جب ایک بات ہمیں قبول ہی نہیں تو دلیل ڈھونڈتے ڈھونڈتے اتنی دور کیوں جاتے ہیں۔ ایک طالب علم کے لیئے اس کا استاد ہی مفتی ہوتا ہے کیونکہ بچہ اسے اپنا اس مضمون میں رہ نما مانتا ہے۔ اب آپ کے مفتی صاحب اپنے طالبعلموں کی رہ نمائی جس طرح کریں گے کورس کے نمبر تو ٹھیک آجائیں شاید لیکن ایمان کے نمبر زیرو بٹا زیرو۔۔۔ نہ بھئی یہ قبول ہی نہیں ہمیں چاہے دلائل کا انبار لگا دو
اصولی طور پر آپ کی بات درست ہے۔ لیکن اب زمانہ کے طور طریقہ بدل چکے ہیں۔ آپ مغرب کو چھوڑ دیں۔ یہیں پاکستان میں اگر کسی کو قادیانیت پر تحقیقی مقالہ درکار ہو تو وہ کبھی بھی قادیانی ریسرچرز سے رابطہ نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ خود قادیانی ہونے کی وجہ سے اس کی اپنے مذہب پر تحقیق غیرجانبدار نہیں ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کے چوٹی کے ریسرچر یہود و نصاری محققین ہیں۔ جبکہ یہودیت و عیسائیت پر سب سے اعلی تحقیق دہریے پروفیسروں نے کر رکھی ہے۔
دور حاضر میں اعلی سطح کی تعلیم کیلئے ایسے ریسرچرز کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے مذہب یا ایمان سے ماورا ہو کر مذکورہ شعبہ میں اپنی بہترین تحقیق پیش کرنے کے قابل ہوں۔ ایسے میں اپنے مذہب سے ہٹ کر تحقیق کرنے والوں کیلئے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور وہ کسی دوسرے مذہب کے بہترین ریسرچر بن کر ابھرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں قادیانیت پر بہترین تحقیقی مقالے مسلمان سکالرز نے لکھے ہیں۔ کیونکہ وہ اس نئے مذہب پر غیرجانبداری سے تحقیق کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہی کام قادیانی ریسرچر خود نہیں کر سکتے۔
غیرجانبدارنہ اعلی نوعیت کی تحقیق کیلیے مذکورہ مذہب پر تنقیدی نظر سے دیکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ کام مذہبی و اہل ایمان ریسرچرز کے لئے کرنا بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔ خاص کر کہ جب وہ اپنے ہی مذہب پر تحقیق کر رہے ہوں۔