انتخابی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی شمولیت ہماری دانست میں کبھی بھی بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو سیاست میں دلچسپی ضرور رکھنی چاہیے تاہم عملی سیاست میں کود کر روایتی سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو جانا کسی بھی صورت مناسب حکمت عملی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے سیاسی کلچر میں بہتری لانے کے لیے مذہبی سیاسی رہنماؤں نے بھی بہتر کردار ادا نہیں کیا اس لیے بہتر یہی ہے کہ علمائے کرام اور مذہبی رہنما کم از کم کچھ عرصہ کے لیے ہی اپنی توانائیاں انتخابی سیاست پر صرف نہ کریں۔
اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ انتخابی سیاست میں اترنا مذہبی جماعتوں کے لیئے مناسب حکمت عملی نہیں ہے ۔ یقینا قیام دین کی جدوجہد اور اس سلسلے میں افرادی تربیت کا کام اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن جب حکومت اور ریاست کے سروں پر ملاحدہ اور کفار کا تسلط ہوگا تو یقینا دین کی جدوجہد پر اثر تو پڑے گا ، وہ جو قوانین بنائیں گے وہ تسلط قوت اور معاشرے کی اساس پر اثر انداز ہونگے ایسے میں کچھ ایسے عناصر کا ان ایوانوں میں وجود بھی ضروری ہے جو ایسی حرکات پر وسل بلوور کا کام کریں اور قوم کو آگاہ کر سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ۔ باقی انتخابی نظام بذات خور جیسے پاکستان میں مروجہ ہے کرپشن اور برائی کو تقویت دینے والا ہے ۔ نعوذ باللہ من ذلک
اس کے علاوہ اختلاف رائے کی بنیاد پر ہم دینی جماعتوں جو سیاست میں موجود ہیں بالکل ہی رد نہیں کر سکتے ۔ جماعت اسلامی ، جمیعت علمائے اسلام ، تحریک لبیک پاکستان ایک مخصوص فکر کی نمائیندگی کرتی ہیں جو ابھی بھی اس نظام اور مملکت کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی اساس جو قرارداد مقاصد میں اس آئین کی بنیادی شق کے طور پر موجود ہے کے مطابق اصلاح کا عمل شروع کر سکیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو نظام کا لپٹنا طے ہے ۔ کب اور کیسے ۔ بے شک تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی رکھتا ہے جو ظاہر ہو کر رہنی ہے ۔
عوام طاقت کا سرچشمہ نہیں ہیں طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔ اس ملک کا اقتدار اعلیٰ اسی کے ہاتھ ہونا چاہیئے ۔ حکام کے پاس یہ مقدس امانت ہے اور تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہونے چاہیئں ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطالبہ نہین ہمارا