موجودہ دور کے شعراء

گلزار حسین

محفلین
تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم مجھے واقعتا چھوڑ کے جا سکتے ہو

ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو

تم سے باتوں میں کچھ اس درجہ مگن ہوتا ہوں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ کے جا سکتے ہو

جانے والے سے سوالات نہیں ہوتے میاں
تم یہاں اپنا بدن چھوڑ کے جا سکتے ہو

جانا چاھو تو کسی وقت بھی خود سے باہر
اپنے اندر کی گھٹن چھوڑ کے جا سکتے ہو
عمار اقبال

۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top