آپ کے تعارف اور دیگر دوتین نثر پاروں کو پڑھ کر ہم آپ کی مرقع ، مصفح و مسجع نثر نگاری کے گرویدہ تو ہو ہی چکے تھےلیکن مندرجہ بالا نظم میں آپ کی اردو دانی کو دل سے مان گئے۔چلیے مانے لیتے ہیں کہ گزشتہ بیس دہائیوں میں ایسی مرقع و مسجع اردو لکھنے والے مرزا فرحت اللہ بیگ اور جوش ملیح آبادی کے بعد آپ ہی ہیں۔
مکرمی و محترمی جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب!
آپ کے مفصل تبصرے پر انتہائی ممنون ہوں۔ آپ کاعنائیت نامہ اس کا پورا پورا حق دار تھا اور جواب کے لیےمتقاضاضیٔ تعجیل تھا ، لیکن چمنستانِ حیات کی بوئے گُلِ اطفالِ دلکش کبھی کبھی کچھ اس طور سحر طاری کر دیتی ہے کہ سارے جہاں کا عکس ان پھولوں میں دیکھتا ہوں۔ اس کیفیت کی سرشاری دیکھیے کہ برگِ گُل کی تھرتھراہٹ میں ساری کائنات کا ارتعاش محسوس کرتا ہوں۔ اب ان نونہالانِ گُلستان کو چشمِ فراست کی بُھول بھلیوں میں کیا دیکھنا؟ ان گُل ہائے رنگیں کی لطافتوں سے زخمۂ دل کو چھیڑنا ہو تو دیدۂ بُلبلِ بے تاب کی نگاہِ نظارہ ٔ آموز مستعار لیے بِنا کوئی چارہ نہیں۔ ہنگامۂ زندگی کے شور و غُل میں یہی تو وہ منظر بہار ہے جس میں سب کاہشتیں اور کلفتیں دم توڑ جاتی ہیں۔اس عالمِ بے خودی کا کیف کچھ کم ہوتا ہے تو کارخانۂ حیات کے کارہائے ناتمام کی طرف نظر اٹھتی ہے، سو اُٹھا رہا ہوں۔
آپ کے انتہائی حوصلہ افزا، معلومات افروز اور خوبصورت پیغام کے جواب میں اپنے سپاس مندانہ جذبات کو الفاظ کا کون سا پیرہن پہناؤں، کچھ بَن نہیں پڑتی۔قلم ہاتھ میں تھامے سوچوں میں مستغرق ہوں کہ کیسے آپ کو بتاؤں کہ آپ کے پیامِ دلنواز نے دلِ مستمند پر اُمید و طمانیت کی بادِ بہاراں چلا دی۔ آپ نے اس کوتاہ علم اور فرومایہ تلمیذ کی ہمت افزائی میں اپنے چشمۂ دل کے سارے بند توڑ کر ، آبِ شفقت کی جو ندیاں اس تشنۂ علم پر اُنڈیل دی ہیں، جی چاہتا ہے کہ اپنے احساسِ تشکر کو مجسم کر دوں اور اس کے دستِ شوق کی انگشت ہائے پریشاں کی جنبشِ لرزاں آپ پہ عیاں کر دوں۔ اس بے محابہ لطف و عنائیت پر اعماقِ قلب سے احسان مند ہوں۔
آپ مجھ ایسے عاجز کی نگارشِ شکستہ پر تحسینِ حُسنِ ظن کی گُل پاشی کر رہے ہیں اور میں دیدۂ رشک سے آپ کی تحریر کی ساخت کو دیکھتا ہی چلا جاتا ہوں۔ اب شدتِ احساسِ فرائضِ معلمی اور بے ساختگیٔ جذبۂ حوصلہ افزائی سے اس قدر بھی مغلوب نہ ہو جائیں کہ اس نوزائیدہ اور ناپختہ کار کو عظیم نثر نگاروں کی صف میں لا کھڑا کریں۔ آپ نے مرزا فرحت الله بیگ اور جوش ملیح آبادی کا نام لیا، اور میری کم مائیگی اور خشک دامانی ملاحظہ ہوکہ ان اساتذہ کے نامِ گنجِ گرانمایہ ہی سن رکھے ہیں، ان کے کام اور فن کے ادنیٰ سے پرتو سے بھی ناشناس ہوں۔
سراسر تعجب نہ ہو تو کیا ہو؟ روشنی کی تلاش میں محوِ کاوش ہوں اور چراغ و سراج سے کنارہ کش ہوں۔ اندھیروں میں سراپا شکایت ہوں اور اُجالوں سے خائف ہو جاتا ہوں۔ ظلمتوں میں روح پاش پاش ہے اور سپیدۂ سحر کی کرن سے نگاہ برق پاش ہوتی ہے۔ تاریکیوں سے لرزاں ہوں اور تابانیوں سے گریزاں ہوں۔علم کے بحرِ بے کراں میں غواصی کے لیے مچلتا ہوں اور شورشِ قلزم و غلغلۂ موج سے دور بھاگتا ہوں۔
اس کلپترہ گوئی اور لاطائل نویسی کے بعد اصل مضمون کی طرف پلٹتا ہوں۔ آپ نے شاعری کو "
ادب کی صنفِ نازک"قرار دے کرگویا تمام الجھنوں کا یک قلم خاتمہ کر دیا۔ یہ نکتۂ لطیف شاید سینکڑوں صفحات کی ورق گردانی کے بعد بھی میری گرفتِ ادراک سے باہر ہوتا، جسے آپ نے محض چار الفاظ میں سمو دیا۔ اب یہ ملکۂ ادب جس قصر ِ آبگینہ سے اپنا دلفریب حُسن و جمال نچھاور کر رہی ہے، اس تک رسائی تک کے لیے آدابِ شاہی سے واقفیت ناگزیر ہے۔
"
ہم سمجھتے ہیں کہ شاعری کرنے کے لیے علم عروض کا جاننا چنداں ضروری نہیں۔ البتہ وزن کا شعور ضروری ہے": جامعیت کی عکاس یہ سطریں میرے غیر ضروری خدشات اور ذہنی ابہام کو رفع کیے دیتی ہیں۔ جس بنیادی اصول کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا، سوچتا ہوں تو اس کا دائرہ اطلاق عروض تو کیا ہر شعبۂ علم میں پاتا ہوں۔علم کی بازی گاہ میں کامرانی نے ان جبینونوں کو بوسہ دیا جو انبوۂ تفاصیل سے جوہرِ اصل کی کشید میں مصروف رہیں۔ جس نے اس طلسم کدہ کی کلید کو پا لیا، اُس نے سحر طاری کیے رکھا ورنہ فقط مسحور ہی رہا۔
آپ نے میری بیماری کا جو نسخہ تجویز کیا ہے، ضرور اس کو استعمال میں لاؤں گا اور آپ کو شفایابی کی خبریں سناتا رہوں گا۔ نثری نظم کی ہئیت کا فلسفہ کس خوبی سے آپ نے بیان فرمایا ہے۔ نجانے کیوں، طبیعیت میں اس کے لیے مستعدی اور چستی مفقود پاتا ہوں۔ شاید کبھی اس طرف مائل ہو پائے۔ البتہ منظوم نثر حسرتِ دیرینہ رہے گی۔
رات کے آخری پہر اب رکتا ہوں
خاکسار
عرفان