مودی سرکار کی آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کی کوشش، کشمیر میں جاری احتجاج اور پاکستانی خاموشی

ربیع م

محفلین
آرٹیکل35اے کیا ہے

on: August 05, 2018


معلومات : کاشف میر
ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنے ‘مستقل شہری کی تعریف طے کرے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں مختلف حقوق بھی دئے گئے ہیں جبکہ دفعہ 370 جموں و کشمیر کو کچھ خصوصی حقوق دیتا ہے۔ 1954ء میں بھارتی صدر کے ایک حکم کے بعد آرٹیکل 35 اے کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

آرٹیکل 35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا حصہ ہے۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل ہے۔آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا ہے۔ یہی آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا ہے۔ اسے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بھارت کشمیر کے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کر رہا ہے۔

آر ایس ایس کے ایک تھنک ٹینک گروپ جموں کشمیر سٹڈی سینٹر نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35 اے کو چیلنج کیا تھا۔ یہ معاملہ اس وقت سے سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور سموار کے دن سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ سنانا ہے۔

آرٹیکل 370 کی وجہ سے صرف تین ہی معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس ہیں جن میں سیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیں۔ باقی تمام اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہیں۔بھارت اب عدالتوں کے ذریعے اس آرٹیکل کو ختم کر کے کشمیریت کی پہچان ختم کرنا اور اس متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو لانا چاہتا ہے۔ اس لیے ہم تمام کشمیری بھارت کے اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔

اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں کی رہی سہی اہمیت ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلیے رائےشماری کا ماحول بنا کر دیا جائے۔

بشکریہ
 
اس آرٹیکل پر پاکستانی رائے زنی کا مطلب ہوگا کہ ہم اس کی ہندوستان کے آئین میں شمولیت کو مان کر مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا آئینی حصہ تسلیم کرتے ہیں پاکستان اس پر اپنا ردعمل نہ دے تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ ہم تو کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ ہی غلط اور خلاف اصول سمجھتے ہیں تو ہندوستان کے آئین میں اس کی کیا حیثیت ہے اسے کیسے تسلیم کر سکتے ہیں۔ اس پر کشمیریوں کا احتجاج اور ردعمل ضرور بنتا ہے کیونکہ یہ ان کے حقوق کا معاملہ ہے اور پاکستان کشمیریوں کو سپورٹ کرتا ہے
 

ربیع م

محفلین
اس آرٹیکل پر پاکستانی رائے زنی کا مطلب ہوگا کہ ہم اس کی ہندوستان کے آئین میں شمولیت کو مان کر مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا آئینی حصہ تسلیم کرتے ہیں پاکستان اس پر اپنا ردعمل نہ دے تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ ہم تو کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ ہی غلط اور خلاف اصول سمجھتے ہیں تو ہندوستان کے آئین میں اس کی کیا حیثیت ہے اسے کیسے تسلیم کر سکتے ہیں۔ اس پر کشمیریوں کا احتجاج اور ردعمل ضرور بنتا ہے کیونکہ یہ ان کے حقوق کا معاملہ ہے اور پاکستان کشمیریوں کو سپورٹ کرتا ہے
مودی نے اپنی الیکشن کمپین میں اس آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کا بارہا وعدہ کیا تھا اور روز اول سے ہی سنجیدگی سے اس کیلئے کوشاں ہے.
جموں کی ڈیموگرافی وہ بدل چکے ہیں اور اس آئین کی منسوخی کے بعد کشمیر سے بھی یہی سلوک ہو گا لیہہ اور لداخ میں مسلمان ویسے ہی اقلیت میں ہیں
پاکستان اس کے بعد لے دے کر رائے شماری کا مطالبہ بھی کرے تو اسے ہزیمت ہو گی.
بس اسی خوش فہمی میں رہے کہ ہم قبضہ تسلیم نہیں کرتے.
ایک دن مسلمان کشمیر میں اقلیت بن جائیں گے'
صرف اگست کے مہینے میں کشمیر میں اس منسوخی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں 34 کشمیری شہید 483 زخمی اور 196 گرفتار ہو چکے ہیں.

پاکستان وزارت خارجہ سے کچھ خاص توقع بھی نہیں البتہ حیرت ان تنظیموں پر ہے جو کشمیر سے متعلق چیمپئن بنی پھرتی ہیں لیکن فی الوقت انھیں الیکشن سے ہی فرصت نہیں.
 

ربیع م

محفلین
سیاسی بیانات اور آئینی حیثیت میں فرق ہوتا ہے.
یہ سلسلہ مودی سرکار کے آنے سے ہی جاری ہے پہلے پاکستان کی جانب سے کچھ نہ کچھ احتجاج دیکھنے میں آتا تھا لیکن برا ہو ان الیکشن کے جھمیلوں کا جو اس بار وہ بھی دکھائی نہیں دیا.
مبینہ طور پر وزیر اعظم خان صاحب اس بار یو این اجلاس میں شرکت کیلئے بھی نہیں جا رہے تو اگر پاکستان یو این میں اس معاملے کو اٹھائے بھی تو بالکل اا کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی.
 

جاسم محمد

محفلین
گر پاکستان یو این میں اس معاملے کو اٹھائے بھی تو بالکل اا کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی.
نیٹ پر مختلف ہندوستانیوں سے بات چیت رہتی ہے۔ ان کے مطابق بھارت کی پوزیشن پاکستان کے مقابلہ میں بہت مستحکم ہے۔ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوگا۔ جنگ و دہشتگردی وغیرہ کا سارا نقصان پاکستان اور کشمیر کو ہوا۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوسری جانب فلسطین اور اسرائیل کے مابین جھڑپیں پھر شدت اختیار کر گئی ہیں۔ ہر جمعہ غزہ سے اسرائیل پر راکٹوں سے حملے اور اسکے جواب میں اسرائیلی ایف 16 طیاروں کی بمباری معمول بن کر رہ گیا ہے۔ پتا نہیں ان کو عقل کب آئے گی۔
8853761ae37e4f52bc0748e6e983ea7d_18.jpg

44846090_2269067190005623_6514239737509707776_n.jpg

44932132_2269067216672287_668025701252726784_n.jpg
 
یہ بیانیہ کس کا ہے۔۔۔؟؟؟
اسرائیل سے ہمدردی کا دریا اچھل اچھل کر باہر آ رہا ہے۔ قابض اسرائیل نہتے فلسطینیوں سے موازنہ بنتا ہی نہیں یہ جھڑپیں نہیں ہیں یہ قتل عام ہے اور ویسا ہی قتل عام ہے جیسا کشمیر میں ہے۔ وہاں ہندی فوجیں ہیں یہاں اسرائیلی ۔۔۔۔۔ لوگوں کے مظاہرے بھی برداشت نہیں ہوتے اوپر سے امت مسلمہ میں ان سے زیادہ ان کے وفادار اسے دو طرفہ جھڑپیں قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں
 

فرقان احمد

محفلین
عقل کا سبق اسرائیل کو دیا جا رہا ہے یا فلسطینیوں کو؟
جب تک مسلم ممالک ایک مقصد یا نظریے پر اکھٹے نہیں ہوں گے تب تک مظالم کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور برابر جاری رہے گا۔ او آئی سی کو اپنی قوت کا احساس نہیں؛ پچاس سے زائد مسلم ممالک کے اس نام نہاد ادارے کو بند کر دیا جائے تب بھی شاید زیادہ فرق نہ پڑے؛ بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دو طرفہ جھڑپیں ہوتی ہوں گی تاہم ان کے اسباب پر توجہ دی جائے تو مناسب رہے گا۔ مغربی میڈیا تو انہیں دو طرفہ جھڑپیں قرار دے گا اور مغربی اذہان اس سے 'مطمئن' بھی ہو جاتے ہوں گے تاہم اصل معاملہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا۔ مسلم ممالک میں بسنے والے عوام کو اپنی اپنی حکومتوں پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سب مل کر اسرائیل اور اس کے حواریوں کا معاشی مقاطعہ کریں۔ یہ ایک خواب ہے جو شاید فرقہ واریت اور مسلم ممالک کے آپسی تنازعات کے باعث شاید کبھی پورا نہ ہو سکے تاہم یقین کیجیے کہ اگر پچاس سے زائد مسلم ممالک کسی ایک مقصد کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو پھر بھی کچھ بھی ناممکن نہیں رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
عقل کا سبق اسرائیل کو دیا جا رہا ہے یا فلسطینیوں کو؟
ظاہر ہے دونوں کو۔ ان ہفتہ وارفسادات سے اسرائیل کی معیشت کو ناقبل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ املاک اور دفاع کا خرچہ الگ۔ ایک فلسطینی راکٹ جو چند سو ڈالر کا ہوتا ہے کو گرانے کیلئے لاکھوں ڈالرز کا میزائل مارا جاتا ہے۔ ایسا کب تک چلے گا؟ بہتر نہ ہوگا کہ دونوں فریق جنگ بندی کر کے معاملات مذاکرات کی میز پر حل کریں۔ یہی حل مسئلہ کشمیر کیلئے ہے۔
 
Top