موجودہ حکومت کے ایسے اقدامات جنہیں اسلام پسند حلقے اسلام دشمنی سے تعبیر کر رہے ہیں

لکھ لیں اس ملک میں آج تک مذہبی جماعتوں کو چند فیصد سے زائد جمہوری ووٹ نہیں پڑا ہے۔ ماضی و حال میں مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر چور دروازے سے آکر عوام پر حکمرانی کرتی رہی ہیں۔ جنرل ضیا کے جماعت اسلامی سے قریبی مراسم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ آج وہ مذہبی جماعت انتخابات میں کہاں کھڑی تھی ؟ بلکہ اس بار تو ملک کی تمام بڑی مذہبی جماعتوں نے اکٹھے الیکشن لڑا۔ مگر نتائج وہی پرانے والے نکلے۔ الٹا ووٹ اور کم ہو گیا۔
انقلاب کا آنا اندر ہی اندر پکنے والے ایسے لاوے کا شاخسانہ ہوتا ہے جو جبر کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے

تم تیر آزماؤ ہم جگر آزمائیں
 
شریعت نے فتوی دینے والے عالم کیلئے بھی بہت سی شرائط قائم کر رکھی ہیں۔ کیا ایک بات بات پر گالم گلوچ دینے والا گلی محلے کا عالم ریاستی اداروں کے خلاف فتوے دینے کا مجاز ہے؟
ذرا حوالے کے ساتھ ایسی شرائط پر روشنی ضرور ڈالیئے گا اور پھر جواب لیجئے گا
 

فرقان احمد

محفلین
انتخابی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی شمولیت ہماری دانست میں کبھی بھی بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو سیاست میں دلچسپی ضرور رکھنی چاہیے تاہم عملی سیاست میں کود کر روایتی سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو جانا کسی بھی صورت مناسب حکمت عملی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے سیاسی کلچر میں بہتری لانے کے لیے مذہبی سیاسی رہنماؤں نے بھی بہتر کردار ادا نہیں کیا اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ علمائے کرام اور مذہبی رہنما کم از کم کچھ عرصہ کے لیے ہی اپنی توانائیاں انتخابی سیاست پر صرف نہ کریں۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اگر ملک میں شریعت ہی نافذ کرنی ہے تو جمہوری نظام ختم کر دیں۔ ایک طرف عوام کو مکمل دھاندلی سے پاک الیکشن چاہیے۔ دوسری طرف عدالتیں شرعی بھی چاہیے، ہر حکومت اسلام پسند بھی ہونی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے چلے گی جمہوریت؟
ملک میں ضیا الحق کا دور ہر لحاظ سے شرعی تھا۔ جا بجا اسلامی قوانین بن رہے تھے۔ اسلامی سزائیں دی جا رہی تھیں۔ مجاہدین افغان جہاد پر بھیجے جا رہے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر عوام کی اکثریت کو یہی شریعت ، یہی اسلام پسندی چاہیے تھی تو ضیا کی ہلاکت کے بعد لبرل اور کرپٹ بینظیر کو ووٹ کیوں دیا؟

اگر بات کا جواب نہیں تھا ۔

تو ادھر اُدھر کی ہانکنے کی کیا ضرورت تھی؟
 

محمداحمد

لائبریرین
مغرب کی ٹاپ یونیورسٹیز میں مذہبی سکالرز ذاتی زندگی میں دہریے بھی ہو سکتے ہیں۔ درسگاہوں میں تحقیقی قابلیت و اہلیت کی بنیاد پر لیکچرار بنا جاتا ہے۔ اس کا آپ کی اپنی ذات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ کیونکہ لیکچرار کا اپنے موضوع کو ہر زاویہ سے پڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ نہ کہ اپنے ذاتی مذہب کی تبلیغ کرنا۔

رہ گئی رسم اذاں ، روحِ بلالی نہ رہی
 

محمداحمد

لائبریرین
درست ، اسی طرح تمام سبسڈیاں یک جنبش قلم ختم کریں ناں ۔ صرف دینی معاملات سے ہی کیوں آغاز ہو رہا ہے کیا یہ آغاز اشاریہ ہے دین دشمنی کا ۔۔۔؟؟؟

اب کون کون سی سبسڈی باقی ہیں؟

ویسے ضروریات زندگی پر سبسڈی اگر دی جا رہی ہے تو اسے فوقیت ملنی چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انتخابی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی شمولیت ہماری دانست میں کبھی بھی بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو سیاست میں دلچسپی ضرور رکھنی چاہیے تاہم عملی سیاست میں کود کر روایتی سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو جانا کسی بھی صورت مناسب حکمت عملی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے سیاسی کلچر میں بہتری لانے کے لیے مذہبی سیاسی رہنماؤں نے بھی بہتر کردار ادا نہیں کیا اس لیے بہتر یہی ہے کہ علمائے کرام اور مذہبی رہنما کم از کم کچھ عرصہ کے لیے ہی اپنی توانائیاں انتخابی سیاست پر صرف نہ کریں۔

اچھی بات ہے۔

لیکن ایسا کرنا لادینی قوتوں کے لئے میدان خالی چھوڑنے کے مترادف بھی ہے۔
 
انتخابی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی شمولیت ہماری دانست میں کبھی بھی بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو سیاست میں دلچسپی ضرور رکھنی چاہیے تاہم عملی سیاست میں کود کر روایتی سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو جانا کسی بھی صورت مناسب حکمت عملی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے سیاسی کلچر میں بہتری لانے کے لیے مذہبی سیاسی رہنماؤں نے بھی بہتر کردار ادا نہیں کیا اس لیے بہتر یہی ہے کہ علمائے کرام اور مذہبی رہنما کم از کم کچھ عرصہ کے لیے ہی اپنی توانائیاں انتخابی سیاست پر صرف نہ کریں۔
اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ انتخابی سیاست میں اترنا مذہبی جماعتوں کے لیئے مناسب حکمت عملی نہیں ہے ۔ یقینا قیام دین کی جدوجہد اور اس سلسلے میں افرادی تربیت کا کام اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن جب حکومت اور ریاست کے سروں پر ملاحدہ اور کفار کا تسلط ہوگا تو یقینا دین کی جدوجہد پر اثر تو پڑے گا ، وہ جو قوانین بنائیں گے وہ تسلط قوت اور معاشرے کی اساس پر اثر انداز ہونگے ایسے میں کچھ ایسے عناصر کا ان ایوانوں میں وجود بھی ضروری ہے جو ایسی حرکات پر وسل بلوور کا کام کریں اور قوم کو آگاہ کر سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ۔ باقی انتخابی نظام بذات خور جیسے پاکستان میں مروجہ ہے کرپشن اور برائی کو تقویت دینے والا ہے ۔ نعوذ باللہ من ذلک

اس کے علاوہ اختلاف رائے کی بنیاد پر ہم دینی جماعتوں جو سیاست میں موجود ہیں بالکل ہی رد نہیں کر سکتے ۔ جماعت اسلامی ، جمیعت علمائے اسلام ، تحریک لبیک پاکستان ایک مخصوص فکر کی نمائیندگی کرتی ہیں جو ابھی بھی اس نظام اور مملکت کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی اساس جو قرارداد مقاصد میں اس آئین کی بنیادی شق کے طور پر موجود ہے کے مطابق اصلاح کا عمل شروع کر سکیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو نظام کا لپٹنا طے ہے ۔ کب اور کیسے ۔ بے شک تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی رکھتا ہے جو ظاہر ہو کر رہنی ہے ۔

عوام طاقت کا سرچشمہ نہیں ہیں طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔ اس ملک کا اقتدار اعلیٰ اسی کے ہاتھ ہونا چاہیئے ۔ حکام کے پاس یہ مقدس امانت ہے اور تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہونے چاہیئں ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطالبہ نہین ہمارا
 

جاسم محمد

محفلین
مزید یہ کہ ہمارے سیاسی کلچر میں بہتری لانے کے لیے مذہبی سیاسی رہنماؤں نے بھی بہتر کردار ادا نہیں
تحریک انصاف کی قیادت و ووٹرز نے ماضی کی ہر حکومت کے حمایتی اور اتحادی مولانا فضل الرحمان کی منافقت قوم پر عیاں کر کے اقتدار سے باہر کر دیا ہے۔ ایک لمبے عرصہ بعد وفاق میں پہلی حکومت آئی ہے جس نے مذہبی جماعتوں سے الحاق نہیں کیا۔ بلکہ ان کی منفی سیاست کی بجائے دیگر چھوٹی جماعتوں کو ترجیح دی ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق مولانا سے جو ملک کی بڑی جماعتیں 'ایلچی' کی خدمات لے رہی تھیں۔ اب وہ بھی نہیں لے رہیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے لیڈران کی اوقات بس اتنی سی ہے۔
Have stopped trying to resolve differences between Nawaz, Zardari: JUI-F chief Fazlur Rehman
 

جاسم محمد

محفلین
اگر بات کا جواب نہیں تھا ۔
تو ادھر اُدھر کی ہانکنے کی کیا ضرورت تھی؟
آپ کی اس پوسٹ کا جواب گھما پھرا کر دیا تھا۔ اب سیدھا دےدیتا ہوں:
یہی تو جمہوریت کی برائی ہے ۔
ورنہ جب لکھا جاتا ہے کہ حاکمِ اعلیٰ اللہ رب العزت کی ذات ہے تو پھر حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے۔
برائی جمہوریت میں نہیں عوام کی دوغلی روش میں ہے۔ یہ سچ ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ مذہبی رجحان رکھتا ہے۔ مگر اس نے کبھی بھی شریعت کے نفاذ کی کسی بھی جماعت یا تحریک کوبھرپور انداز میں سپورٹ نہیں کیا۔ کیونکہ عوام ضیا دور کی مذہبی سیاست کے مزے لوٹ چکی ہے۔ اور اس کے دیر است سنگین نتائج بھی بھگت چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو گو مذہبی رجحان والی حکومت چاہئے مگر اپنے ووٹ کی طاقت سے وہ مذہبی جماعتوں کو کبھی اپنے سروں پر سوار کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے ضروریات زندگی پر سبسڈی اگر دی جا رہی ہے تو اسے فوقیت ملنی چاہیے۔
ملک کے غریب ترین طبقے کو ہیلتھ کارڈز کی مد میں سبسڈی دی جارہی ہے۔ مغربی ممالک کی طرح فوڈ کارڈز کا بھی اجراء ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔ تب صحیح عوامی حکومت نکھر کر سامنے آئےگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن ایسا کرنا لادینی قوتوں کے لئے میدان خالی چھوڑنے کے مترادف بھی ہے۔
متفق۔ مذہب کو سیاست سے بالکل آؤٹ کر دینا بھی درست نہیں ہے ۔ مغرب کی کامیاب اور مستحکم جمہوریتوں جیسے امریکہ میں آج بھی سماجی مسائل جیسے حمل گرانا، ہم جنس پرستی، جسم فروشی وغیرہ پر مذہبی جماعتیں سیاست کرتی ہیں۔ اور نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے ووٹرز کے مذہبی رجحانات کی ایوان میں نمائندگی کرتی نظر آتی ہیں۔ وہاں پاکستان کی طرح مولانا فضل الرحمان اور مولانا سراج الحق جیسی منافقت نہیں ہوتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جماعت اسلامی ، جمیعت علمائے اسلام ، تحریک لبیک پاکستان ایک مخصوص فکر کی نمائیندگی کرتی ہیں
جیسے پاکستان کی مذہبی جماعتیں دیگر غیر مذہبی جماعتوں پر یہود و نصاریٰ، مغربی اقدار کی نمائندگی اور پشت پناہی کا الزام لگاتی آئی ہیں۔ وہی بات ان مذہبی جماعتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہم بھی ان سےیہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ جس مخصوص سوچ و فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ کونسے ملک سے آئی ہے؟ کیا سعودیہ اور دیگر عرب ممالک پاکستانی مدرسوں میں فنڈنگ نہیں کرتے چلے آئے؟ کیا طالبان بنانے میں ان کا کردار نہیں رہا؟ اگر یہ سب تاریخ کا حصہ ہے تو مغربی این جی اوز اور پریشر گروپس پر ایک طرفہ تنقید حق بجانب نہیں۔صفائی کا آغاز اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ پہلے سعودیہ اور دیگر عرب ممالک سے مذہبی امداد لینا بند کریں۔ اس کے بعد غیر مذہبی جماعتوں پر بیرونی ایجنڈے کا الزام لگائیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
اسرائیل کے ہمسایہ ممالک مصر ۱۹۷۹ اور اردن ۱۹۹۴ سے اسرائیل کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی اسرائیل کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ آذربائیجان کے اسرائیل سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ سعودیہ ایران کے خوف سے اسرائیل کو حلیف تسلیم کر چکا ہے۔ بس پاکستانیوں کو ایک پھولے ہوئے غبارے میں رہنا ہے۔

جی اب اسرائیل سے تعلقات کے فضائل بھی بیان کر لیں۔ یہی کسر رہ گئی ہے تحریک انصاف کے ورکرز سے
 

dxbgraphics

محفلین
پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا میں پچھلی صوبائی حکومت نے پہلی تا آٹھویں نصاب سے سیرت نبویﷺ ، صحابہ کرام، امہات المومنین، قائد اعظم، علامہ اقبال کے مضامین نکال دیئے ہیں۔ اور تو اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان کی بجائے متازعہ علاقہ بتایا گیا ہے۔

پی ٹی آئی پچھلی صوبائی حکومت نے خیبرپختونخوا میں مدارس میں پڑھنے والی بچیوں کے خلاف ایک بل پیش کیا جس کا نام Society Registration & amendmenb bill ہے جس کی رو سے مدارس میں پڑھنے والی بچیوں کی تصویر ، موبائل نمبر، پتہ و دیگر کوائف بغرض اشتہار مقامی تھانے میں جمع کرانے پڑیں گے۔ (اشتہار مفرور مجرموں کے لئے ہوتا ہے) حالانکہ مشال کو مدارس کی طالبات نے نہیں بلکہ اسی مہذب معاشرے کی ایک یونیورسٹی کے طلباء نے تشدد کر کے قتل کیا۔ جاسم بھائی جن علماء کو منافق کہہ رہے ہیں الحمدللہ انہی علماء نے یہ بل اپوز کیا

پی ٹی آئی کی پچھلی صوبائی حکومت نے خیبرپختونخوا میں مدارس اور مساجد کے خلاف ایک بل پیش کیا جس کا نام Security of Vulnerable Sensitive & Establishment Bill ہے جس کی رو سے کسی بھی مذہبی مقام پر پارکنگ بیسمنٹ نہیں بناسکتے۔ (تبلیغی مرکز میں بیسمنٹ بناتے وقت یہی مسئلہ درپیش تھا) مزید یہ کہ مذہبی مقامات مسجد مدرسہ امام بارگاہ میں مذہبی اجتماع سے پہلے مقامی تھانے سے این او سی لینا لازم ٹھرایا گیا۔ مساجد میں اجتماع پانچ وقت کی نماز، امام بارگاہ میں مجلس، مدارس میں نماز کے علاوہ درس قرآن اور درس حدیث اجتماعات ہیں۔ الحمد للہ یہ بل بھی علماء نے ہی اسمبلی میں اپوز کیا۔

سیاست میں ن لیگ اور تحریک انصاف کی دشمنی کی مثال نہیں لیکن مذہبی جماعتوں کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اسلام مخالف بلوں میں ایک صف میں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ فروری 2018 میں سینیٹ میں ایک قائمہ کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں بنی۔ جس میں عوامی نیشنل پارٹی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے ایک بل پیش کیا جس کے مطابق 295 سی میں گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی اور حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے تمام پارٹیوں کے سینیٹرز جو اس کمیٹی میں نمائندگی کر رہے تھے سب نے گستاخ رسول کو ختم کرنے کے بل کی حمایت کی ۔ جن میں ن لیگ کے سینیٹر نثار محمد، سینیٹر آصف کرمانی، پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن، سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر سحر کامران، تحریک انصاف کی سینیٹر ثمینہ سعید ، عوامی نیشنل پارٹی کی ستارہ ایاز جس نے بل پیش کیا تھا، بی این پی مینگل پارٹی بلوچستان کے ایک نمائندہ اور آزاد رکن سینیٹر محسن لغاری شامل ہیں۔ یہاں بھی جمعیت علماء اسلام کے مفتی عبدالستار نے اس بل کو یکسر مسترد کر دیااور میڈیا سوشل میڈیا اور عوامی مظاہروں کا اعلان کر دیا لیکن پھر بھی تمام پارٹیاں مغرب کی خوشنودی کے لئے اس بل کی حمایت میں پیچھے نہیں ہٹھیں بلکہ اس کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیج کر مغرب کو خوش کر دیا اور ان کو باور کرایا گیا کہ مولوی اس میں آڑے آگئے۔

شراب پر پابندی کے بل کے حوالے سے بھی شراب پر پابندی کی حمایت ایم ایم اے کے تیرہ اراکین نے کی باقی سب پارٹیاں اس بل کی مخالف میں ایک ہی صف میں کھڑی ہوگئیں اور مغرب کو باور کرایا گیا کہ ہم آپ کے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے ایک ہیں صرف سیاست میں ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی اب اسرائیل سے تعلقات کے فضائل بھی بیان کر لیں۔ یہی کسر رہ گئی ہے تحریک انصاف کے ورکرز سے
یہ صرف اسرائیل سے تعلقات کی چند مثالیں ہیں جو دیگر مسلم ممالک نے عرصہ دراز سے قائم کئے ہوئے ہیں۔ وہ ممالک پاکستانیوں سے کچھ کم مسلمان نہیں ہیں۔ہاں انہوں نے فلسطینی-اسرائیل تنازعہ کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا ہوا۔ جیسے ترک صدر اردوگان پارلیمان میں کھڑے ہو کر اسرائیل کی غلط پالیسیز پر گولہ بارود بھی پھینکتے ہیں۔ اور پھر انقرہ میں اسرائیلی وفود سے جا کر ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔ یعنی دنیا بھر کے مسلمانوں کو بھی خوش کر دیا اور اپنے ملک کے اقتصادی و معاشی معاملات بھی چلا لئے۔ یہ ہوتا ہے لیڈر ہے۔ یہ ہوتا ہے ویژن۔
 

جاسم محمد

محفلین
شراب پر پابندی کے بل کے حوالے سے بھی شراب پر پابندی کی حمایت ایم ایم اے کے تیرہ اراکین نے کی باقی سب پارٹیاں اس بل کی مخالف میں ایک ہی صف میں کھڑی ہوگئیں اور مغرب کو باور کرایا گیا کہ ہم آپ کے ایجنڈوں کی تکمیل کے لئے ایک ہیں صرف سیاست میں ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔
اول تو یہ شراب پر پابندی کا بل خود تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے پیش کیا تھا۔ جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر چونکہ اس پر پہلے سے کسی کمیٹی میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اور نہ ہی حکومتی اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو اس سے متعلق اعتماد میں لیا گیا۔ اس لئے اس کے پاس ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
بلکہ وزیر اطلاعات نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بل مذکورہ ہندو وزیر نے اپنی پبلسٹی کیلئے کیا تھا۔ اگر واقعتا ان کو شراب نوشی پر پابندی لگانی ہوتی تو ملک کی تمام بڑی جماعتوں کو پارلیمان میں آن بورڈ لیتے۔
 

dxbgraphics

محفلین
اول تو یہ شراب پر پابندی کا بل خود تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے پیش کیا تھا۔ جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر چونکہ اس پر پہلے سے کسی کمیٹی میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اور نہ ہی حکومتی اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو اس سے متعلق اعتماد میں لیا گیا۔ اس لئے اس کے پاس ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
بلکہ وزیر اطلاعات نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بل مذکورہ ہندو وزیر نے اپنی پبلسٹی کیلئے کیا تھا۔ اگر واقعتا ان کو شراب نوشی پر پابندی لگانی ہوتی تو ملک کی تمام بڑی جماعتوں کو پارلیمان میں آن بورڈ لیتے۔
یہ بل 2013 میں اقلیتی رکن رمیش کمار نے ہی جمعیت علماء اسلام کے ساتھ پیش کیا تھا جس کو سب نے مسترد کر دیا۔ رہی بات موجودہ جعلی حکومت کی تو ریاست مدینہ کے دعوےدار اس بہت ہی سادے سے بل جس میں تمام اقلیتی اراکین نے اپنی کتابوں کے حوالے سے یہ اتفاق کیا کہ دوسرے مذاہب میں بھی شراب حرام ہے پھر ریاست مدینہ والوں نے ریاست تل ابیب والے قانون کو کیوں پسند کیا؟ اور اس بل کو مسترد کرنے والی تمام پارٹیاں بشمول تحریک انصاف نے کس بنیاد پر مسترد کیا بتانا پسند کریں گے؟

اقلیتی رکن شراب پر پابندی کا بل پیش کرتا ہے تو اس میں کس کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے؟؟ مغرب کو؟ یا مغرب کے ایجنٹ کو؟
 

dxbgraphics

محفلین
دوسرا گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کی پی ٹی آئی کی سینیٹر ثمینہ سعید نے کیوں حمایت کی کیا تحریک انصاف ریاست مدینہ کا دعوہ نہیں کرتی؟؟
 
Top