبرستان نامعلوم ورنہ دلیل کی قبر پر فاتحہ ہی پڑھ لیتے ۔

آقاؐ نے آغاز فرمایا ۔عقل، فکر، تدبر، دلیل کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی ۔یاد کیجئے جب صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ

’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے ایک فوج نکلا چاہتی ہے تو کیا تم میری اس بات کو سچ مانو گے ‘‘؟(بخاری)

ساری قوم نے بیک آواز جواب دیا ’’ہم آپ کی بات کو ضرور سچ مانیں گے کیونکہ آپ صادق اور امین ہیں کیونکہ آپ نے ساری زندگی کبھی جھوٹ نہیں بولا ‘‘اور ان کے اس جواب پر حضور ؐ نے انہیں اس دلیل کے ساتھ دعوت حق کی طرف مائل کیا تھا کہ اگر میں نے آج سے پہلے کبھی جھوٹ نہیں بولا تو آج کیوں بولوں گا؟

ایمان لانے کا مطلب دلائل کی بنیاد پر (عقل و بصیرت کے ذریعہ )قرآنی تعلیمات سے قائل ہو کر دل ودماغ کی گہرائی او ر سچائی سے قرآن کی اطاعت کرنا ہے ۔قرآن گواہ ہے کہ کفار حضور ؐ کی دعوت پر ایمان لانے کیلئے آپ سے معجزات کا مطالبہ کرتےتھے ۔

(53/ھود،7/الرعد، 50/العنکبوت)

دلیل تفکر اور تدبر کی بیٹی ہے ۔

’’خدا کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ‘‘(22/الانفال)

اور دوسرے مقام پر آیا

ﷲ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے (55/الانفال)

یعنی رب کے نزدیک عقل سے کام نہ لینا یا کفر کرنا ایک ہی بات ہے ۔

نہ تفکر نہ تدبر نہ عقل نہ دلیل۔ہم کس ماحول میں زندہ ہیں؟ اپوزیشن حکومت کو اور حکومت اپوزیشن کو جھوٹ کے طعنے دیتی ہے جبکہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بڑا جھوٹا کون ہے اور ہمارا تازہ ترین فخر یہ کہ IMFپروگرام بحال، 50کروڑ ڈالر ملنے کی راہ ہموار ۔کشکول زندہ باد

کس ماحول میں زندہ ہیں
یار!بہت شرمندہ ہیں
’’کس ماحول میں زندہ ہیں ‘‘
 

جاسم محمد

محفلین
“کس ماحول میں زندہ ہیں ‘‘

حسن نثار
18 فروری ، 2021
عمر ڈھلنے لگے تو یادداشت بھی دھیرے دھیرے غروب ہونے لگتی ہے ۔یہ بیش قیمت شعر شاید افتخار عارف کا ہے، نہ ہو تو ان سے بھی معافی آپ سے بھی معذرت؎

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان! بہت شرمندہ ہیں

میں نے اس میں ’’حسبِ تجربہ ‘‘تبدیلی کی ہے۔

کس ماحول میں زندہ ہیں
یار! بہت شرمندہ ہیں

اخباروں سے لیکر چوراہوں تک، ٹی وی چینلز سے درس گاہوں تک، تراویحیوںسے لیکر تلاوتوں تک، نمازوں سے لیکر حج عمروں تک نور ہی نور ہے لیکن ہم سب کس ماحول میں زندہ ہیں ؟ نہ علم نہ علاج، نہ عمل نہ انصاف، نہ چھت نہ زمین، کوئی چودھری کوئی کمی کمین۔کیا اسی ملک ، معاشرہ اور ماحول کیلئے وہ سب کچھ ہوا جو قیام پاکستان کی پہچان ہے ؟ ہم جن سے ڈرتے اور محبت بھی کرتے ہیں ان کی ہدایات، تعلیمات، احکامات پر عمل سے اتنا دور رہ کر کیسے جی رہے ہیں ؟ جیسے جی رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں ’’کس ماحول میں زندہ ہیں ؟‘‘

بیشتر کا تکیہ کلام ....’’خدا کا خوف کروجی ‘‘ لیکن یہ خوف کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ حرمتِ رسول ؐ پر جان بھی قربان ہے لیکن ان کے فرمودات اور اپنے مفادات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ؟

وہ ہمارے لئے کیسا ماحول اور معاشرہ چاہتے تھے ؟فرمایا ’’ یتیم بچے کے سامنے اپنے بچے سے بھی پیار نہ کرو کہ معصوم یتیم بچے کا احساس محرومی جاگ اٹھے گا ‘‘۔مدینہ النبی کے میدان میں بچوں کو کھیلتے دیکھا تو صحابہ سمیت رک کر انہیں دیکھنے اور خوش ہونے لگے۔ہوا تیز تر اور ٹھنڈی ہوئی کہ سورج ڈھلنے لگا تھا تو ارد گرد کے کچے گھروں سے مائوں نے اپنے اپنے جگرگوشوں کو بلانا شروع کر دیا تو آپ نے اشارے سے منع فرمایا ۔سردی تیزی سے بڑھنے لگی تو کچھ مائیں آپ کے پاس آئیں اور روکنے کی وجہ جاننا چاہی تو فرمایا ’’مائوں والوں کو تو مائیں بلالیں گی لیکن جن کی مائیں نہیں ان بچوں کے دلوں پر کیا گزرے گی۔تھوڑی دیر میں اندھیرا ہوتے ہی خود اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے ‘‘۔

پتھر دل آدمی بھی جب یہ پڑھتا ہے تو پگھل جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کیا واقعی ہم ان کے وارث ہیں ؟ کیا سچ مچ ہمیں ان سے دور پار کی بھی کوئی نسبت ہے ؟ ہم کس ماحول میں زندہ ہیں ؟ جہاںبچے رکشائوں، سیڑھیوں، ہسپتالوں کے برآمدوں میں جنے جاتے ہیں اور زندہ بچ جائیں تو چائلڈ لیبر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، آوارہ پھرتے ہیں، آرسینک ملا پانی اور کیمیکل زدہ دودھ پیتے ہیں، بیمار ہوں تو دوا نہیں اور ہو تو دو نمبر جعلی دوا کا خطرہ ۔

نجانے کتنی بیٹیاں معمولی جہیز کے ا نتظار میں شادی کی عمروں سے گزر رہی ہیں اور ان کے ماں باپ جہنموں سے گزر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ’’مہندیوں‘‘ کی تقریبات ہی مان نہیں، ایک ایک لہنگا کئی کئی لاکھ کا ۔شکیب جلالی نے فریاد کی تھی۔

رہتا ہے اک ملول سا چہرہ پڑوس میں

اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو

لیکن اس ماحول میں ایک دوسرے کو زخم لگانے، چھیلنے، کریدنے میں مزہ آتا ہے ۔کیا واقعی یہ معاشرہ ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک عضو کو چوٹ لگے تو پورا جسم اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے ؟یا اس جسم کا ہر عضو دوسرے اعضا کو نوچنے، کاٹنے کے درپے ہے؟

سیاست صنعت بن گئی

جہالت علمیت بن گئی

ذلت عزت بن گئی

تجارت رشوت بن گئی

شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی

الٹا لٹکوگے تو پھر سیدھا دکھائی دےگا

دلیل دفن ہو چکی، قبرستان نامعلوم ورنہ دلیل کی قبر پر فاتحہ ہی پڑھ لیتے ۔

آقاؐ نے آغاز فرمایا ۔عقل، فکر، تدبر، دلیل کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی ۔یاد کیجئے جب صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ

’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے ایک فوج نکلا چاہتی ہے تو کیا تم میری اس بات کو سچ مانو گے ‘‘؟(بخاری)

ساری قوم نے بیک آواز جواب دیا ’’ہم آپ کی بات کو ضرور سچ مانیں گے کیونکہ آپ صادق اور امین ہیں کیونکہ آپ نے ساری زندگی کبھی جھوٹ نہیں بولا ‘‘اور ان کے اس جواب پر حضور ؐ نے انہیں اس دلیل کے ساتھ دعوت حق کی طرف مائل کیا تھا کہ اگر میں نے آج سے پہلے کبھی جھوٹ نہیں بولا تو آج کیوں بولوں گا؟

ایمان لانے کا مطلب دلائل کی بنیاد پر (عقل و بصیرت کے ذریعہ )قرآنی تعلیمات سے قائل ہو کر دل ودماغ کی گہرائی او ر سچائی سے قرآن کی اطاعت کرنا ہے ۔قرآن گواہ ہے کہ کفار حضور ؐ کی دعوت پر ایمان لانے کیلئے آپ سے معجزات کا مطالبہ کرتےتھے ۔

(53/ھود،7/الرعد، 50/العنکبوت)

دلیل تفکر اور تدبر کی بیٹی ہے ۔

’’خدا کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ‘‘(22/الانفال)

اور دوسرے مقام پر آیا

ﷲ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے (55/الانفال)

یعنی رب کے نزدیک عقل سے کام نہ لینا یا کفر کرنا ایک ہی بات ہے ۔

نہ تفکر نہ تدبر نہ عقل نہ دلیل۔ہم کس ماحول میں زندہ ہیں؟ اپوزیشن حکومت کو اور حکومت اپوزیشن کو جھوٹ کے طعنے دیتی ہے جبکہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بڑا جھوٹا کون ہے اور ہمارا تازہ ترین فخر یہ کہ IMFپروگرام بحال، 50کروڑ ڈالر ملنے کی راہ ہموار ۔کشکول زندہ باد

کس ماحول میں زندہ ہیں
یار!بہت شرمندہ ہیں
’’کس ماحول میں زندہ ہیں ‘‘
 
Top