سراج الدین ظفر موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں ۔ سراج الدین ظفر

فرخ منظور

لائبریرین
موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
پیچ اے زلفِ سیہ فام ابھی باقی ہیں

اک سبو اور کہ لوحِ دلِ مے نوشاں پر
کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں

ٹھہر اے بادِ سحر اس گلِ نورستہ کے نام
اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں

کم ہو کیا قدرِ غزالانِ برہمن کہ یہاں
ہم سے کچھ بندۂ اسلام ابھی باقی ہیں

کھول کر مصرعِ کاکُل کی ہے لازم تشریح
اس نوشتے میں کچھ ابہام ابھی باقی ہیں

اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
چند لمحاتِ خوش انجام ابھی باقی ہیں

انتظار اے دل و دیدہ کہ ہزاروں اسرار
سائے کی طرح تہہِ جام ابھی باقی ہیں

سلسلہ سرمد و منصور کا منسوخ نہیں
اور فہرست میں کچھ نام ابھی باقی ہیں

طول کھینچ اے شبِ مے خانہ کہ سب کارِ سیاہ
بہ ہمہ لذتِ اقدام ابھی باقی ہیں

اے سہی قد تری نسبت سے سب اونچی قدریں
باوجودِ روشِ عام ابھی باقی ہیں

نقشِ جاوید بنا دے انھیں اے گردشِ جام
موسمِ گُل کے جو ایّام ابھی باقی ہیں

نقطۂ حُسن سے ہے گردشِ پُرکارِ نیاز
ہم بھی باقی ہیں کہ اصنام ابھی باقی ہیں

اور ابھی روند انھیں اے کفِ پائے تحقیق
دل میں سو طرح کے اوہام ابھی باقی ہیں

ہم سے مے خانہ نشینوں کی جلالت کے سبب
قصصِ دارا و بہرام ابھی باقی ہیں

ہم میں کل کے نہ سہی حافظؔ و خیامؔ، ظفرؔ
آج کے حافظؔ و خیامؔ ابھی باقی ہیں

(سراج الدین ظفرؔ)

 
آخری تدوین:
Top