ہاتھ کاٹنے کا حکم ، حکم الہی کیا ہے؟
دیکھئے
یہ ہے وہ آیت جس میں چوری کرنے والے مرد یا عورت کے ہاتھ پر کاٹ لگانے کا حکم ہے۔ یہ کاٹ کتنی ہوگی؟ اس لفظ کی وضاحت اللہ تعالی سورۃ یوسف کی آیت نمبر 31 میر فراہم کرتے ہیں ۔ دونوں جگہ ایک ہی لفظ "قطع" استعمال ہوا ہے۔
سورۃ یوسف کی آیت نمبر 31 میں بتایا گیا ہے کہ " ان عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے" یہ کاٹ ایسی ہی تھی جیسی کے بد احتیاطی کی وجہ سے کچھ کاٹتے ہوئے اپنے ہی کاتھ پر لگ جاتی ہے ۔ سورۃ المائیدہ کی آیت نمبر 38 میں ہاتھ پر کاٹ لگانے جو حکم ہے وہ ہاتھ کاٹ کر علیحدہ کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ایسے چور کے ہاتھ پر ایک پائیدار نشان لگا دیا جائے تاکہ لوگ اس سے ہوشیار رہیں۔ جدید ممالک مین جو لوگ پبلک ویلتھ چراتے ہیں ان کے ناموں کی لسٹ کریڈٹ بیورو سے حاصٌ کی جاسکتی ہے آیا کہ یہ لوگ قابل اعتبار ہیں یا نہیں۔ ایسے لوگوں کا ریکارڈ رکھنا، ہاتھ پر کاٹ لگانے کے مترادف ہے۔
5:38 وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور چوری کرنے والا (مرد) اور چوری کرنے والی (عورت) سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو اس (جرم) کی پاداش میں جو انہوں نے کمایا ہے۔ اﷲ کی طرف سے عبرت ناک سزا (ہے)، اور اﷲ بڑا غالب ہے بڑی حکمت والا ہے
دیکھئے کہ ہاتھ کیسے کاٹے گئے تھے اور کیسے کاٹ کا نشان لگایا جائے؟
12:31 فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَ۔ذَا
پھر جب سنی اس نے ان کی عیّارانہ باتیں تو بُلا بھیجا اُنہیں اور آراستہ کی اُن کے لیے تکیہ دار مجلس اور دی ہر ایک عورت کو اُن میں سے ایک چھُری اور کہا (یُوسف سے) نکل آ، ان کے سامنے۔ پھر جب دیکھا ان عورتوں نے یوسف کو دنگ رہ گئیں اور کاٹ بیٹھیں اپنے ہاتھ اور بولیں حاشا لِلّہ: نہیں ہے یہ شخص انسان۔ نہیں ہے یہ مگر کوئی بزرگ فرشتہ۔
والسلام
پچاس ہزار تاویلیں کر لیں جو عمل نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ثابت ہو چکا ہو اس میں آپ کی نام نہاد تفاسیر کی کوئی حیثیت نہیں ہے - جس بات کی تفسیر نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ثابت ہو وہاں آپ کی تفاسیر رد ہیں ۔ مردود ہیں
أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ بُرْدَةً لَهُ فَرَفَعَهُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْهُ فَقَالَ أَبَا وَهْبٍ أَفَلَا کَانَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنَا بِهِ فَقَطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ہلال بن العلاء، وہ اپنے والد سے، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، عطاء، صفوان بن امیہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان کی چادر چوری کی۔ وہ چور کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔کہا یا رسول اللہ! میں نے اس کا جرم معاف کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابووہب! ہم لوگوں کے پاس آنے سے قبل کیوں تو نے اس کو معاف نہیں کر دیا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (چور) کا ہاتھ کٹوادیا۔
سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ ۔ حدیث 1187
------------------------------------------------------------------
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَی أَبِي ذَرٍّ عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا إِخَالُکَ سَرَقْتَ قَالَ بَلَی قَالَ اذْهَبُوا بِهِ فَاقْطَعُوهُ ثُمَّ جِيئُوا بِهِ فَقَطَعُوهُ ثُمَّ جَائُوا بِهِ فَقَالَ لَهُ قُلْ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَالَ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ قَالَ اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، حماد بن سلمہ، اسحاق بن عبداللہ بن ابوطلحہ، ابومنذر، ابوذر، ابوامیہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک چور حاضر ہوا جو کہ اقرار کرتا تھا لیکن اس کے پاس دولت نہیں ملی (یعنی چوری کا مال اس کے پاس موجود نہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا میں تو نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہوگی۔ اس نے عرض کیا نہیں! میں نے ہی چوری کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو پھر لے کر آنا۔ چنانچہ اس کو لوگ لے گئے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا پھر لے کر آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہو کہ میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں توبہ کرتا ہوں اس نے کہا میں معافی چاہتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگی کہ یا اللہ! اس کو معاف فرما دے۔
سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ ۔ حدیث 1186
---------------------------------------------------------------
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ الْمُخَرَّمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ وَيَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ
محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، ابومعاویہ، اعمش، احمد بن حرب، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت بھیجے وہ انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے وہ رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے (یعنی معمولی سے مال کے واسطے ہاتھ کا کٹ جانا قبول اور منظور کرتا ہے جو کہ خلاف عقل ہے)۔
سنن نسائی ۔ جلد سوم ۔ چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ ۔ حدیث 1182
------------------------------------------------------------------------
صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ حدود اور حدود سے بچنے کا بیان ۔ حدیث 1728
راوی: اسماعیل بن ابی اویس , ابن وہب , یونس , ابن شہاب , عروہ بن زبیر وعمرہ عائشہ
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَعَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ فِي رُبُعِ دِينَارٍ
اسماعیل بن ابی اویس، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر وعمرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا چور کا ہاتھ ایک دینار کی چوتھائی میں کاٹا جائے (یا اس قیمت کی کوئی اور چیز چوری کرنے پر)
---------------------------------------------
راوی: اسمٰعیل ابن وہب یونس لیث یونس ابن شہاب عروہ بن زبیر
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَقُطِعَتْ يَدُهَا قَالَتْ عَائِشَةُ فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا وَتَزَوَّجَتْ وَکَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِکَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اسماعیل ابن وہب یونس لیث یونس ابن شہاب عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے غزوہ فتح میں چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اس کی توبہ اچھی ہوئی اور اس نے شادی کی بعد ازاں وہ میرے پاس آتی تھی تو میں اس کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیتی۔
صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ گواہیوں کا بیان ۔ حدیث 2539
-----------------------------------------------
صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1501
لیث، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر سے روایت کرتے ہیں جن کی پیشانی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے سال ہاتھ پھیرا تھا۔
راوی: محمد بن مقاتل , عبداللہ , یونس , زہری , عروہ بن زبیر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَی أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ قَالَ عُرْوَةُ فَلَمَّا کَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتُکَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ قَالَ أُسَامَةُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمَّا کَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ خَطِيبًا فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا أَهْلَکَ النَّاسَ قَبْلَکُمْ أَنَّهُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَکُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْکَ الْمَرْأَةِ فَقُطِعَتْ يَدُهَا فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِکَ وَتَزَوَّجَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ فَکَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِکَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
محمد بن مقاتل، عبداللہ، یونس، زہری، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ فتح میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت نے چوری کی (حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا) اس کی قوم اسامہ بن زید کے پاس سفارش کرانے کے لئے دوڑی آئی عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت سے اس عورت کو معاف کر دینے کے بارے میں گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہوگیا اور فرمایا کہ تو مجھ سے اللہ کی (مقرر کردہ) حدود میں سفارش کرتا ہے؟ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے، شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کرکے فرمایا: اما بعد! تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا ہے کہ اگر ان میں کوئی شریف اور بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی ضعیف اور چھوٹا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کردیتے اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضہ (قدرت) میں میری جان ہے اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوری کرے (اعاذھا اللہ عنہا) تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت پر حکم جاری فرمایا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا پھر اس کی توبہ مقبول ہوگئی اور اس نے (کسی سے) نکاح کرلیا عائشہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد وہ عورت (میرے پاس) آیا کرتی تھی اور اس کی جو ضرورت ہوتی تھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کر دیتی۔
------------------------------------------------------
جس بات کی تفسیر نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ثابت ہو وہاں آپ کی تفاسیر رد ہیں ۔ مردود ہیں اور یہی اصل شرارت ہیں کہ اپنی تفسیر کر کے قرآن کو سنت سے الگ کیا جاتا ہے ۔ حبل اللہ کو اس کے اجزاء سے تحلیل کر کے جو قرآن و سنت ہیں کون سے رسی پکڑا رہے ہیں لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ جائیے الگ دھاگہ کھولیئے اور وہاں اپنا انکار حدیث کا فتنہ پیش کیجئے تاکہ آپ کے باطل نظریات کا مناسب سدباب کیا جائے ۔ اس دھاگے میں شرارت مت کیجئے
کوئی کنفیوژن نہیں ہے ۔ قرآن کی اولین تفسیر اور سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر وہی ہوگی جو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے قول، عمل یا ردعمل سے فرمائی ۔ جہاں ایسا نہ ہو وہاں اہل بیت کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قول یا عمل جہاں ایسا نہ ہو وہاں اجماع امت اور اجتہاد کے راستے ہیں (منکرین حدیث جائیں جہنم میں)