آصف شفیع
محفلین
ایک غزل احباب کی نذر:
موجہءخواب پہ اک نقش ابھارا جاءے
پھر سے گمنام سفینوں کو پکارا جاءے
ٓآخری جنگ ذرا سوچ سمجھ کر لڑنا
یہ نہ ہو فوج کا سالار بھی مارا جاءے
کتنے چہرے ہیں کہ پردے میں چھپے جاتے ہیں
شہرِ خاموش سے کس کس کو پکارا جاءے
اس محبت نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو
اب کوءی زہر ہی سینے میں اتارا جاءے
پھر سے دنیا مرے لٹنے کا تماشا دیکھے
پھر اسی زلفِ پریشاں کو سنوارا جاءے
جیت جانا تو بڑی بات نہیں ہے آصف
معجزہ یہ ہے، اسے جیت کے ہارا جاءے
(آصف شفیع)
موجہءخواب پہ اک نقش ابھارا جاءے
پھر سے گمنام سفینوں کو پکارا جاءے
ٓآخری جنگ ذرا سوچ سمجھ کر لڑنا
یہ نہ ہو فوج کا سالار بھی مارا جاءے
کتنے چہرے ہیں کہ پردے میں چھپے جاتے ہیں
شہرِ خاموش سے کس کس کو پکارا جاءے
اس محبت نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو
اب کوءی زہر ہی سینے میں اتارا جاءے
پھر سے دنیا مرے لٹنے کا تماشا دیکھے
پھر اسی زلفِ پریشاں کو سنوارا جاءے
جیت جانا تو بڑی بات نہیں ہے آصف
معجزہ یہ ہے، اسے جیت کے ہارا جاءے
(آصف شفیع)