موجِ بحر (شاعری کی اولین کاوش): موج تو بحر میں ہے، شعر کس بحر میں ہیں؟ کچھ بھی علم نہیں۔

عرفان سعید

محفلین
موجِ بحر
فرطِ طرب میں موجِ بحر جو اترائی
دیکھ کرسپیدۂ سحر کی کرن مسکرائی
وہ خم ِگردن کہ شرماتا جائے شباب
وہ نورِحسن کہ گھبرا تاجائے آفتاب
اچھل اچھل کر موج ادائے ناز سے
سورج سے بوس و کنار ہوتی ہو جیسے
مستئ شوقِ رفعت میں اس کا ناچنا
پس ِردائے موج ،مہرِ زوال کا جھانکنا
اٹھ اٹھ کے لپکتی ہو لیلیٔ آفتاب
ہائے!کیا غضب یہ جذبِ بیتاب
پانیوں کی ملکہ سدا یوں محوِ رقصاں
تجسس حیراں اور تخیل بھی پریشاں
دیکھا نہ جائے یہ منظر کیفِ مدہوشی کا
قصۂ راز و نیاز ہو جیسے عالم ِسرگوشی کا
کیا قیامت سمندر کی شہزادی کے انداز
تارِ دل مرتعش ہوں یہ وہ سوزوساز
غازہ رخسارِ فلک کا سنا ئے سب کہانی
پیامِ حرکتِ پیہم سن دخترِ بحر کی زبانی​

(تین ماہ قبل ،کم و بیش دو دہائی کے طویل انقطاعِ تعلق کے بعد اردو سے دوبارہ ناطہ بحال ہوا۔ شاعری کا مطالعہ فقظ ایف ایس سی کے اردو پرچے میں نمبر حاصل کرنے تک محدود تھا۔ اب بھی بانگِ درا کی "ہمالہ" سر نہیں ہو سکی۔ ان سب کے باوصف شعر کہنے کی جرات کر ڈالی۔ بحور کے علم سے سراسر ناواقفیت ہے۔ اُمید ہے یہاں ضرور رہنمائی ملے گی۔)
 
جناب عرفان سعید بھائی!

آپ کے تعارف اور دیگر دوتین نثر پاروں کو پڑھ کر ہم آپ کی مرقع ، مصفح و مسجع نثر نگاری کے گرویدہ تو ہو ہی چکے تھےلیکن مندرجہ بالا نظم میں آپ کی اردو دانی کو دل سے مان گئے۔چلیے مانے لیتے ہیں کہ گزشتہ بیس دہائیوں میں ایسی مرقع و مسجع اردو لکھنے والے مرزا فرحت اللہ بیگ اور جوش ملیح آبادی کے بعد آپ ہی ہیں۔

اے کاش کہ تلمیذ بھائی نے آپ کو اس قدر مشکل اردو لکھنے پر نہ ٹوکا ہوتا اور دوہفتے پہلے آپ کو نظم لکھنے کا خیال نہ آیا ہوتا۔


بدء یعنی اپنے تخلیق کو عدم محض سے منصہٗ شہود پر لانا ایک ایسی صفت ہے جو اس کائنات میں صرف ایک ہستی کو ہی زیبا ہے۔ ہم فانی انسانوں کے لیے لازم ہے کہ تخیلق کرنے سے پہلے تخیل کی کارگزاری کے ساتھ ساتھ اس صنف کے لوازمات کے بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات بہم پہنچالی جائیں۔شاعری (جسے ہم اگر ادب کی صنفِ نازک کہیں تو بے جا نہ ہوگا) کرنے کے لیے بھی تخیل اور اچھے الفاظ خیالات کے ساتھ ساتھ اس صنفِ سخن کی دیگر ضروریات سے آگاہی بھی ضروری ٹھہرتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ شاعری کرنے کے لیے علم عروض کا جاننا چنداں ضروری نہیں۔ البتہ وزن کا شعور ضروری ہے۔ (یہ وہی وزن ہے جس کا آپ نے اپنے مزاحیہ مضمون میں مضحکہ اڑایا ہے)۔ وزن کا مطالعہ کیجیے، اساتذہ اور دیگر اچھے شعراء کی شاعری کو بکثرت پڑھیے اور وزن کے ساتھ ساتھ ردیف اور قافیہ کا بھی مطالعہ کیجیے۔

دیگر محفلین کی طرح ہم آپ کو بھی اپنا مضمون ’’شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ‘‘ پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں جس میں ہم نے شاعری میں وزن کی اہمیت کو جاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔پڑھ کر اپنی رائے سے ضرور نوازئیے۔

ایک ضروری بات : اگر نثری نظم کہنا چاہیں تو یہ بہت آسان ہے۔ پہلے اپنے خیال کو ایک خوبصورت مرقع و مسجع جملے کی شکل میں ڈھال لیجیے ، بعد میں اس ایک جملے کو کئی چھوٹے بڑے مصرعوں میں تقسیم کردیجیے۔ نثری نظم تیار ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کاوش تو اچھی ہے ۔شاید اسی لیے بھی کہ یہ موج بحر میں ہونے کے باوجود بحر سے عاری اورتموّج کے عناصر سے خالی رہی ۔اگر ان اوزان اور جوار بھاٹوں کا ادراک شامل حال ہو تا تو یقینا کچھ اور غلغلے بلند ہوتے کیونکہ کچھ عرق ریزی بہرحال جھلکتی ہے ۔
جیسے دریا میں مچھلی ،صحرا میں اونٹ اور چٹیل وادیوں میں گھوڑے مناسبت کی نشانیاں ہیں چنانچہ ان ہی میدانوں میں اپنے میدان کاانتخا ب کریں اور نہ صرف کرتب دکھائیں بلکہ بڑے بڑے بیڑے اٹھائیں ۔۔۔۔ شعر ی زمین کےمبادیات میں رہنمائی کے لیے اور مذکورہ جوار بھاٹوں کے مترنِّم اتار چڑھاؤ کے کے لہراتے آہنگ سے آشنائی کے لیے ہمارے محبوب دوست خلیل بھائی کے گھونسے مکے اور لاتیں ازحد مفید ہیں ۔۔۔۔ کاوش کی داد کے ساتھ برادر عرفان سعید کو خوش آمدید۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ کے تعارف اور دیگر دوتین نثر پاروں کو پڑھ کر ہم آپ کی مرقع ، مصفح و مسجع نثر نگاری کے گرویدہ تو ہو ہی چکے تھےلیکن مندرجہ بالا نظم میں آپ کی اردو دانی کو دل سے مان گئے۔چلیے مانے لیتے ہیں کہ گزشتہ بیس دہائیوں میں ایسی مرقع و مسجع اردو لکھنے والے مرزا فرحت اللہ بیگ اور جوش ملیح آبادی کے بعد آپ ہی ہیں۔


مکرمی و محترمی جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب!
آپ کے مفصل تبصرے پر انتہائی ممنون ہوں۔ آپ کاعنائیت نامہ اس کا پورا پورا حق دار تھا اور جواب کے لیےمتقاضاضیٔ تعجیل تھا ، لیکن چمنستانِ حیات کی بوئے گُلِ اطفالِ دلکش کبھی کبھی کچھ اس طور سحر طاری کر دیتی ہے کہ سارے جہاں کا عکس ان پھولوں میں دیکھتا ہوں۔ اس کیفیت کی سرشاری دیکھیے کہ برگِ گُل کی تھرتھراہٹ میں ساری کائنات کا ارتعاش محسوس کرتا ہوں۔ اب ان نونہالانِ گُلستان کو چشمِ فراست کی بُھول بھلیوں میں کیا دیکھنا؟ ان گُل ہائے رنگیں کی لطافتوں سے زخمۂ دل کو چھیڑنا ہو تو دیدۂ بُلبلِ بے تاب کی نگاہِ نظارہ ٔ آموز مستعار لیے بِنا کوئی چارہ نہیں۔ ہنگامۂ زندگی کے شور و غُل میں یہی تو وہ منظر بہار ہے جس میں سب کاہشتیں اور کلفتیں دم توڑ جاتی ہیں۔اس عالمِ بے خودی کا کیف کچھ کم ہوتا ہے تو کارخانۂ حیات کے کارہائے ناتمام کی طرف نظر اٹھتی ہے، سو اُٹھا رہا ہوں۔
آپ کے انتہائی حوصلہ افزا، معلومات افروز اور خوبصورت پیغام کے جواب میں اپنے سپاس مندانہ جذبات کو الفاظ کا کون سا پیرہن پہناؤں، کچھ بَن نہیں پڑتی۔قلم ہاتھ میں تھامے سوچوں میں مستغرق ہوں کہ کیسے آپ کو بتاؤں کہ آپ کے پیامِ دلنواز نے دلِ مستمند پر اُمید و طمانیت کی بادِ بہاراں چلا دی۔ آپ نے اس کوتاہ علم اور فرومایہ تلمیذ کی ہمت افزائی میں اپنے چشمۂ دل کے سارے بند توڑ کر ، آبِ شفقت کی جو ندیاں اس تشنۂ علم پر اُنڈیل دی ہیں، جی چاہتا ہے کہ اپنے احساسِ تشکر کو مجسم کر دوں اور اس کے دستِ شوق کی انگشت ہائے پریشاں کی جنبشِ لرزاں آپ پہ عیاں کر دوں۔ اس بے محابہ لطف و عنائیت پر اعماقِ قلب سے احسان مند ہوں۔
آپ مجھ ایسے عاجز کی نگارشِ شکستہ پر تحسینِ حُسنِ ظن کی گُل پاشی کر رہے ہیں اور میں دیدۂ رشک سے آپ کی تحریر کی ساخت کو دیکھتا ہی چلا جاتا ہوں۔ اب شدتِ احساسِ فرائضِ معلمی اور بے ساختگیٔ جذبۂ حوصلہ افزائی سے اس قدر بھی مغلوب نہ ہو جائیں کہ اس نوزائیدہ اور ناپختہ کار کو عظیم نثر نگاروں کی صف میں لا کھڑا کریں۔ آپ نے مرزا فرحت الله بیگ اور جوش ملیح آبادی کا نام لیا، اور میری کم مائیگی اور خشک دامانی ملاحظہ ہوکہ ان اساتذہ کے نامِ گنجِ گرانمایہ ہی سن رکھے ہیں، ان کے کام اور فن کے ادنیٰ سے پرتو سے بھی ناشناس ہوں۔
سراسر تعجب نہ ہو تو کیا ہو؟ روشنی کی تلاش میں محوِ کاوش ہوں اور چراغ و سراج سے کنارہ کش ہوں۔ اندھیروں میں سراپا شکایت ہوں اور اُجالوں سے خائف ہو جاتا ہوں۔ ظلمتوں میں روح پاش پاش ہے اور سپیدۂ سحر کی کرن سے نگاہ برق پاش ہوتی ہے۔ تاریکیوں سے لرزاں ہوں اور تابانیوں سے گریزاں ہوں۔علم کے بحرِ بے کراں میں غواصی کے لیے مچلتا ہوں اور شورشِ قلزم و غلغلۂ موج سے دور بھاگتا ہوں۔
اس کلپترہ گوئی اور لاطائل نویسی کے بعد اصل مضمون کی طرف پلٹتا ہوں۔ آپ نے شاعری کو "ادب کی صنفِ نازک"قرار دے کرگویا تمام الجھنوں کا یک قلم خاتمہ کر دیا۔ یہ نکتۂ لطیف شاید سینکڑوں صفحات کی ورق گردانی کے بعد بھی میری گرفتِ ادراک سے باہر ہوتا، جسے آپ نے محض چار الفاظ میں سمو دیا۔ اب یہ ملکۂ ادب جس قصر ِ آبگینہ سے اپنا دلفریب حُسن و جمال نچھاور کر رہی ہے، اس تک رسائی تک کے لیے آدابِ شاہی سے واقفیت ناگزیر ہے۔
"ہم سمجھتے ہیں کہ شاعری کرنے کے لیے علم عروض کا جاننا چنداں ضروری نہیں۔ البتہ وزن کا شعور ضروری ہے": جامعیت کی عکاس یہ سطریں میرے غیر ضروری خدشات اور ذہنی ابہام کو رفع کیے دیتی ہیں۔ جس بنیادی اصول کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا، سوچتا ہوں تو اس کا دائرہ اطلاق عروض تو کیا ہر شعبۂ علم میں پاتا ہوں۔علم کی بازی گاہ میں کامرانی نے ان جبینونوں کو بوسہ دیا جو انبوۂ تفاصیل سے جوہرِ اصل کی کشید میں مصروف رہیں۔ جس نے اس طلسم کدہ کی کلید کو پا لیا، اُس نے سحر طاری کیے رکھا ورنہ فقط مسحور ہی رہا۔
آپ نے میری بیماری کا جو نسخہ تجویز کیا ہے، ضرور اس کو استعمال میں لاؤں گا اور آپ کو شفایابی کی خبریں سناتا رہوں گا۔ نثری نظم کی ہئیت کا فلسفہ کس خوبی سے آپ نے بیان فرمایا ہے۔ نجانے کیوں، طبیعیت میں اس کے لیے مستعدی اور چستی مفقود پاتا ہوں۔ شاید کبھی اس طرف مائل ہو پائے۔ البتہ منظوم نثر حسرتِ دیرینہ رہے گی۔
رات کے آخری پہر اب رکتا ہوں
خاکسار
عرفان
 

عرفان سعید

محفلین
کاوش تو اچھی ہے ۔شاید اسی لیے بھی کہ یہ موج بحر میں ہونے کے باوجود بحر سے عاری اورتموّج کے عناصر سے خالی رہی ۔اگر ان اوزان اور جوار بھاٹوں کا ادراک شامل حال ہو تا تو یقینا کچھ اور غلغلے بلند ہوتے کیونکہ کچھ عرق ریزی بہرحال جھلکتی ہے ۔
بہت خوب عاطف بھائی!
 
Top