موجوں کے وار مُجھ کو کناروں میں لے گئے غزل نمبر 122 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
موجوں کے وار مُجھ کو کناروں میں لے گئے
کیوں یار اِس خزاں کو بہاروں میں لے گئے

پہلے پہل نِگاہوں سے کی گُفتگو بہت
پِھر دِھیرے دِھیرے بات اِشاروں میں لے گئے

اچھی بھلی تھی زندگی کیوں عِشق کر لیا؟
ہم خود ہی فائدوں کو خساروں میں لے گئے

جُھوٹے نجومیوں کو خُود اپنی خبر نہیں
تقدیر کے لِکھے کو سِتاروں میں لے گئے

جو واقفِ رموز تھے ڈُھونڈیں انہیں کہاں؟
وہ کشف اپنے ساتھ مزاروں میں لے گئے

تھی کیا خبر کہ رازِ محبت یوں ہوگا فاش
تھی دوستی کی بات سو یاروں میں لے گئے

اے باغباں یہ ظُلم نہیں ہے تو اور کیا
بُلبل سے پُھول چھین کے خاروں میں لے گئے

دِل کا بڑا اچھا تھا خُدا بخش دے اُسے

شارؔق کو ملک اللہ کے پیاروں میں لے گئے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
پہلے پہل نِگاہوں سے کی گُفتگو بہت
پِھر دِھیرے دِھیرے بات اِشاروں میں لے گئے
کون؟ فاعل واضح نہیں، یہی حال ان کا بھی ہے
تھی کیا خبر کہ رازِ محبت یوں ہوگا فاش
تھی دوستی کی بات سو یاروں میں لے گئے
اے باغباں یہ ظُلم نہیں ہے تو اور کیا
بُلبل سے پُھول چھین کے خاروں میں لے گئے
.. پہلے شعر میں یوں ہو کا "یُہو" تقطیع ہونا روانی متاثر کر رہا ہے
یوں فاش ہو گا راز محبت، خبر تھی کیا
بہتر ہو گا

دِل کا بڑا اچھا تھا خُدا بخش دے اُسے
شارؔق کو ملک اللہ کے پیاروں میں لے گئے
دونوں مصرعے دوسری بحر میں ہیں
 
Top