عبدالرزاق قادری
معطل
21 دسمبر 2013
مولانا ابو الکلام آزاد فکر و کردار....1/2
گزشتہ دنوں2دسمبر 2013ءکو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مقامی جریدے میں اپنے کالم "سحر ہونے تک"میں ایک صحافی شورش کا شمیری کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک انٹرویو شائع کیا جو بادی النظر میں دو قومی نظریہ کو منہدم کرنے کے مترادف ہے ۔ مولانا آزاد اپنی پوری سیاسی زندگی میں مکمل طور پر ہندﺅوں کی نمائندہ جماعت گانگریس کے نہ صرف دل و جان سے وفادار رہے بلکہ گاندھی ، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرم اور مسلم کش سیاست کے باوجود آخری دم تک اس کوشش میں تھے کہ ہندوستان کسی بھی صورت تقسیم نہ ہو ۔ مولانا آزادکے کا نگریسی کردار کی وجہ سے قائد اعظم نے انہیں گانگرس کے شوبوائے "Showboy"کا خطاب عطا فرمایا تھا ۔. اب آئیے مولانا آزاد کے دئیے گئے انٹرویو کی جانب جو انہوں نے شورش کاشمیری کو دیا( جسے ڈاکٹر اے کیو خان نے اپنے کالم میں ری پروڈیوس کیا ہے ) ۔ "مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ ہندو مسلم منا قشات (اختلافات )کا حل پاکستان ہوتا تو میں خود اس کی حمایت کر تا ©"۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے بات کا رخ تبدیل کر دیا ۔ ایک طویل عرصہ ہندو کانگریس کا صدر رہنے کے باوجود ریاست ہندوستان میں پیدا شدہ ہند و مسلم اختلافات کا کوئی حل کیوں نہ دیا ؟ پھر مولانا آزاد فرماتے ہیں اب ایک ایسے معاشرے کو جس کی آبادی نوے فیصد ہندو ہو کسی اور سانچے میں کیوں کر ڈھال سکتے ہیں ؟ ۔۔۔ مولانا آزاد ایک طرف اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ غیر منقسم ہندوستان کی نوے فیصد آباد ی ہندو اکثریت پر مشتمل ہے اور یقینا اس کو کسی اور سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا تو پھر مسلمانان ہند کی اقلیت کا ایک اتنی بڑی اور کثیر ہندو آبادی والے ملک میں کیا مستقبل ہو سکتا تھا ؟ کیا دس فیصد مسلمانوں کو نوے فیصد ہندﺅوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا دانش مندی تھی ؟ پھر مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ ©"ہندﺅوں اور مسلمانوں کی سیاسی منافرت نے اشاعت اسلام کے دروازے بند کرد ئیے کہ ان کے کھولنے کا سوال ہی نہیں رہا ۔ گویا اس سیاست نے مذہب کی دعوت ختم کر دی "۔ دعوت اسلام کی بندش کی بات تو مولانا آزاد نے اس طرح کی جیسے اس سے قبل ہندوستان میں دعوت اسلام کا کام صرف مولانا آزاد ہی سر انجام دے رہے تھے۔ گویا ہند میں مسلمانوں کی سیاسی بیداری سے قبل مولانا آزاد لاکھوں ہندﺅوں کو مشرف با اسلام کر رہے تھے، جو کہ مسلم لیگ کے بننے کے بعد فورا ختم ہو گئی ۔ خود مولانا آزاد کے ہاتھ پر کوئی ایک بھی ہندﺅ مسلمان ہوا ؟ اوروں کو تو چھوڑئیے اگر دعوت اسلام کی اتنی ہی فکر تھی تو گاندھی یا نہرو میں سے ہی کسی کو دعوت اسلام دے دیتے ۔ کیا مولانا آزاد نے گاندھی ، نہرو یا پٹیل جیسے ہندﺅ وں میں سے کسی کو بھی اسلام کی دعوت دی ؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں ؛اور "سرکاری مسلمان انگریزوں کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہندو مسلم نزاع کو وسیع و متحارب نہ کرتے تو عجب نہ تھا کہ مسلمانوں کی تعداد موجودہ تعداد سے ڈیوڑھی ہوتی "ذرا مولانا کے اس جملے کو دوبارہ پڑھیے اور بار بار پڑھیے اور سوچئے کیا یہ شخص مسلمانوں کا طرف دار ہو سکتا تھا ؟یعنی ہندوستان میں مسلمان ہی انگریز کے ایجنٹ تھے اور صرف مسلمان ہی تھے جو پورے ہندوستان میں نوے فیصد ہندﺅوں کی اکثریت سے نہ صرف متحارب تھے بلکہ ہندﺅوں کا قتل عام بھی کرتے رہتے تھے اور نوے فیصد ہندو بے چارے دس فیصد مسلمانوں کے سامنے محض بے بس تھے ۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ "ہندوستانی مسلمانوں نے دعوت اسلام کو منجمدکر دیا ۔ پھر کئی فرقوں میں بٹ گئے ۔ بعض فرقے استعماری پیدوار تھے " مسلمانان ہند پر کتنا بڑا اور گھناﺅنا الزام عائد کیا ہے مولانا آزاد نے ۔ حقیقت میں دعوت اسلام کا کام منجمد کرنے کا کام تو خود مولانا آزاد نے کیا تھا جو کافر اور مشرک ہندرہنماﺅں کی پیشوائی اور امامت پر لبیک کہا اور ساری زندگی گاندھی اور نہرو وغیرہ کی دیوزہ گری کر تے رہے اور کبھی ان کو دین اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں ۔ رہی بات فرقوں میں بٹنے کی تو بر صغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بر صغیر میں دو ہی مذہبی مسالک تھے یعنی سنی اور شیعہ ۔ اس کے بعد جہاد اور اصلاح کے نام پر اسماعیل دہلوی اور سید احمد بر ہلوی نے جو فرقہ واریت پھیلائی جس کے اثرات سے آج بھی پاکستان کے درودیوار خون آلود ہیں ۔ پہلی دو کتابیں جو برصغیر میں فرقہ واریت کا باعث بنیں وہ اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویة الایمان ©" اور سید احمد بر یلوی کی کتاب " صراط مستقیم " تھیں ۔ رہی بات مولا نا آزاد کے الزام کی تو ہم مولانا آزاد سے اور ان کے حواریوں سے یہ پوچھنے کی جرات تو کر سکتے ہیں کہ مولانا آزادبر صغیر پاک و ہند میں علمیت کے جس چبوترے پر بر اجمان تھے اس حوالے سے کیا ان پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلمانان برصغیر میں فرقہ واریت ختم کرنے کےلئے کوئی جدو جہد کرتے ؟ مولاناآزاد فرماتے ہیں کہ ©"پاکستان ایک سیاسی موقف ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے کہ نہیں اس کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے"۔۔۔مولانا آزاد نے قیام پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل کبھی تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی اور واضح حل بتایا ۔ اگر کوئی حل وضع فرمایا تھا تو وہ کانگریسی لیڈر پٹیل نے مسترد کر دیا تھا ۔ اسکے بعد مولانا آزاد کا سار ا زور اس بات پر ہی صرف ہوا کہ ہندوستان کی سیاست میں کبھی کوئی فیصلہ کانگریس کی ہندو قیادت کی مر ضی کےخلاف نہ ہو ۔(جاری ہے)
بشکریہ: نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/21-Dec-2013/267251
مولانا ابو الکلام آزاد فکر و کردار....1/2
گزشتہ دنوں2دسمبر 2013ءکو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مقامی جریدے میں اپنے کالم "سحر ہونے تک"میں ایک صحافی شورش کا شمیری کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک انٹرویو شائع کیا جو بادی النظر میں دو قومی نظریہ کو منہدم کرنے کے مترادف ہے ۔ مولانا آزاد اپنی پوری سیاسی زندگی میں مکمل طور پر ہندﺅوں کی نمائندہ جماعت گانگریس کے نہ صرف دل و جان سے وفادار رہے بلکہ گاندھی ، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرم اور مسلم کش سیاست کے باوجود آخری دم تک اس کوشش میں تھے کہ ہندوستان کسی بھی صورت تقسیم نہ ہو ۔ مولانا آزادکے کا نگریسی کردار کی وجہ سے قائد اعظم نے انہیں گانگرس کے شوبوائے "Showboy"کا خطاب عطا فرمایا تھا ۔. اب آئیے مولانا آزاد کے دئیے گئے انٹرویو کی جانب جو انہوں نے شورش کاشمیری کو دیا( جسے ڈاکٹر اے کیو خان نے اپنے کالم میں ری پروڈیوس کیا ہے ) ۔ "مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ ہندو مسلم منا قشات (اختلافات )کا حل پاکستان ہوتا تو میں خود اس کی حمایت کر تا ©"۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے بات کا رخ تبدیل کر دیا ۔ ایک طویل عرصہ ہندو کانگریس کا صدر رہنے کے باوجود ریاست ہندوستان میں پیدا شدہ ہند و مسلم اختلافات کا کوئی حل کیوں نہ دیا ؟ پھر مولانا آزاد فرماتے ہیں اب ایک ایسے معاشرے کو جس کی آبادی نوے فیصد ہندو ہو کسی اور سانچے میں کیوں کر ڈھال سکتے ہیں ؟ ۔۔۔ مولانا آزاد ایک طرف اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ غیر منقسم ہندوستان کی نوے فیصد آباد ی ہندو اکثریت پر مشتمل ہے اور یقینا اس کو کسی اور سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا تو پھر مسلمانان ہند کی اقلیت کا ایک اتنی بڑی اور کثیر ہندو آبادی والے ملک میں کیا مستقبل ہو سکتا تھا ؟ کیا دس فیصد مسلمانوں کو نوے فیصد ہندﺅوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا دانش مندی تھی ؟ پھر مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ ©"ہندﺅوں اور مسلمانوں کی سیاسی منافرت نے اشاعت اسلام کے دروازے بند کرد ئیے کہ ان کے کھولنے کا سوال ہی نہیں رہا ۔ گویا اس سیاست نے مذہب کی دعوت ختم کر دی "۔ دعوت اسلام کی بندش کی بات تو مولانا آزاد نے اس طرح کی جیسے اس سے قبل ہندوستان میں دعوت اسلام کا کام صرف مولانا آزاد ہی سر انجام دے رہے تھے۔ گویا ہند میں مسلمانوں کی سیاسی بیداری سے قبل مولانا آزاد لاکھوں ہندﺅوں کو مشرف با اسلام کر رہے تھے، جو کہ مسلم لیگ کے بننے کے بعد فورا ختم ہو گئی ۔ خود مولانا آزاد کے ہاتھ پر کوئی ایک بھی ہندﺅ مسلمان ہوا ؟ اوروں کو تو چھوڑئیے اگر دعوت اسلام کی اتنی ہی فکر تھی تو گاندھی یا نہرو میں سے ہی کسی کو دعوت اسلام دے دیتے ۔ کیا مولانا آزاد نے گاندھی ، نہرو یا پٹیل جیسے ہندﺅ وں میں سے کسی کو بھی اسلام کی دعوت دی ؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں ؛اور "سرکاری مسلمان انگریزوں کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہندو مسلم نزاع کو وسیع و متحارب نہ کرتے تو عجب نہ تھا کہ مسلمانوں کی تعداد موجودہ تعداد سے ڈیوڑھی ہوتی "ذرا مولانا کے اس جملے کو دوبارہ پڑھیے اور بار بار پڑھیے اور سوچئے کیا یہ شخص مسلمانوں کا طرف دار ہو سکتا تھا ؟یعنی ہندوستان میں مسلمان ہی انگریز کے ایجنٹ تھے اور صرف مسلمان ہی تھے جو پورے ہندوستان میں نوے فیصد ہندﺅوں کی اکثریت سے نہ صرف متحارب تھے بلکہ ہندﺅوں کا قتل عام بھی کرتے رہتے تھے اور نوے فیصد ہندو بے چارے دس فیصد مسلمانوں کے سامنے محض بے بس تھے ۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ "ہندوستانی مسلمانوں نے دعوت اسلام کو منجمدکر دیا ۔ پھر کئی فرقوں میں بٹ گئے ۔ بعض فرقے استعماری پیدوار تھے " مسلمانان ہند پر کتنا بڑا اور گھناﺅنا الزام عائد کیا ہے مولانا آزاد نے ۔ حقیقت میں دعوت اسلام کا کام منجمد کرنے کا کام تو خود مولانا آزاد نے کیا تھا جو کافر اور مشرک ہندرہنماﺅں کی پیشوائی اور امامت پر لبیک کہا اور ساری زندگی گاندھی اور نہرو وغیرہ کی دیوزہ گری کر تے رہے اور کبھی ان کو دین اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں ۔ رہی بات فرقوں میں بٹنے کی تو بر صغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بر صغیر میں دو ہی مذہبی مسالک تھے یعنی سنی اور شیعہ ۔ اس کے بعد جہاد اور اصلاح کے نام پر اسماعیل دہلوی اور سید احمد بر ہلوی نے جو فرقہ واریت پھیلائی جس کے اثرات سے آج بھی پاکستان کے درودیوار خون آلود ہیں ۔ پہلی دو کتابیں جو برصغیر میں فرقہ واریت کا باعث بنیں وہ اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویة الایمان ©" اور سید احمد بر یلوی کی کتاب " صراط مستقیم " تھیں ۔ رہی بات مولا نا آزاد کے الزام کی تو ہم مولانا آزاد سے اور ان کے حواریوں سے یہ پوچھنے کی جرات تو کر سکتے ہیں کہ مولانا آزادبر صغیر پاک و ہند میں علمیت کے جس چبوترے پر بر اجمان تھے اس حوالے سے کیا ان پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلمانان برصغیر میں فرقہ واریت ختم کرنے کےلئے کوئی جدو جہد کرتے ؟ مولاناآزاد فرماتے ہیں کہ ©"پاکستان ایک سیاسی موقف ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے کہ نہیں اس کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے"۔۔۔مولانا آزاد نے قیام پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل کبھی تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی اور واضح حل بتایا ۔ اگر کوئی حل وضع فرمایا تھا تو وہ کانگریسی لیڈر پٹیل نے مسترد کر دیا تھا ۔ اسکے بعد مولانا آزاد کا سار ا زور اس بات پر ہی صرف ہوا کہ ہندوستان کی سیاست میں کبھی کوئی فیصلہ کانگریس کی ہندو قیادت کی مر ضی کےخلاف نہ ہو ۔(جاری ہے)
بشکریہ: نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/21-Dec-2013/267251