محمد وارث
لائبریرین
امام الہند مولانا ابوالکلام محی الدین احمد آزاد کا عہد ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی نازک ترین عہد تھا اور اسی عہد کی "نازک مزاجیوں" کی وجہ سے مولانا کی مذہبی و علمی و ادبی حیثیت پس پردہ چلی گئی حالانکہ مولانا کو سولہ سترہ برس کی عمر ہی میں مولانا کہا جانا شروع ہو گیا تھا۔ خیر یہ مولانا کی سیاست پر بحث کرنے کا محل نہیں ہے کہ مقصود نظر مولانا کے چند اشعار پیش کرنا ہیں۔
مولانا لڑکپن میں اشعار کہا کرتے تھے اور آزاد تخلص کرتے تھے، شاید بعد میں اشعار کہنا ترک فرما دیے تھے یا انکی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ شاعری کیلیے وقت نہیں ملا لیکن تخلص انکے نام کا جزوِ لاینفک ضرور بن گیا۔ مولانا کی خودنوشت سوانح "آزاد کی کہانی، آزاد کی زبانی" میں انکے چند اشعار شامل ہیں وہی لکھ رہا ہوں، اگر دوستوں کے علم میں مولانا آزاد کے مزید اشعار ہو تو لکھ کر شکریہ کا موقع دیں۔
سب سے پہلے مولانا کی ایک رباعی جو مذکورہ کتاب کے مرتب مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے دیباچے میں لکھی ہے اور کیا خوبصورت رباعی ہے۔
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
اور ایک غزل کے تین اشعار جو اسی کتاب کے متن میں مولانا نے خود تحریر فرمائے ہیں۔
نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گرد بار تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ مری قبر نہیں سائبان کی
آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
ایک مزید شعر اسی کتاب میں سے
سب لوگ جدھر ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
اور اب مولانا کی ایّامِ جوانی کی ایک تصویر۔ یہ تصویر انکی کتاب "تذکرہ " کی اشاعتِ اوّل 1919ء میں شامل ہوئی تھی، مولانا اس تصویر کی اشاعت کیلیے راضی نہیں تھے لیکن کتاب کے مرتب فضل الدین احمد مرزا نے مولانا کی اجازت کے بغیر اس تصویر کو مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا تھا۔
"بہرحال مولانا کے اس حکم کی میں تعمیل نہ کر سکا اور کتاب کے ساتھ اُن کا سب سے آخری فوٹو شائع کر رہا ہوں، یہ فوٹو رانچی میں لیا گیا ہے اور مولانا کی بریّت کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ کم سے کم اس کے کھنچوانے میں خود مولانا کے ارادے کو کچھ دخل نہ تھا، وہ بالکل مجبور تھے۔"
اس داخلی شہادت سے اس تصویر میں مولانا کی عمر کا بھی تعین ہو جاتا ہے۔ مولانا 1916ء میں رانچی گئے تھے اور یہ کتاب 1919ء میں شائع ہوئی جبکہ مولانا وہیں تھے سو اس تصویر میں مولانا کی عمر لگ بھگ اٹھائیس سے تیس سال ہے۔
تصویر ملاحظہ کیجیے۔ مولانا آزاد کی کتب اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں اور اسی ویب سائٹ سے یہ تصویر حاصل کی ہے۔
مولانا آزاد ایّامِ جوانی میں
مولانا ابوالکلام آزاد - تصویر شائع شدہ "تذکرہ" اشاعتِ اوّل 1919ء
سرورق "تذکرہ" اشاعتِ اوّل - 1919ء
مولانا لڑکپن میں اشعار کہا کرتے تھے اور آزاد تخلص کرتے تھے، شاید بعد میں اشعار کہنا ترک فرما دیے تھے یا انکی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ شاعری کیلیے وقت نہیں ملا لیکن تخلص انکے نام کا جزوِ لاینفک ضرور بن گیا۔ مولانا کی خودنوشت سوانح "آزاد کی کہانی، آزاد کی زبانی" میں انکے چند اشعار شامل ہیں وہی لکھ رہا ہوں، اگر دوستوں کے علم میں مولانا آزاد کے مزید اشعار ہو تو لکھ کر شکریہ کا موقع دیں۔
سب سے پہلے مولانا کی ایک رباعی جو مذکورہ کتاب کے مرتب مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے دیباچے میں لکھی ہے اور کیا خوبصورت رباعی ہے۔
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
اور ایک غزل کے تین اشعار جو اسی کتاب کے متن میں مولانا نے خود تحریر فرمائے ہیں۔
نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گرد بار تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ مری قبر نہیں سائبان کی
آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
ایک مزید شعر اسی کتاب میں سے
سب لوگ جدھر ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
اور اب مولانا کی ایّامِ جوانی کی ایک تصویر۔ یہ تصویر انکی کتاب "تذکرہ " کی اشاعتِ اوّل 1919ء میں شامل ہوئی تھی، مولانا اس تصویر کی اشاعت کیلیے راضی نہیں تھے لیکن کتاب کے مرتب فضل الدین احمد مرزا نے مولانا کی اجازت کے بغیر اس تصویر کو مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا تھا۔
"بہرحال مولانا کے اس حکم کی میں تعمیل نہ کر سکا اور کتاب کے ساتھ اُن کا سب سے آخری فوٹو شائع کر رہا ہوں، یہ فوٹو رانچی میں لیا گیا ہے اور مولانا کی بریّت کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ کم سے کم اس کے کھنچوانے میں خود مولانا کے ارادے کو کچھ دخل نہ تھا، وہ بالکل مجبور تھے۔"
اس داخلی شہادت سے اس تصویر میں مولانا کی عمر کا بھی تعین ہو جاتا ہے۔ مولانا 1916ء میں رانچی گئے تھے اور یہ کتاب 1919ء میں شائع ہوئی جبکہ مولانا وہیں تھے سو اس تصویر میں مولانا کی عمر لگ بھگ اٹھائیس سے تیس سال ہے۔
تصویر ملاحظہ کیجیے۔ مولانا آزاد کی کتب اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں اور اسی ویب سائٹ سے یہ تصویر حاصل کی ہے۔
مولانا آزاد ایّامِ جوانی میں
مولانا ابوالکلام آزاد - تصویر شائع شدہ "تذکرہ" اشاعتِ اوّل 1919ء
سرورق "تذکرہ" اشاعتِ اوّل - 1919ء