طارق شاہ
محفلین
غزل
موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا، اگر تھا تو بہانہ وہ تھا
اِک عجب دَور جوانی کا کبھی یُوں بھی رہا
میں کہانی جو زبانوں پہ، فسانہ وہ تھا
اپنا کر لایا ہر اِک غم مَیں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا اُس کا نشانہ وہ تھا
دِل عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں، کہ اِسے
ایک مندر کی طرح کا ہی، ٹھکانہ وہ تھا
وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چُھپانا غم کا
اشک آنکھوں سے رَواں تھے، جو روانہ وہ تھا
دُشمنِ جاں جو سرِدست ہے ٹھہرا میرا
سر کا سایہ کبھی میرے، کبھی شانہ وہ تھا
عاشقی کا نہ مجھے ہی، مگر اُن کو بھی خلش
رہ گیا یاد ہر اِک دن ، کہ سُہانہ وہ تھا
شفیق خلش