طارق شاہ
محفلین
غزل
مولانا اقبال سہیل
اصرار نہیں لیکن، سُنئے تو سُنانا ہے
اک دکھ کی کہانی ہے، اک غم کا فسانہ ہے
لے دے کے محبت کا اتنا ہی فسانہ ہے
اک اشکِ سحرگاہی، اک آہِ شبانہ ہے
دل وقفِ تلاطم ہے اور لب پہ ترانہ ہے
موجوں کے ترنّم میں میرا ہی فسانہ ہے
میں تیری حکایت ہوں تو میرا فسانہ ہے
جس نے مجھے سمجھا ہے، اُس نے تجھے جانا ہے
اس عالمِ ہستی کا ہر فرد یگانہ ہے
کثرت نہیں، وحدت کا اک آئنہ خانہ ہے
کھونا جسے کہتے ہیں، وہ اصل میں پانا ہے
مرنا ترے کشتوں کا جینے کا بہانہ ہے
نیرنگ ہی فطرت ہے اِس عالم ہستی کی
اِک میری ہی قسمت کیا، گردش میں زمانہ ہے
تاثیر نِرالی ہے میرے بھی فسانے کی
سوتی ہے مِری قسمت، بیدار زمانہ ہے
اقبالِ سِیاہ نامہ کیا طالبِ شہرت ہو
وہ ننگِ دوعالم خود، رُسوائے زمانہ ہے
مولانا اقبال سہیل
( ١٩٣٩ )