شکیب
محفلین
آنسوؤں کے تاروں سے دامنِ شبِ غم تک ہر نفس سجایا ہے ہر طرح نکھارا ہے
ہم نے اپنی خلوت کو حاصلِ محبت کو کتنی دیدہ ریزی سے انجمن بنایا ہے
شانِ بے نیازی جب اتنی نور ساماں ہے التفات کا عالم کون جانے کیا ہوگا
ایک بار گزرے تھے دور سے وہ بے پردہ اور میری دنیا میں آج تک اجالا ہے
شکریہ تغافل کا شکریہ جفاؤں کا رنگ و نور و نکہت سے سج گئی ہے تنہائی
آپ کی عنایت سے آج دردِ دل اپنا پھول بن کے مہکا ہے چاند بن کے چمکا ہے
پھول کی مہک مجھ میں خار کی کھٹک مجھ میں برق کی چمک مجھ میں شعلے کی لپک مجھ میں
میں نے ساری دنیا کے ایک ایک ذرے کا اپنے دل کی دنیا کو آئنہ بنایا ہے
گرمیِ بیاباں کیا خنکیِ چمن کیسی اب فضائے عیش و غم دل کو چھو نہیں سکتی
حسن کے تلون کا رنگ ہم نے دیکھا ہے اب ہماری نظروں میں دھوپ ہے نہ سایہ ہے
سعیِ پردہ داری سے بات بن نہیں سکتی اب نقاب اٹھا دیجے ورنہ یہ بتا دیجے
رنگِ لالہ و گُل سے نورِ ماہ و انجم تک کس کی ضو فشانی ہے کون جلوہ آرا ہے
----- مولانا سعید اعجاز کامٹوی (مرحوم) -----
ہم نے اپنی خلوت کو حاصلِ محبت کو کتنی دیدہ ریزی سے انجمن بنایا ہے
شانِ بے نیازی جب اتنی نور ساماں ہے التفات کا عالم کون جانے کیا ہوگا
ایک بار گزرے تھے دور سے وہ بے پردہ اور میری دنیا میں آج تک اجالا ہے
شکریہ تغافل کا شکریہ جفاؤں کا رنگ و نور و نکہت سے سج گئی ہے تنہائی
آپ کی عنایت سے آج دردِ دل اپنا پھول بن کے مہکا ہے چاند بن کے چمکا ہے
پھول کی مہک مجھ میں خار کی کھٹک مجھ میں برق کی چمک مجھ میں شعلے کی لپک مجھ میں
میں نے ساری دنیا کے ایک ایک ذرے کا اپنے دل کی دنیا کو آئنہ بنایا ہے
گرمیِ بیاباں کیا خنکیِ چمن کیسی اب فضائے عیش و غم دل کو چھو نہیں سکتی
حسن کے تلون کا رنگ ہم نے دیکھا ہے اب ہماری نظروں میں دھوپ ہے نہ سایہ ہے
سعیِ پردہ داری سے بات بن نہیں سکتی اب نقاب اٹھا دیجے ورنہ یہ بتا دیجے
رنگِ لالہ و گُل سے نورِ ماہ و انجم تک کس کی ضو فشانی ہے کون جلوہ آرا ہے
----- مولانا سعید اعجاز کامٹوی (مرحوم) -----