مولانا احمدؔ پر تابگڑھی ؒ اور ان کاعارفانہ کلام

فاخر

محفلین
مولانا احمدؔ پر تابگڑھی ؒ اور ان کاعارفانہ کلام
تحریر: افتخاررحمانی فاخرؔ ،نئی دہلی

تسنیم وکوثرکی دھلی ہوئی زبان فلسفہ حیات،مقصدِ عبدیت اوررازِ کن کوآشکاراکرنے والا کلام لوگوں نے بالعموم بہت ہی کم پڑھااورسناہوگا،تصوف کی شیرینی وحلاوت عجب کے بجائے خودسپردگی لذتِ سخن کے آشناؤں نے مولاناروم،حافظ،سعدی اورعطاروغیرہم کے کلام میں پایاہوگا؛کیوں کہ ان متذکرہ اشخاص کے کلام کا بنیادی محورومدارصرف تصوف،عشقِ حقیقی،وارفتگی ہستی ہے ا ن کے علاوہ کسی دوسرے عناصر کی شمولیت کا کوئی بھی شائبہ نہیں ہے وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان کی فہم اورحس ہستی الہ کا ادراک کیے ہوئی تھی اورعشق حقیقی اورمجازی کے درمیان ایک حدِفاصل بھی مقررتھی کہ جہاں عشق حقیقی کی سرمستی اورتموج تھااوریہاں پردہ نہاں میں ہستی کی ہی جلوہ گری تھی اورعارفانہ کلام ان ہی جذبات وکیفیات،شیفتگی دل اورسودائے جاں کاآئینہ ہے۔زبان وادب میں اگرتصوف کا شمول نہ ہوتویقینا وہ محض قافیہ کی پابندی اوراپنے فطری سازوسوزسے عاری ہے،شاعری میں روح اورجان اسی وقت آسکتی ہے جب یہ عناصراپنی مکمل تابانی کیساتھ موجزن ہوں اورجوالفاظ منھ سے نکلے وہ اثروتاثیرکی ایک شی عجیب ہوں یہی تصوف اورعارفانہ کلام کا مقتضاہے اوراسی کا مطالبہ صوفیانہ شاعری کرتی ہے۔
حضرت پرتابگڈھی کاعارفانہ کلام،سخنوران فن،لذت ِ سخن کے آشناؤں اوردلدادہ عشق ہستی نیزفہم وادراک کے شعورومزاج کے شناساؤں کیلئے وہی سوزوہی سازوہی کیفیات دل وہی واردات جگروہی سودائے جاں اوروہی نشہ سرشاری فراہم کرتاہے جس کی طلب ایک سلیم العقل اورصالح مزاج کا حامل شخص کرسکتاہے،ماہرینِ لسانیات،تصوف اورر مز آشنائے وحدت نیزعوام کی ایک معتدبہ جماعت نے حضرت علیہ الرحمہ کے کلامِ عارفانہ میں باطنی کیفیات،صدائے ہستی رسا،سوزشِ جگر،حق آگاہی اورعرفان وادراک کوتسلیم و محسوس کیا اورعصرحاضرمیں مولانااحمدپرتابگڈھی کے عارفانہ کلام کوترجمانِ حق اورپیغامبراحسان ومعرفت کاایک جامِ لبالب بھی کہاکہ جس جام میں نشہ عشق مولیٰ،سکون وطمانیت اورحق شناسی ہے ،اوریہ تسلیم شدہ ہے کہ جودل آتشِ شوقِ وحدت اورسودائے جاناں میں سوختہ ہواس دل سے نکلنے والے الفاظ اپنی تاثیرکاایک عالم ِ نوآبادرکھتے ہیں اورہم جس عالم ِ نوکی آبادی کی بات کررہے ہیں وہ مولاناکے کلام میں بدرجہ اتم جابجاملتی ہے اوریوں محسوس ہوتاہے کہ ہر قدم میں ایک کائناتِ عشق اور’’رمزیتِ الٰہ‘‘ پنہاں ہے۔حضرت مولانانے مرزاغالب کے ایک شعر کی یوں ترمیم کی اوراسی شق کونمایاں کیا ؎
عشق کی شان نرالی ہے انوکھی احمدؔ
کہ لگائے سے لگے اور بجھائے نہ بجھے
اصل شعریوں تھا ؎
عشق پرزورنہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے

اس مذکورہ شعر میں غالب عشق کی افتاداورکلفتوں کاشکوہ کررہاہے کہ آتشِ عشق ازخودرفتہ ہوگئی ہے اولاًوہ بھڑک ہی نہیں رہی تھی اب بھڑک اٹھی ہے تواس کوسردکرناہمارے اختیاروقبضہ میں نہیں ہے نیزوہ اسی آتشِ عشق کے متعلق وضاحت کررہاہے کہ آتشِ عشق بڑی مشکل اورجاں سوزی کے بعدہی بھڑکتی ہے اورتادمِ واپسیں جوان ہی رہتی ہے،یہ توایک مجنوں صفت اوررندانہ کیفیت کے حامل شاعر کانظریہ تھاحضرت اقدس نے شکوہ عشق نہیں کیا؛بلکہ عشق کواثاثہ زیست،دوائے سوختہ دل اورمآلِ زندگی کہااوراس کی مدح بھی کی کہ عشق کی شان سب سے جدااورتمام محسوسات ومدرکات سے ماوراء ہے۔یہ حیات کوشعورِ جاوداں عطاکرتاہے،آتشِ عشق کالگانامشکلوں اوردقتوں سے نہیں ہوتاہے؛بلکہ آتشِ عشق لگانے کیلئے صرف تصورِہستی اورذکرِمحبوب ہے یہی وہ شی ہے جس سے آتشِ عشق لگتی ہے اورہمیشہ جوان رہتی ہے۔غالب نے شکوہ عشق شراب وصہباکے جوش اوراپنی تخیل آفرینی کے جنون میں کہاتھالیکن مولاناؒنے مدحِ عشق وقاروسکینت اورشرابِ وحدت کے نشہ عقل وفکررسامیں کیااورکہاکہ عشق کی آتش لگاناکارِمشکل نہیں؛بلکہ کارِآسان ہے،غالب کے یہاں شراب وصہبااورجامِ ارغوانی کی تندی تھی جوشکوہ عشق کیا،لیکن یہاں شرابِ طہورکی سکینت اوروقارموجزن ہے جومدحِ عشق کیاہے اوراس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غالب کے یہاں عشقِ مجازی تھااوریہاں جاوداں عشقِ حقیقی کی کارفرمائی اوراس کی سرشاری ہے،گویاحضرت کے عارفانہ کلام میں رمزیتِ الہ اورکائنات ِعشق کا قیام جابجاملتا ہے اوریہی مولاناؒکے عارفانہ کلام کاامتیازوتفوق ہے۔
اردوزبان وادب خواہ اپنے اعزازاورافتخارپرنازاں ہومگریہ تلخ حقیقت ہے کہ جب تک عشق کی سرمستی،جنون اورسوداکے ساتھ ساتھ موجِ صہبا،جامِ جم،میخانہ رنداں اورحصارِزنداں کاذکرنہ ہوتوشاعری اوراس کے لوازمات بے اثراورناپسندیدہ ہے؛بلکہ یہ ایسے لوازمات ہیں جن سے اردودنیاخودکوالگ نہیں کرسکتی اگر ناگہاں ان سے خودکوالگ بھی کردے توتنِ عریاں کے سواکچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا؛کیوں کہ اردوتغزل اوراس کے کیف وکم میں شراب کاجوش اوراس کی حدت اوراس کی تہہ میں معشوقِ مجازی کی جلوہ گری ہے،حیف کہ اسی سرمایہ ننگ پراردوادب کونازوافتخاربھی ہے۔غالب،میر،جگر،فانی،نشتر،آرزواوران جیسے دیگرشعراء کے کلام کاتجزیہ کرلیجئے بداہتاً کلام کی گرمی اورتندی کی وجہ معلوم ہوجائے گی کہ غزل میں تابانی کس بنیادپرہے غالب اس ذیل میں سرفہرست ہے کہ جام ومینا سے ازلی رشتہ تھا،لیکن صوفیاء کے کلام کی تہہ میں چھپے عنصرکارازمولاناؒکی اس پرکیف وبہارآفریں غزل میں ڈھونڈیئے کہ اس کی سطح میں کون ساعنصرپوشیدہ ہے ؎
جلا کر خاک کردے غیر کی الفت مرے دل سے
پلادے مرے ساقی وہ شرابِ آتشیں مجھ کو
ملیں وہ نعمتیں مجھ کو، تیری ادنی توجہ سے
تکلف برطرف کہتا ہوں،خود صد آفریں مجھ کو
میں خود ہی مست ہوکر رقص کرتا جھومتا ہر دم
ملا ہوتا مقدر سے اگر سازِیقیں مجھ کو
مجھے کچھ اس طرح اپنا بنالے اے مرے مولا
فرشتے وجد میں آکر کہیں جنت نشیں مجھ کو
سرورِغیر فانی، دارِفانی میں ہوا حاصل
مقدرسے ملی ہے جب سے دردِتہہ نشیں مجھ کو
میں اس قابل نہ تھا لیکن کر م ہے میرے مولا کا
پلاتے ہیں مئے توحید اب روح الامیں مجھ کو

مولانا کی غزل کے چنداشعارمیں سوزشِ دل،نشہ جام،شرابِ آتشیں کی خاکستری دیکھ لیجئے یہاں کون سا عنصرہے جس نے شوقِ فراواں،مستی وبیخودی،جنون اورخلش پیداکیاہے؟تصورِنگارِہستی کی معجزنماجلوہ گری ہے،شرابِ وحدت کی میکشی کی تندی اورمحویت ہے جس کے باعث علی الاعلان اپنے ساقی ازل سے کہہ رہے ہیں کہ میرے ساقیا·····!ایسی شرابِ آتشیں پلادے کہ میرے دل سے غیرِہستی کی الفت یک قلم سوختہ جاں اورفناہوجائے کہ بس تیری ہی الفت اور اسی کی جلوہ گری کی سرشاری میں مست رہوں۔مولانا کے اس شعر میں تھوڑی توجہ دیں ایک تمنائے دل،شوقِ جاوداں اورآرزوئے وصال کی کائناتِ لازوال کاادراک ہوگا شعر ہے ؎
میں خود ہی مست ہوکر رقص کرتا جھومتا ہردم
مقدرسے ملا ہوتااگرسازِ یقیں مجھ کو
دیکھ لیجئے ··········!مست ہوکر رقص کرنا اوروجدکاطاری ہوناایک ایسے محرک کے باعث ہوتا ہے کہ جہاں تصورِہستی کے بجائے ہستی کی تصویرسامنے آجائے اورجونگارِہستی تصوراتی عالم میں تھاوہ تصویرکے آئینے میں روبروہواوراپنے عاشقِ زارکوآوازدے کرکہے کہ میری تلاش میں کوبہ کوسرگرداں ہونے والو··!آؤذرااس تصورکودیکھ لوجسے ہردم اپنے شیشہ دل میں بساکررکھتے تھے آج وہ تمہارے روبروہے،یہی آرزوایک عاشقِ صادق کی ہوسکتی ہے اوردیدارِیارہی اس رندانہ زندگی کاماحصل اورمقصودہے اسی صدائے سروش کومولانانے ’’سازِیقیں‘‘سے تشبیہ دیاہے کہ اگر’’سازِیقیں‘‘کی سماعت مجھے میسرہوتی تورقص ووجدکاایک جہاں آبادہوتا،لیکن یہ ابھی حاصل نہیں ہے اوراس کا حاصل نہ ہونابھی شوق اورتڑپ میں اضافہ کی وجہ ہے؛کیوں کہ اگر دیدِیارہوجائے تومباداکہیں وہ آتشِ شوق اورطلبِ یارجوایک آتشیں عنصرکی شکل میں دل میں پنہاں ہے وہ وصل کی کامرانیوں سے محظوظ ہوکرسردنہ پڑجائے اورپھرمنصوروسرمدجیسی کیفیات یہاں مقصودبھی نہیں ہیں؛بلکہ یہاں توآتشِ شوق کی بیقراری کے باوجودوقاروسکینت اورحلم مقصودہے اوریہی تصوف اوراس کے اسراروغموض نیزنکاتِ دل ہائے جاں بلب کاتقاضاہے اوراسی کاشریعت بھی تقاضاکرتی ہے؛کیونکہ ’اناالحق‘کانعرہ محبوب نہیں ہے؛بلکہ اناالعبدکاغلغلہ ہائے شوق اورنعرہ ہائے مستانہ مقصودہے۔مولاناؒکے کلام میں یہی ’’مقصود‘‘اورمطمحِ نظرملتاہے اورہر جگہ’’اناالحق‘‘کانعرہ مستانہ ہی گونجتا ہے ۔شوق،وارفتگی اورسوختگی ٔ دل کی ایک تصویرِزیبانیزالفت کے لامتناہی سلسلہ کوبھی دیکھیں ؎
ساقی نے جسے جامِ محبت سے نوازا
دل اس کا ہے دل، اورنظر اس کی نظر ہے
ہم خوف سے لرزاں ہیں اورامیدسے رقصاں
قرباں!یہ سب ان کی محبت کا اثرہے
فیضانِ محبت ہے یہ فیضانِ محبت
اب میں ہوں،تری یادہے اوردیدہ تر ہے
میں ان کے سوا کس پہ فداہوں یہ بتادے
مجھ کودکھاان کی طرح کوئی اگرہے
احمد کوملے کیوں نہ غمِ عشق کی دولت
قسمت سے وہ محبوب کا منظورِنظرہے
دیکھ لیا!یہ’’ صدائیں،کیفیتِ امیدوبیم،ساقی کی مے نوازی،فیضانِ محبت،یادِجاناں اوردیدہ تر‘‘کااعلان اوراس کواپنااثاثہ زیست قراردیناکوئی ادنیٰ اورمعمولی بات نہیں ہے؛بلکہ بڑے حوصلہ اورتحت الشعورکافیصلہ ہے اگرعشقِ حقیقی کاتموج اورسرمستی نہ ہوتوبالیقین یہ عناصرایک ذات میں ہرگزپیدانہیں ہوسکتے تھے اوریہ ہوہی نہیں سکتاکہ خوف سے ’لرزاں‘اور’امیدسے رقصاں‘ہواجائے اورپھرمزیدطرہ یہ کہ اپنی اس خوش نصیبی پرنازبھی ہے کہ ’’غم عشق‘‘کی دولت بھی ملی ہے اور’’محبوب کا منظورِنظر‘‘بھی ہے۔واقعتایہ عشقِ حقیقی کی ہی کرشمہ سازی ہے کہ صداؤں کی شورش بپاہے،خوف سے لرزش بھی ہے توامیدِکرم سے قدموں میں اہتزازپیداہورہاہے اوررقص کی تمنائیں جواں ہورہی ہیں آخریہ کیوں؟کون ساعنصرکارفرماہے؟وجہ کیا ہے؟خودعاشقِ زاراپنی اس قابلِ رشک حالت کی وجہ بیان کررہاہے کہ ع
قرباں!یہ سب ان کی محبت کااثرہے
اردوزبان وادب میں بالعموم عجب وتکبر،خودمختاری ہواکرتی ہے اوراس کا برملااظہاربھی ہواکرتاہے لیکن صوفیانہ کلام میں یہ چیزیں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں؛قرآنی آیات اوراحادیث کے مضامین کی عاشقانہ تشریح،خودسپردگی،انابت اورقلت میں مسرت کاشائبہ ہواکرتاہے،مولاناؒنے اسی خودسپردگی کااپنے الفاظ میں یوں دلکش نقشہ کھینچاہے ؎
یہ دل کی ’آواز،کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
اس پرہے مجھے نازکہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
کچھ ہونامرا ذلت وخواری کا سبب ہے
یہ ہے مرا اعزازکہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
آئے گانہ سمجھ کسی اہل خردکی
یہ عشق کاہے راز، کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں
یہ دراصل حدیثِ پاک ’’من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘ کے مضامین کی تشریح ہے گویایہ امرتسلیم شدہ ہے کہ تواضع وانکساری اعزازکی بات ہے اورصوفیااورعارفین کے یہاں یہی شی مطلوب ہے نیزسالکین کواسی تواضع کی تعلیم بھی دی جاتی ہے کہ جب تک دل میں تواضع پیدا نہ ہوگاعنداللہ مقبولیت بھی نہیں ہوگی یعنی راہِ سلوک میں اولاًعجب وتکبراوربغض وعنادجیسے مہلک امراض کوختم کرناہوتاہے۔مولاناؒنے اسی تواضع کواپنے لئے اعزازتصورکیاہے اوریہ باتیں صرف ایک عارف اورحق آگاہ شخص ہی کہہ سکتاہے؛کیوں کہ ان کی نگاہیں ان اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہیں کہ جہاں ایک عام شخص کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی،مولانانے اس کے ذریعہ زبان وادب کے سرمایہ میں ایک بیش قیمت اورلازوال شی کا حسین اضافہ بھی کیا ہے۔مولانا کے کلام کادیوان طبع ہوچکاہے اہلِ ذوق اوراربابِ فہم اس سے محظوظ بھی ہورہے ہیں یقیناجب وہ کلام کی گیرائی اورگہرائی تک پہنچتے ہوں گے اورتصوف کی حلاوت وشیرینی اورسوختگی دل نیزتصورِہستی کی کیفیات اورسوزشِ قلب وجگردیکھتے ہوں گے توبے ساختہ ان کی زبان سے یہ شعرجاری ہوجاتاہوگا ؎
فرماتے ہیں یہ اہلِ محبت،ہومبارک
’’احمد‘‘ترادیوان ہے،عرفانِ محبت
نوٹ : یہ تحریر تقریباً چار سال قبل لکھی گئی تھی ہندوستان کے کئی رسائل میں شائع بھی ہوئی تھی ،تاہم یہاں ارباب ذوق کی خدمت میں پھر سے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تحریر تو اچھی ہے مگر کمپوزنگ بہت خراب ہے کہ چار چار پانچ پانچ الفاظ ملا کر، درمیان میں سپیس دیے بغیر، لکھے گئے ہیں ۔
 
Top