فاروقی
معطل
موسیقی
حضرت امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالٰی نے مجھے مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بانسری، طنبورہ، صلیب اور امور جاہلیت کو مٹا دوں”۔
(ابوداؤد)
فائدہ:۔
آج ہمارے معاشرے میں گانے کا رواج بہت عام ہوچکا ہے۔ گھر گھر، گلی گلی، فلمی گانوں اور موسیقی کی آواز سے گونج رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش اور کیبل وغیرہ نے ان کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل سے اس کا گناہ ہونا نکل چکا ہے۔ بلکہ اس کو روح کی غذا بتایا جارہا ہے۔ لیکن قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔ ”بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ تعالٰی سے غافل کرنے والی ہیں۔ تاکہ بے سوچے سمجھے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اس راہ حق کا مذاق اڑائیں۔ یہ لوگ ہیں جن کے لیے ذلت دینے والا عذاب ہے”۔ (لقمان۔6)۔
اس آیت میں لھو الحدیث (غافل کرنے والی بات) سے مراد گانا، بجانا اس کا سازوسامان اور آلات ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جب اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس مراد گانا ہی ہے”۔ آپ نے یہ جملہ تین بار دہرایا۔ اس آیت کے نزول کا واقعہ یہ ہے کہ نضر بن حارث جو اسلام کا سخت دشمن تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ قرآن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں وہ مختلف کوششیں کرتا رہتا تھا جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس نے ایک گانے والی کنیز رکھی ہوئی تھی۔ وہ جس کو اسلام کی طرف مائل دیکھتا اس کنیز کا گانا سنواتا اور پوچھتا بتاؤ، مزہ گانے میں ہے یا قرآن کریم میں؟ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن سے دور اور گانے بجانے میں لگ جائیں اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس کو حرام قرار دے دیا۔
لیکن دین سے دور کرنے جو طریقہ نضر بن حارث نے دکھایا اس کے پیروکار آج بھی اس کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلوکار اور گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فنکار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور نا جانے کیسے کیسے مہذب، خوشنما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتے ہیں۔ آج کل میڈیا کے ذریعے عریاں فلمیں، فحش ڈرامے، ناچ گانے، چوری ڈکیتی اور قتل و غارت گاری کے پروگرام دکھا کر یہ مقصد خوب حاصل کیا جارہا ہے۔ بلکہ قوم کی ساری خرابیوں کا واحد علاج عریانی فحاشی اور گانا بجانا بتایا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ ایسا نشہ ہے کہ جب کوئی قوم اس میں مست ہو جاتی ہے تو پھر سب کچھ بھول جاتی ہے۔ دین کا توکیا کہنا اپنی دنیا سے بھی غافل ہو جاتی ہے۔
صفوان بن امیہ کہتے ہیں کہ ہم سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمروبن مزہ حاضر خدمت ہوا اور یہ درخواست کی کہ حضرت میں تنگدست ہوں۔ میرے لیے ذریعہ معاش صرف دف بجانا ہی ہے۔ جناب مجھے اجازت فرما دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کےدشمن تم جھوٹ کہتے ہو۔ تجھے اللہ تعالٰی نے حلال رزق دیا تونے اسے حرام بنا لیا۔ اگر تونے اس برے کام سے توبہ نہ کی تو میں سر منڈوا کر تجھے مدینہ سے نکال دوں گا اور مدینہ کے نوجوانوں کو حکم دوں گا کہ وہ تیرا مال لوٹ لیں۔ یہ تو دنیا میں تیر حشر ہوگا اور قیامت کے دن تو ننگا اور ہیجڑا بن کر اٹھے گا۔ تیری دماغی حالت اس انسان کی طرح ہوگی جس کا دماغی توازن مرگی نے ضائع کردیا ہو۔ پھر جب وہ چلا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ نافرمان ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بغیر توبہ کے مر گیا تو قیامت کے دن اسے اللہ تعالٰی ہیجڑا اور ننگا اٹھائے گا اس کے بدن پر ذرا بھی کپڑا نہ ہوگا۔ جب کبھی کھڑا ہوگا بےہوش ہو کر گر پڑے گا۔ (بحوالہ ابن ماجہ)
دف کی بنیاد پر موسیقی کو جائز قراردینے والے اس روایت پر غور فرمائیں اور اپنی سوچ اور فکر کو ٹھیک کر لیں۔ موسیقی وغیرہ سے کچھ مسرت اور تسکین نفس کے پجاریوں کو حاصل ہو جاتی ہے مگر ایمان والوں کے دلوں کا اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے۔
”جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یادرکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔ (الرعد.....2....
حضرت امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالٰی نے مجھے مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بانسری، طنبورہ، صلیب اور امور جاہلیت کو مٹا دوں”۔
(ابوداؤد)
فائدہ:۔
آج ہمارے معاشرے میں گانے کا رواج بہت عام ہوچکا ہے۔ گھر گھر، گلی گلی، فلمی گانوں اور موسیقی کی آواز سے گونج رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش اور کیبل وغیرہ نے ان کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل سے اس کا گناہ ہونا نکل چکا ہے۔ بلکہ اس کو روح کی غذا بتایا جارہا ہے۔ لیکن قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔ ”بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ تعالٰی سے غافل کرنے والی ہیں۔ تاکہ بے سوچے سمجھے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اس راہ حق کا مذاق اڑائیں۔ یہ لوگ ہیں جن کے لیے ذلت دینے والا عذاب ہے”۔ (لقمان۔6)۔
اس آیت میں لھو الحدیث (غافل کرنے والی بات) سے مراد گانا، بجانا اس کا سازوسامان اور آلات ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جب اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس مراد گانا ہی ہے”۔ آپ نے یہ جملہ تین بار دہرایا۔ اس آیت کے نزول کا واقعہ یہ ہے کہ نضر بن حارث جو اسلام کا سخت دشمن تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ قرآن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں وہ مختلف کوششیں کرتا رہتا تھا جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس نے ایک گانے والی کنیز رکھی ہوئی تھی۔ وہ جس کو اسلام کی طرف مائل دیکھتا اس کنیز کا گانا سنواتا اور پوچھتا بتاؤ، مزہ گانے میں ہے یا قرآن کریم میں؟ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن سے دور اور گانے بجانے میں لگ جائیں اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس کو حرام قرار دے دیا۔
لیکن دین سے دور کرنے جو طریقہ نضر بن حارث نے دکھایا اس کے پیروکار آج بھی اس کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلوکار اور گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فنکار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور نا جانے کیسے کیسے مہذب، خوشنما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتے ہیں۔ آج کل میڈیا کے ذریعے عریاں فلمیں، فحش ڈرامے، ناچ گانے، چوری ڈکیتی اور قتل و غارت گاری کے پروگرام دکھا کر یہ مقصد خوب حاصل کیا جارہا ہے۔ بلکہ قوم کی ساری خرابیوں کا واحد علاج عریانی فحاشی اور گانا بجانا بتایا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ ایسا نشہ ہے کہ جب کوئی قوم اس میں مست ہو جاتی ہے تو پھر سب کچھ بھول جاتی ہے۔ دین کا توکیا کہنا اپنی دنیا سے بھی غافل ہو جاتی ہے۔
صفوان بن امیہ کہتے ہیں کہ ہم سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمروبن مزہ حاضر خدمت ہوا اور یہ درخواست کی کہ حضرت میں تنگدست ہوں۔ میرے لیے ذریعہ معاش صرف دف بجانا ہی ہے۔ جناب مجھے اجازت فرما دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کےدشمن تم جھوٹ کہتے ہو۔ تجھے اللہ تعالٰی نے حلال رزق دیا تونے اسے حرام بنا لیا۔ اگر تونے اس برے کام سے توبہ نہ کی تو میں سر منڈوا کر تجھے مدینہ سے نکال دوں گا اور مدینہ کے نوجوانوں کو حکم دوں گا کہ وہ تیرا مال لوٹ لیں۔ یہ تو دنیا میں تیر حشر ہوگا اور قیامت کے دن تو ننگا اور ہیجڑا بن کر اٹھے گا۔ تیری دماغی حالت اس انسان کی طرح ہوگی جس کا دماغی توازن مرگی نے ضائع کردیا ہو۔ پھر جب وہ چلا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ نافرمان ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بغیر توبہ کے مر گیا تو قیامت کے دن اسے اللہ تعالٰی ہیجڑا اور ننگا اٹھائے گا اس کے بدن پر ذرا بھی کپڑا نہ ہوگا۔ جب کبھی کھڑا ہوگا بےہوش ہو کر گر پڑے گا۔ (بحوالہ ابن ماجہ)
دف کی بنیاد پر موسیقی کو جائز قراردینے والے اس روایت پر غور فرمائیں اور اپنی سوچ اور فکر کو ٹھیک کر لیں۔ موسیقی وغیرہ سے کچھ مسرت اور تسکین نفس کے پجاریوں کو حاصل ہو جاتی ہے مگر ایمان والوں کے دلوں کا اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے۔
”جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یادرکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔ (الرعد.....2....
سورس